جڑانوالہ واقعے کے بعد کئی راتیں سو نہیں سکا تھا کہ آخر ہمارے ملک میں ہوا کیا ہے کیوں ہم میں برداشت کی کمی روز بروز بڑھتی جارہی ہے”
یہ کہنا ہے صوبہ پنجاب کے ضلع بہاول پور سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن حسیب اقبال کا۔ حسیب اقبال پچھلے 13 سال سے اقلیتی برادری کے حقوق، خواتین کے حقوق اور امن کے فروغ کے لیے کام کررہے ہیں۔ حسیب اقبال نے سوشل ورک میں ایم فل کیا ہے۔
حسیب اقبال کا کہنا ہے کہ جڑانوالہ واقعے میں ہمارے ہی لوگ ملوث تھے یہ کہنا غلط ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں۔ میں نے جڑانوالہ واقعے کے بعد یہی کہا کہ ہم شرمندہ
ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا اس سے ہمارے ملک کی بہت بدنامی ہوئی ہے۔
یاد رہے رواں سال اگست کے مہینے میں پنجاب کے شہر جڑانوالہ میں پیغمبر اسلام کی توہین کے الزامات کے بعد مشتعل ہجوم نے 19 گرجا گھروں اور مسیحی عبادت گاہوں کے علاوہ مسیحی برادری کے 86 مکانات کو آگ لگائی اور ان میں تھوڑ پھوڑ کی۔
حسیب اقبال نے بتایا کہ انکو شروع سے ہی سوشل ورک کے کام کرنے کا شوق تھا کیونکہ انکی والدہ بھی ایک سوشل ورکر ہے۔
حسیب اقبال نے کہا کہ انکو شروع سے ہندو مذہب کے حوالے سے سیکھنے کا شوق تھا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مٹھی، تھرپارکر جاکر اس حوالے سے سٹڈی کی۔ حسیب اقبال نے بتایا کہ انہوں نے کراچی، جنوبی پنجاب میں مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے کافی کام کیا۔ یونیورسٹی لیول پر بھی کام کیا کہ تعلیمی اداروں میں کس طرح اقلیتی برادری کے لوگوں کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے۔
"جب پہلی مرتبہ میں گھر میں ہولی اور دیوالی کا تہوار منایا تو مجھے خاندان والوں نے ہندو کہنا شروع کردیا کہ یہ تو ہندو ہوگیا ہے کیونکہ یہ انکے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اور انکے تہوار بھی مناتا ہے۔ حسیب اقبال نے بتایا
انہوں نے بتایا کہ مذہبی ہم آہنگی کے لیے کام کرنے کی وجہ سے انکو بہت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، کئی لوگوں نے انکو فیس بک اور باقی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے ان فرینڈ کردیا اور ان کا سوشل میڈیا بائیکاٹ کیا۔
حسیب اقبال نے بتایا کہ ابھی بہت سارے لوگ انکو کہتے ہیں کہ انکا کوئی مذہب ہی نہیں ہے لیکن نہ پہلے انہوں نے ہمت ہاری ہے اور نہ اب ہمت ہارے گا اپنے کام کو جاری رکھے گا۔
حسیب اقبال سمجھتے ہیں کہ جتنا یہ ملک ہمارا ہے اتنا ہی اقلیتی برادری کے لوگوں کا بھی ہے اور انکے بھی وہی حقوق ہیں جو باقی شہریوں کے ہیں۔
حسیب اقبال کو اب تک کئی ایک ایوارڈز بھی مل چکے ہیں جن پیس رائٹس ایکٹویسٹ ایوارڈ، ہیومن رائٹس ایکٹویسٹ ایوارڈ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انکو حکومت کی جانب سے بھی کئی ایوارڈز دیئے گئے۔
حسیب اقبال کا کہنا ہے کہ امن اور مذہبی ہم آہنگی کے لیے کام کرنا آسان نہیں ہے، ایسے لوگوں کے لیے کئی ایک خطرات موجود ہوتے ہیں تاہم اس سلسلے میں ابھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
حسیب اقبال سمجھتے ہیں کہ امن اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے پاکستان میں کام ہورہا ہے لیکن اسکا صحیح نفاذ نہیں ہورہا جبکہ اس حوالے سے پالیسیز بنانا بھی وقت کی ضرورت ہے کیونکہ لوگوں میں مذہب کے حوالے سے انتہاپسندی عروج پر ہے۔