مولانا مسعود اظہر، ہمارے جہادی کینوس پربنی بہت سی تصویروں میںسے ایک ہے۔ اُسے 1994ء میں انڈیا میں گرفتار کیا گیا اور اس نے کئی برس بھارتی جیلوں میں گزارے۔ تاہم دسمبر 1999ء میں ایک بھارتی طیارہ اغوا کرکے قندھار میں اتارلیا گیا۔ اغواکاروں نے طیارے کے مسافروں کے بدلے مولانا مسعود اظہر کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ اس پر مولانا مسعوداظہر، عمر سعید شیخ، جسے بعد میں صحافی ڈینئل پرل قتل کیس میں سزاہوئی، اور مشتاق زرگر کو بھارتی حکام نے قندھار پہنچا کرطالبان، جن کی افغانستان پر حکومت تھی، کے حوالے کردیا ۔ اُس وقت کے بھارتی وزیر ِخارجہ، جسونت سنگھ بذات ِخود قندھار گئے اور دہشت گردوں کو طالبان کے حوالے کرنے اور مسافروں کو رہا کرانے کے عمل کی نگرانی کی۔
طالبان مولانا اور اُس کے دونوں ساتھیوں کو لے کر پاک افغان بارڈر پر چمن کے مقام تک لائے اور وہاں سے اُن کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ ’’غائب ‘‘ ہوگئے ہیں۔ بعد میں مولانا مسعود اظہر پاکستان میں ایک ہیرو کے طور پر نمودار ہوااورکئی مقامات پر اُس کا استقبال کیا گیا۔ مشرف حکومت کو اس بات کا احساس کرنے میں کچھ دیر لگ گئی کہ طیارے کے اغوا کے نتیجے میں رہا ہونے والے ایک دہشت گرد کی اس طرح عوامی پذیرائی درست نہیں، چنانچہ مولانا نے عوامی سطح پر نمودار ہونا موقوف کردیا۔ اس کے بعد جیش کی بازگشت ایک مرتبہ پھر میڈیا میں سنائی دی جب دسمبر 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر ہونے والے حملے کا الزام لشکر ِ طیبہ کے ساتھ اس پر بھی لگا۔ اُس دوران پاکستان ایک طرف تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا مکمل طور پر اتحادی تھا تو دوسری طرف ہمارے ’’جہادی دوست‘‘ بھی سرگرم ِ عمل تھے۔ پارلیمنٹ پر حملے نے اتنا تنائو پیدا کردیا کہ سرحد پر پاکستانی اور بھارتی دستوں نے جنگ کے لئے مورچے سنبھال لئے اوربر ِ صغیر پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے۔
[pullquote]اس یاددہانی کا مقصد یہ تھا کہ مولانا مسعود اظہر ایسی کارروائیوں کی طویل تاریخ رکھتا ہے۔ چونکہ کبھی اسلام آباد میں آبپارہ کے نزدیک قومی نظریات کی آبیاری کرنے والے اسکول کی ایک ذیلی شاخ جہاد ی تصورات کی امین تھی، اس لئے یہ قیاس کرنا بعید از حقیقت نہ ہوگا کہ اس اسکول کے ماہر ’’اساتذہ‘‘ اور مولانا ایک دوسرے کو کافی عرصے سے جانتے ہوں گے۔ چنانچہ یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ یا تو ہم پرلے درجے کے احمق ہیں یا ہم دنیا کو احمقوں کی بستی سمجھتے ہیں۔ یہ سادہ سی بات سمجھنے کے لئے جدید ریاضی دان ہونے کی ضرورت نہیں کہ اگر سرحد پار کوئی کارروائی ہوتی ہے ، جیسا کہ پارلیمنٹ پر حملہ، ممبئی حملے یا پٹھان کوٹ پر حملہ ، توشک کسی خلائی مخلوق پر نہیں، ہمارے جہادی آپریٹس پر ہی کیا جائے گا، اور یہ بات ہم سب جانتے ہیں اس آپریٹس کی رسائی بہت دور تک ہے۔
[/pullquote]
جب 2008ء میں ممبئی حملے ہوئے تو کہا گیا کہ حملے کو پاکستان سے کنٹرول کیا جارہا تھا۔ اب پٹھان کو ٹ پر حملہ ہوتا ہے تو بھارتی کہتے ہیں کہ اس کا سراغ پاکستان کی طر ف جاتا ہے۔ یا تو ہم یہ کہیں کہ بھارتی بے سروپا باتیں کررہے ہیں اور ہم اپنے موقف پر ڈٹے رہیں، یا پھر ہم اس الزام کو سنجیدگی سے لیں۔ پاکستان سرکاری طور پر ملوث نہ بھی سہی، لیکن اگر ممبئی حملوں یا اب پٹھان کوٹ حملوں میں اس کی سرزمین استعمال ہوئی ہے تو کیا بطور ریاست یہ پاکستان کے لئے باعث ندامت نہیں؟یہ کوئی نہیں کہہ رہا کہ یہ حملے سرکاری سرپرستی میں کئے گئے ہیں(یہ حماقت تو خودکشی کے مترادف ہوگی)،لیکن اگر اُن حملوں میں ملوث افراد پاکستانی سرزمین پر موجودگی رکھتے ہیںتو کیا ایک مرتبہ پھر پاکستان دنیا کی توجہ کا مرکز نہیں بن جائے گا کہ یہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ ہے؟
ہمارے فوجی افسران اور جوان جہادی عناصر کے خلاف جنگ میں بھاری قربانیاں دے رہے ہیں،لیکن عین اس وقت یہ انسان دشمن عناصر، جن کے مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ماضی میں تعلقات رہے ہیں، ان قربانیوں کی تحقیر کرتے ہوئے جہادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیا اس بات کی تفہیم بہت دشوار ہے کہ اس طرح فوج اس جنگ میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکے گی ۔ جہادی عناصر کی بہت سی ’’اقسام ‘‘ ہیں اور ان میں سے کچھ ہونے والے آپریشن کی وجہ سے جان بچانے کے لئے ادھر اُدھر بھاگ رہی ہیں، کچھ روپوش ہیں لیکن کچھ ایسی ہیں جو منظر پر موجود ہیں۔ مولانا مسعود ا ظہر کا شمار اس تیسری قسم کے جہادیوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ آج کل جلسے جلسوں میں تقریریں نہیں کررہا تھا لیکن بہاولپور میں اسکے گھر میں اُس کی موجودگی کا ہرکسی کو علم تھا۔ چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ ایک آزاد شہری کے طور پر رہ رہا تھا، گویا مفرور نہ تھا، تو اُس کی سرگرمیوں پر نگاہ کیوں نہ رکھی گئی؟بے شک ابھی ہم تمام حقائق کو نہیں جانتے ، اس لئے یہ محض شک ہے، اور ہم اس بات سے بھی ناواقف ہیں کہ بھارتی حکام نے ہمارے حوالے کس قسم کے ثبوت کئے ہیں اور کیا اُن سے جیش کے ملوث ہونے کا ثبوت مل پائے گا؟ جیش کے کچھ کارکنوں کی گرفتاری سے ایسا لگتا ہے کہ ہم بھارتیوں کی باتوں پر کسی نہ کسی حد تک یقین کررہے ہیں۔
[pullquote]چنانچہ اس صورت میں ہم کسے مورد ِالزام ٹھہرائیں؟ اس سے پہلے ہمارے حکمران کیا کررہے تھے؟ پنجاب حکومت، جس کے سر پر میٹرو کا خبط سوار ہے، نے دہشت گردی کے مسئلے کو سنجیدگی سے کیوں نہ لیا؟ بات یہ ہے کہ جنوبی پنجاب فاٹا نہیں، وگرنہ اگر تحریک ِطالبان پاکستان ، جس کی چھتری تلے پنجابی طالبان کے گروہ بھی موجودہیں، پرفاٹا میں ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے اور کراچی میں اہم آپریشن کئے جاسکتے ہیں تو بہاولپور میں کیوں نہیں، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ علاقہ مذہبی انتہا پسندی کا مرکز بن چکا ہے؟اب پنجاب میں بھی کراچی کی طرز کے رینجرز آپریشن کی بات ہورہی ہے، لیکن ا س سے پہلے حکومت ِپنجاب نے ہمیں اس افسانہ طرازی سے بہلا رکھا تھا کہ پنجاب میں انتہا پسندی کا کوئی وجود نہیں اور نہ ہی یہ کوئی مسئلہ ہے، لیکن اگر پٹھان کوٹ کا جنوبی پنجاب کے عناصر سے کوئی تعلق ثابت ہوگیا تو پھر ؟ یہ دروغ گوئی کس کے کھاتے میں جائے گی؟
[/pullquote]
اس مسئلے کا وسیع تر ادراک ضروری ہے۔ اس کا تعلق محض بھارت کو خوش کرنے سے نہیں، اور نہ ہی سیکرٹری خارجہ کے اجلاس کی راہ ہموار کرنے کے لئے دکھاوا درکار ہے، دہشت گرد، چاہے وہ ملک میں کارروائی کریں یا بیرونی ممالک میں ، کا خاتمہ ہم پر فرض ہوچکا ہے۔ اگر ان گروہوں کی موجودگی کا ماضی میں کوئی جواز موجود بھی تھا تو بھی وہ وقت اب جاچکا ۔ ہمارے پالیسی سازوں کو یہ سمجھ کب آئے گی کہ اب ان گروہوں کی سرپرستی کرنا ممکن نہیں۔ یہ درست ہے کہ ہم ماضی کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ سوویت یونین نے افغانستان پر ہماری منشا سے حملہ نہیں کیا تھا اور پھر اس کے جواب میں ہمیں بھی کچھ نہ کچھ کرنا پڑا، اور شاید اُس وقت ہم یہ نہ بھانپ سکے کہ کل کو کیا خطرات پیش آسکتے ہیں۔ یہ ماضی تھا، لیکن اب حال اور مستقبل ہمارے سامنے ہیں۔ اس ضمن میں ہمیں نصیحت کے لئے امریکہ کی ضرورت نہیں، ہمیں بھارتی ڈکٹیشن بھی نہیں چاہئے کہ پٹھان کوٹ کے بعد ہمیں کیا کرنا ہے۔ یہ ہماری سلامتی، ہماری بقا کا سوال ہے کہ ہم سمجھ لیں کہ مسعود اظہر اور ان جیسے دیگر انتہا پسندوں کا وقت اب ختم ہوچکا۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے بھارت کیساتھ تعلقات معمول پر نہ آئیں، کوئی مذاکرات نہ ہوں، لیکن اس کے باوجود ہمیں جہاد کے نام پر جاری جنگ کے انفراسٹرکچر کو ختم کرنا ہے۔ اس کے ذریعے نہ ہم افغانستان میں اتھارٹی حاصل کرسکے اور نہ ہی کشمیر آزاد ہوا، بس ہمارا اپنا گھر شعلوں میں جل اٹھا۔ا سٹیٹ آف یونین خطاب میں صدر اوباما نے کہا کہ پاکستان میں ابھی عشروں تک عدم استحکام رہے گا۔ ہم کو اُنہیں غلط ثابت کرنا ہے۔ –
بشکریہ روزنامہ جنگ