آئین پاکستان اور قانون کے مطابق ملک اقلیتی برادری و اکثریتی برادری کو برابری کے حقوق دینے کا وعدہ کرتا ہے چاہے کسی بھی مذہب سے ان کا تعلق ہو لیکن پاکستان میں کچھ اقلیتی کمیونٹیوں کو ان کے مکمل حقوق نہیں مل رہے۔ مثال کے طور پر، میری گفتگو کے دوران جب میں احمدپور شرقیہ اور اس کے ارد گرد علاقوں کی کرسچن کمیونٹی سے بات کی تو واضح ہوا کہ ان کو اپنے مذہب کے عمل کرنے اور سکون پذیری حاصل کرنے کے لئے عبادت گاہوں کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
اس بارے ارونا کا کہنا ہے کہ ہماری کمیونٹی کم ہونے کی وجہ سے ہمیں چرچ سے محروم رکھا گیا ہے ، عبادت کے لیے دوسرے شہر جانا پڑتا ہے، مہنگائی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے گھر کے سب افراد بھی نہیں جا سکتے، اتنا دور جانا ہمارے لیے بہت مسائل پیدا کرتا ہے اگر ہمیں ادھر ہی عبادت گاہ بنا دی جائے تو ہمارے لیے آسانی ہوگی، جس میں میرے پورے گھر والے عبادت کے لئے آسانی سے شریک ہو سکیں گے۔
بنسی نے بتایا کہ میں ایک مزدور آدمی ہوں، میرے پانچ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ ہمارے پرچم پاکستان میں سفید رنگ ہماری نشاندہی کرتا ہے جس پر ہم فخر محسوس کرتے ہیں اور ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم آزاد شہری ہیں، اسی طرح دیگر مذاہب کے لوگ بھی ہماری طرح آزاد ہیں یہ سب ہونے کے باوجود معاشرہ ہم سے غیر منصفانہ رویہ کیوں رکھتا ہے! ہم احمد پور شرقیہ میں تعداد میں کم ہیں تو کیا ہمارا حق نہیں کہ ہمیں چرچ بنا دیا جائے جس سے ہمیں آسانی مل سکے۔
اسسٹنٹ کمشنر احمد پور شرقیہ ندیم ہاشمی سے جب بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ چونکہ کرسچن کمیونٹی کی تعداد باقی کمیونیٹیز سے کم ہونے کی وجہ سے چرچ نہیں بن سکا اور جو چند لوگ ہیں تو انہوں نے بھی کبھی ہم سے اس بارے مطالبہ نہیں کیا ۔ پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 20 کا ذکر ہے جو آپ کے مذہب کو عمل کرنے اور چرچ، مسجد یا مندر جیسی مذہبی جگہوں کو قائم کرنے کا حق حاصل کرتا ہے۔
مولوی نصراللہ کا کہنا تھا کہ اگر آپ شہری ہیں تو آپ کو اپنے مذہب کو اختیار، عمل اور تشہیر کرنے کا حق ہے، مسیحی یا مسلمان، اپنی مذہبی جگہوں اور مذہبی گروہوں کو قائم کرنے اور دیکھ بھال کرنے کا حق رکھتے ہیں، اسی طرح پاکستان کے مرکزی مذہب اسلام کے تحت جہاں ہمیں ہمیشہ انصاف کے ضوابط کی پیروی کرنے کا امکان ہے وہیں پر مختلف اقلیتی کمیونٹیوں کو بھی غیرمساوی طریقے سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انہیں عوامی اقتصادی فرصتوں، تعلیم کے راستوں اور مقامی حکومت کی شرکت کے امکانات کو بھی اختصاص دی جاتی ہے۔
کلامِ اللہ جو کہ اسلام کی مذہبی کتاب ہے میں فرماتا ہے : "مذہب پر کوئی زبردستی نہیں”۔ اس کتاب میں یہ بھی آیت ہے کہ اسلام کے پیغمبر کو غیر مذہبیوں سے کہنا چاہئے : "تمہارا مذہب تمہیں اور میرا مذہب مجھے”، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر کسی کے مذہبی اختیار کو احترام دینا چاہئے۔
اس بارے میں سماجی کارکن شیخ عزیز الرحمن کا کہنا تھا ، مذہبی اقلیتی کمیونٹیز وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے علاقے کے اکثر لوگوں سے مختلف مذہب کا پیرو ہوتے ہیں۔ یہ دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں اور عموماً اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں سنگین مسائل اور ناانصافی کا سامنا کرتی ہیں۔ کیونکہ باقی کمیونیٹیز سے مسیحی کم تعداد میں ہیں تو اس سہولت سے محروم ہیں- ان کو اکثر کام کے مواقع ، سیاست، یا سماجی سرگرمیوں میں اک برابر حصے کے لئے نہیں دیا جاتا جیسے کے اکثریت کو دیا جاتا ہے۔ کرسچن اقلیت کے لئے احمدپور شرقیہ میں ان کی بڑی ترجیح یہ ہے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کرنے کے خصوصی مقامات نہیں ملنے کی کمی کو لے کر پریشان ہیں۔
احمدپور شرقیہ میں رہائشی لوگ تائید کرتے ہیں کہ مختصر مذہبی عبادت کی جگاہوں کو بنانا ان کے حقوق کو حفاظت فراہم کرنے کے لئے اہم ہے تاکہ وہ اپنے عقائد کے مطابق سکون سے عبادت کر سکیں اور اپنی رائے کو بیان کر سکیں۔ احمدپور شرقیہ کے لوگوں نے دوسرے ان لوگوں کے اثرات سے بچنے کے لئے مثبت روایت رکھی ہے کیونکہ وہ ایک ایسے مستقبل کی تمنا رکھتے ہیں جہاں ہر کوئی شامل ہوتا ہے اور وہ بغیر کسی مشکل یا ممانعت کے اپنا مذہب پر عمل کر سکتا ہے۔
ہمارے پاکستان کے معمول کے لوگ بھی اپنے علاقے کے ہر فرد کو اپنے مذہب کو عمل کرنے کی آزادی دینے کی ذمہ داری رکھتے ہیں۔ اگر حکومت اس احترام کی دیکھ بھال کرے اور ان کے حقوق کی حفاظت فراہم کرے تو اس سے ملک کے ترقی کو بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ ان کی شاملیت مختلف ترقیاتی منصوبوں میں نہ صرف معاشی بڑھتی بلکہ مل کر علم و فرہنگ کی دولت سے بھر دیتی ہے، سماجی ہم آہنگی کی بنیاد رکھتی ہے اس اصول کے مطابق جب مذہبی اقلیتوں کو بھی اشتراک اور ملک کے ترقیاتی منصوبوں میں شامل کیا جاتا ہے تو یہ ملک کو زیادہ کامیاب اور ہموار ملک بنانے کی راہ میں مدد فراہم کرتا ۔ انہوں نے مذہبی آزادی کی اہمیت پر زور دیا، اپنے مذہب کو کسی بھی رکاوٹ یا امتیاز کے بغیر عمل کرانے کے حق کو تاکید دی۔
اس حوالے مسیحی کمیونٹی کے مذہبی رہنما بشپ رہنما کا کہنا ہے کہ احمد پور شرقیہ سمیت پنجاب کے بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں پر مسیحوں کے لیے گرجا گھر نہیں ہیں، جس کی وجہ سے لوگ گھروں میں عبادت کرنے پر مجبور ہیں ایسٹر اور کرسمس کے موقع پر یہ لوگ سال میں دو مرتبہ ہی چرچ آتے ہیں، جس کے لیے انہیں ایک سے ڈیڈھ گھنٹے کا سفر طے کر کے بہاولپور آنا پڑتا ہے، حکومت آگر مسیحوں کو برابر کے حقوق دینے میں سنجیدہ ہے تو ان کے لیے عبادت گاہوں کا بندوست کرے آئین پاکستان کے تحت ہر شہری کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے اور عبادات کا پورا حق حاصل ہے مگر بد قسمتی پاکستان کے کئی علاقوں میں یہ مسئلہ درپیش ہے جس میں احمد پور شرقیہ بھی شامل ہے۔