ہم ایک عجیب سے خبط میں مبتلاء ہیں، ہم ان لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں، جن میں کوئی خامی نہ ہو، کوئی عیب نہ ہو۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی انسان میں خامیاں نہ ہوں یا عیب نہ ہوں ؟
دوسرا کوئی انسان چاہیے جتنا بھی اچھا اور نیک صفت کیوں نہ ہو، ہم ایک انتہائی چھوٹی سی خامی کی وجہ سے اس کی کردار کُشی شروع کر دیتے ہیں۔
ہر تیسری محفل میں یہ فقرہ سننے کو ملتا ہے، چھوڑیں جی، اب تو نیک لوگ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ عجیب بیماری ہے، ہم اپنے ارگرد گھومنے اور چلنے والے لوگوں میں کوئی اچھائیاں ہی نظر نہیں آتیں، ان میں کوئی ولی اللہ ہی نظر نہیں آتا۔
جو خاتون صبح پانچ بجے اٹھتی ہے،عبادت کرتی ہے، آٹا گوندھتی ہے، پورے گھر کے لیے ناشتہ تیار کرتی ہے، بچوں کو تیار کر کے اسکول بھیجتی ہے، خود تیار ہو کر اسکول پڑھانے چلی جاتی ہے، دو بجے تھک ہار کے واپس آتی ہے، دوبارہ بچوں کی دیکھ بھال میں لگ جاتی ہے، شام کا کھانا پکاتی ہے، اس دوران کبھی کپڑے دھو اور کبھی گھر کی صفائیاں کر اور تھک ہار کے دردوں سے چور چپ کر کے بستر پر لیٹ جاتی ہے، اس کو ہم ولی اللہ ہی نہیں سمجھتے۔ جو خاتون حاملہ ہے اور دردوں کے باوجود سارا دن آپ کے، آپ کے بچوں کے اور ساس سسر کے کپڑے دھوتی ہے، استری کرتی رہتی ہے، کھانا پکاتی ہے، اس کو ہم عام سی ماں یا ایک عام سی اسکول ٹیچر کا نام دے دیتے ہیں۔
جو شخص صبح سویرے اٹھتا ہے، نماز پڑھتا ہے، پانی اور رات کے بچے ہوئے سالن کے ساتھ دو روٹیاں کھا کر کام پر چلا جاتا ہے، سارا دن مزدوری کرتا ہے، مزدوری کی وجہ سے ہاتھ میں چھالے پڑ جاتے ہیں، دوپہر کو کبھی بھوکا رہتا ہے تو کبھی اچار کے ساتھ پونے میں بندھی ہوئی اپنی دو روٹیاں کھاتا ہے۔ 45 سینٹی گریڈ میں دھوپ کھڑا کام کرتا رہتا ہے، شام کو سوکھے اور پپڑی زدہ ہونٹوں کے ساتھ گھر آتے ہی چار پائی پر گر پڑتا ہے۔ دھوکا نہ دینے والے، جھوٹ نہ بولنے والے، فریب نہ کرنے والے اس عام سے انسان کو ہم ولی اللہ ماننے سے ہی انکاری ہیں۔ اسے ہم عام سا مسلمان، اللہ دتہ مزدور، اللہ دتہ چوکیدار، اللہ دتہ ریڑھی والہ، اللہ دتہ لوہار، ماسٹر صاحب، کلرک اور پتہ نہیں کون کون سا نام دے دیتے ہیں۔
جو رشوت نہیں لیتا لیکن اپنے بچوں کو سارا مہینہ دال اور سستی سبزیاں کھلاتا ہے، اسے ہم اللہ کا دوست ہی نہیں سمجھتے۔ جس ہاتھ سے کام کرنے والے کو اللہ اپنا دوست کہتا ہے، اس کو ہم عام سا شخص سمجھتے ہیں لیکن جس نے ساری عمر کام نہیں کیا ہوتا، جو خود اپنا پانی کا گلاس اٹھا کر نہیں پیتا لیکن ’پھونکیں مارنے‘ میں ماہر ہے، اسے ہم پتہ نہیں کون سے مخلوق سمجھ بیٹھتے ہیں۔
ہم درباروں پر چار چار کلو وزنی قیمتی کڑھائی والی چادریں چڑھاتے ہیں لیکن اس طلاق شدہ ولی اللہ خاتون کو کوئی ایک کلو گھی خرید کر دینے کو تیار نہیں ہوتا، جو صرف اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر دوسری شادی نہیں کرتی۔
یہ ہم کن لوگوں کی تلاش میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں؟ ہم عجیب لوگ ہیں 450 کلومیٹر دور جا کر دیگیں چڑھاتے ہیں اور ہمسایہ فاقے کر رہا ہوتا ہے اور یہ سوچتے ہیں یہ کونسا نیک آدمی ہے، جس کی مدد کریں ؟