ای سگریٹ کیا بلا ہے اور پاکستان کیا کر رہا ہے؟

ای سگریٹس کی آسان دستیابی اور قوانین کی کی عدم موجودگی لمحہ فکریہ ہے

ہم مختلف جگہوں پر دیکھتے ہیں جہاں لکھا ہوتا ہے کہ سگریٹ پینا منع ہے لیکن اس کے باوجود لوگ کھلے عام سگریٹ پیتے ہیں اور نہ صرف اپنی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی متاثر کررہے ہوتے ہیں۔ ڈراموں اور مختلف اشتہارات میں بھی دکھایا جاتا ہے کہ تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر ہے لیکن اس کے استعمال میں کمی کی بجائے روز بروز زیادتی آرہی ہے۔ پہلے لوگ صرف سادہ سگریٹ کا استعمال کرتے تھے لیکن اب تو آئس الگ ہے اور باقی مضر صحت مواد الگ۔

وقت کے ساتھ تمباکو انڈسٹری نے بھی اپنی پراڈکٹس میں جدت لارہی ہے جس کی زندہ مثال ای سگریٹ ہے۔ ای سگریٹ کا بنیادی مقصد نوجوانوں کو اس جانب راغب کرنا ہے۔
ای سگریٹ ایک بیٹری سے چلنے والی ڈیوائس (آلہ) ہے جو ای – لیکویڈ یا جوس نامی محلول کو گرم کرتی ہے۔ ای لیکویڈ میں نکوٹین اور کھانوں میں پائے جانے والے عام فلیورز (ذائقے) ہوتے ہیں۔ ای سگریٹ کے ذریعے آپ دھوئیں کی بجائے بخارات کی صورت میں نکوٹین کی خوراک لے سکتے ہیں۔ ای سگریٹ کے استعمال کو ویپنگ کہا جاتا ہے۔

پاکستان میں تمباکو کا استعمال کرنے والوں کی تعداد 2 کروڑ 39 لاکھ سے زیادہ ہے

ایک عالمی سروے کے مطابق ہر روز چھ سے پندرہ سال تک کی عمر کے قریب بارہ سو پاکستانی بچے تمباکو نوشی شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں تقریباً 24 ملین سے زائد افراد سگریٹ نوشی کر رہے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال تمباکو نوشی سے تقریباً پوری دنیا میں 80 لاکھ افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں جن میں اک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ پاکستان میں تمباکو کا استعمال کرنے والوں کی تعداد 2 کروڑ 39 لاکھ سے زیادہ ہے۔

عام تاثر یہی ہے کہ ای سگریٹ زیادہ خطرناک نہیں ہے اور اس کی مدد سے سگریٹ کی عادت سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے لیکن طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پریہی بتایا جارہا ہے کہ ای سگریٹ خطرناک نہیں ہے لیکن اس میں حقیقت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس کے سائز، پیکنگ اور فلیورز کی بدولت نوجوانوں کو اس جانب راغب کیا جارہا ہے۔ جگہ جگہ ویپنگ سٹورز کھلے ہوئے ہوئے ہیں جہاں یہ بتایا جارہا ہے کہ اگر کوئی سگریٹ چھوڑنا چاہتا ہے تو وہ اس کا استعمال شروع کردے لیکن سائنسی طورپر اس کے کوئی شواہد موجود نہیں ہے۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی پلمونولوجی ڈیپارٹمنٹ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر انیلہ باسط کہتی ہیں کہ سگریٹ کا استعمال انسانی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ اس سے مختلف قسم کی بیماریاں پھیلتی ہیں جس میں پھیپھڑوں کا کینسر، فالج اور باقی امراض شامل ہیں۔ انیلہ باسط کا کہنا ہے کہ لوگوں کا خیال ہے کہ سگریٹ سٹریس کے لیول کو کم کرتی ہیں لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے بلکہ سگریٹ نوشی سٹریس اور انزائٹی کے لیول کو زیادہ کرتی ہیں۔

یہ بات غلط ہے کہ ای سگریٹ سے سگریٹ کی عادت چھڑوائی جاسکتی ہے

انیلہ باسط نے بتایا کہ ای سگریٹ میں نکوٹین کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے جب ایک بار کوئی یہ لے لیں تو انکو اس کی عادت ہوجاتی ہے اور اس سے جان چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی غلط ہے کہ ای سگریٹ سے سگریٹ کی عادت چھڑوائی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صحت کے لیے بھی خطرناک ہے کیونکہ اس سے سانس کی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ای سگریٹس میں نکوٹین ہوتا ہے جو نشہ آور چیز ہے اور اس میں وہی چیزیں ہوتی ہے جو عام سگریٹ میں ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر نوجوان اس ای سگریٹ کے عادی ہورہے ہیں جس سے انکی جسمانی اور ذہنی دونوں صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ اس سے انکے دماغ متاثر ہوتے ہیں اور ساتھ میں انکو بے چینی لاحق ہوتی ہے جبکہ انکو غصہ بھی بہت آتا ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ ای سگریٹ کا استعمال کرتے ہیں، ان میں فالج کا خطرہ 71 فیصد اور دل کی بیماری کا خطرہ 40 فیصد بڑھ جاتا ہے۔

پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمباکو اندسٹری نے نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے ای سگریٹ متعارف کروایا ہے۔ ای سگریٹ کی رنگینی اور اس جڑے غلط تاثرات نوجوانوں کو بھی گمراہ کررہا ہے اور اب زیادہ تر نوجوان ای سگریٹ استعمال کررہے ہیں جس سے انکے صحت پر مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں ای سگریٹ کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کسی قسم کا صوبائی یا مرکزی قانون موجود نہیں ہے۔

سگریٹ چاہے عام ہو یا ای سگریٹ ہو طبی ماہرین کے مطابق دونوں صحت کے لیے نقصان دہ ہے لہذا اس سے نہ صرف ہمیں خود بچنا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی بچانا ہے کیونکہ ملک کی بھاگ دوڑ نوجوان نسل نے ہی سنبھالنی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے