اخوت والے ڈاکٹر امجد ثاقب

ڈاکٹر ثاقب امجد کسی تعارف کے محتاج نہیں ،ڈاکٹر صاحب نے فیصل آبادکی دھرتی پہ آنکھ کھولی ڈاکٹرصاحب ایم بی بی ایس کی ڈگری لینے کے بعد سول سروس چلے گئے ، دوران سروس انہیں پنجاب رورل سپورٹ پروگرام کا مینجر بنایا گیا ، ڈاکٹر صاحب نے سپورٹ پروگرام کی مینجری سے استعفیٰ دیا اور عوام کی خدمت کرنے کی ٹھان لی ۔

، 2001 ء میں ’’اخوت‘‘ کی بنیاد رکھی جس نے لوگوں کو بلا سود قرضے دینے شروع کیے ، ابتداء میں ڈاکٹر صاحب دس ہزار تک قرضہ دیا کرتے تھے لیکن اب یہ بڑھتے بڑھتے تیس سے پچاس ہزارتک پہنچ گیا ہے ۔

ڈاکٹر صاحب کا نام اس وقت دنیا کے اکثر ممالک میں گونج رہا ہے ، میری دھرتی کے لیے یہ شخص قابلِ فخر ہے ، میرے ملک کی پہچان جہاں ایک دہشت گر د ملک کے طور پر کروائی جاتی ہے وہیں ڈاکٹر صاحب کا نام آتے ہی بیرون ملک بسنے والے لوگ یہ سوچ بدلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب اور انکے رفقاء نے جو تنکا تنکا اکھٹا کیا آج اس کی آواز دنیا بھر میں سنائی دے رہی ہے ، دیا چراغ بن چکا ہے ، پودا تناور درخت کی صورت اختیار کر چکا ہے ، کئی گھر بے بسی اور بے کسی سے نکل چکے ہیں ، مانگنے والے دینے والے بن چکے ہیں ، کئی بے روزگار افرادبا روزگارہو چکے ہیں ۔

ڈاکٹر صاحب اگر بیوروکریٹ ہی رہتے تو گمنامی کی موت مر جاتے لیکن ڈاکٹر صاحب نے تاریخ میں زندہ رہنے کا فیصلہ کیا اور مجھے یقین کامل ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا نام رہتی دنیا تک رہے گا ، اخوت کا سفر آج کتابی صورت میں نہ بھی ڈھلتا تو سینہ بہ سینہ چلنے والی روایتیں اور حکایتیں نسلوں چلتیں ۔

ڈاکٹر صاحب کی تنظیم میرے ضلع میں بھی کام کر رہی ہے کئی لوگ اس سے مستفید ہو چکے ہیں، حق تو یہ تھا کہ میں وہ دعائیں لکھتا جو ڈاکٹر صاحب کو دی گئی ہیں لیکن آج تھوڑا سا گلہ کرنا چاہتا ہوں ، اقبال کی طرح لکھنا چاہتا ہوں کہ خو گر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سُن لے ، آپ اسے گلہ کہیں ، شکایت کہیں یا سفارش جو بھی نام دیں آپکو حق ہے،

شاید کچھ لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ میری رہائش آج کل جس علاقے میں ہے وہ ضلع مانسہر ہ کا مشہور علاقہ ڈھوڈیال ہے ، ڈھوڈیال متوسط لوگوں کا علاقہ ہے ، پورے ضلع مانسہرہ میں یہ علاقہ’’ اخوت ‘‘کی مہربانیوں سے محروم ہے ، یہاں کے ذمہ داروں محسن حفیظ بھائی اور حافظ مدثر بھائی سے بات کر چکا ہوں کہ میرے علاقے میں بھی کام شروع کریں ، مجھے اپنے غریبوں کا دکھ تنگ کرتا ہے ، میں انفرادی طور پر تعاون کرواتا ہوں لیکن اکیلا بندہ اکیلا ہوتا ہے ، میں چاہتا ہوں کوئی جماعت یہاں کام کرے لیکن میرے یہ دونوں بھائی مجھے معذور لگے یہ بھی آج اور کل پر ٹال رہے ہیں ۔

کل میری ایک بہن نے مجھے پیغام بجھوایا کہ ہزاروی بھائی آپ کچھ بھی نہ کر سکے ، آپ نے بھی مجھے ٹرخا دیا ہے ، میرے پاس سونے کی انگوٹھی ہے میں اسے بیچ کر سامان خریدنا چاہتی ہوں، میں نے روکا کہ آپ ایسانہ کریں میں ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں خود عرض کرتا ہوں مجھے امید ہے آپ کاکام ہو جائے گا ۔ میرے علاقے میں بھی اس کام کی ابتداء ہوگی ، میرے علاقے کے لوگوں کو بھی روزگار ملے گا، ’’اخوت ‘‘کے ہوتے ہوئے اگر میری مائیں بہنیں کانوں کی بالیاں اور ہاتھوں کی انگوٹھیاں بیچیں تو یہ بدقسمتی ہے ، عورتوں کا زیور غیرت کی علامت ہے ، عورتوں کا زیور حسن ہوتا ہے ، میں نہیں چاہتا ہماری غیرت بازاروں میں بکے ، میں نہیں چاہتا ہمارا حسن غیروں کے ہاتھ لگے ، میں نہیں چاہتا کہ میرے مائیں بہنیں کسی اور کے سامنے دست طلب دراز کریں ، میں نہیں چاہتا کہ میری مائیں بہنیں مایوسی کا شکار ہوں، میں نہیں چاہتا کہ مایوسی اور فقر انہیں کفر کی طرف لے جائے ، میں کئی ایسی بیواؤں کو بھی جانتا ہوں جن کی بچیاں جہیز کے انتظار میں ہیں ، کئی عورتیں بچوں کی فیس بھی ادا نہیں کر سکتیں ، کئی جوان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، کئی نوجوان نشے کے عادی بن چکے ہیں ، غم ہلکا کرنے کے لیے وقتی نشہ اختیار کرتے ہیں لیکن پھر اسی کا شکار ہو کے رہ جاتے ہیں،

ڈاکٹر صاحب میرے علاقے کا چکر لگائیں تو انہیں معلوم ہو کہ کیسے کیسے لوگ ایسے ویسے ہوگئے ہیں، مجھے اُمید ہے کہ میری باتیں ڈاکٹر صاحب تک پہنچیں گی اور ان پہ عمل بھی ہوگا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے