زرعی ملک میں کسان ہی مر گیا

مہنگائی کے الارم نے ہماری فصل ربیع کے امکانات خاک میں ملا دیئے۔۔۔ فصل ربیع ایسی فصل ہے جو نومبر اور دسمبر یعنی سردیوں میں بوئی جاتی ہے جبکہ مئی اور جون میں اس کی کٹائی ہوتی ہے۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ریسرچ کی بنیاد پر 70 فیصد لوگ زراعت سے وابستہ ہیں۔ یہ لوگ کھیتی باڑی کر کے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ عام طور پر سب سے اچھی اور زیادہ مقدار میں بوئی جانے والی فصل گندم ہے۔ یہ ایسی فصل ہے، جس سے روٹی بنائی جاتی ہے۔ گندم کی روٹی ہر پاکستانی کے گھر کی ضرورت ہے اور دن میں تین مرتبہ ہر گھر میں پکتی ہے۔ گندم کی فصل بغیر آبپاشی والے علاقے میں بھی بویی جاتی ہے اور کبھی کبھی اگر سال اچھا ہو تو نشیبی یعنی آبپاشی والی زمینوں سے اچھی اور زیادہ گندم ہو جاتی ہے۔ اب تو زیادہ نہیں لیکن پہلے پہلے خبروں میں یہ باتیں بھی آتی تھیں کہ پاکستان نے فلاں ملک کو اتنی ٹن گندم بھیچی ۔اب تو بدقسمتی سے کئی برس سے ہم گندم بھی امپورٹ کرتے ہیں ۔

گندم کو پانی کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی لیکن کھادوں میں ایک کھاد ہے، اس کے بغیر گندم تیغ تک نہیں اگتی، اگر تیغ نکل بھی گیا، تو تشدد شدہ اور مرجھایا ہوا ہوتا ہے۔ اب گندم کی فصل کا سارا دارومدار کھاد پر ہوتا ہے جسے ڈی اے پہ کہتے ہیں ۔ یہ نہیں ہوگی،تو فصل سرے سے اگتی ہی نہیں۔ اب مہنگائی کے اس دور میں ڈی، اے، پی کھاد کی قیمت پہلے پہل تو 13 ہزار بتائی جاتی جا رہی تھی۔ اب قیمت بارہ ہزار کے لگ بھگ سننے میں آ رہی ہے۔ سوال اب یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا زمیندار اس قیمت پر کھاد خرید بھی سکیں گے کہ نہیں؟ میں کئی زمین داروں کو جانتا ہوں وہ اس سال میں گندم نہیں بو رہے ہے اور وجہ یہ ہے، کہ اتنی مہنگی کھاد خرید نہیں سکتے۔۔۔۔۔۔

ڈی، اے، پی کی نئی قیمتوں نے پچھلے تین سالوں سے زمینداروں کی گندم کی فصل بونے میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔ کیونکہ خود ہم نے کبھی گندم یا آٹا نہیں خریدا۔ ساری عمر ہماری اپنی فصل ہمیں ایک فصل سے دوسرے فصل تک پہنچا دیتی ہے۔ اسی طرح بڑے بڑے زمیندار جو کہ سینکڑوں من گندم بیجتے تھے ، مجھے اب وہ خود بھی بیجنے پر مجبور ہیں چونکہ ڈی، اے، پی خرید نہیں سکتے تو زمینوں کو تو بو لیتے ہیں۔۔۔ ڈی، اے، پی کے بغیر دوسری زذان کھادیں خرید کر، بھیج بو کر اور ٹریکٹر کا خرچہ کرلیتے ہیں۔۔۔ لیکن ڈی،اے، پی کے بغیر فصل اگتی تک نہیں ہے۔ اس وجہ سے فصل آدھی سے بھی کم ہوتی ہے۔ جس سے فصل کی مقدار میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔ زمین داروں میں بڑی تشویش اور غصے کی لہر پائی جارہی ہے۔

اب آتے ہیں کہ گورنمنٹ کیا کر رہی ہے؟ تو گورنمنٹ دعویٰ کر رہی ہے، کہ ہم سبسیڈی دے رہے ہیں تو کس کو دے رہے ہیں۔۔۔؟ پہلے پہل تو جو گورنمنٹ دے رہی ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے، پھر اگر دیتے بھی ہیں تو جو ایگریکلچر کے سرکاری بندے ہوتے ہیں، خود لے لیتے ہیں اور جب ان سے ذرا زیادہ ہوجائے تو اپنے خاندانوں کو منوا کر اپنے رشتہ داریاں بڑھاتے ہیں۔ان میں کچھ کیسز ایسے بھی آتے ہیں کہ یہی کارندے اپنے ان رشتہ داروں کو دے دیتے ہیں جو خود ذمیندار نہیں ہوتے۔ وہ لوگ اس کھاد کو دوسرے زمینداروں پر مہنگے دام بھیچ دیتے ہیں۔

اب اگر حکومت چاہتی ہے کہ میرے ملک میں لوگ بھوک سے نہ مریں اور کم ازکم ہر پاکستانی سوکھی روٹی کھائے تو خدارا ڈی، اے، پی کی قیمت 5000 کریں ورنہ لوگ 13000 پر خرید نہیں پائیں گے۔ زمینیں بنجر بن جائیں گی۔ لوگ بے کار ہو جائیں گے اور بھوک بڑھتی جائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے