پاکستان سمیت دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی سنگین مسئلہ کی صورت میں سامنا آرہا ہے ۔ پلاسٹک کی آلودگی انسانی زندگیوں میں سانس لینے والے ماحول کے لئے ایک زہر قاتل ہے کیونکہ استعمال ہونے والی پلاسٹک کو گلنے میں برسوں لگتے ہیں اور اسی طرح پلاسٹک کا زیادہ تر فضلہ یا تو جلا دیا جاتا ہے یا لینڈ فلز میں بھیجا جاتا ہے۔ جس سے فضا، ہوا، زمین اور سمندر آلودہ ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں بھی ماحولیاتی مسائل میں زمینی آلودگی، پلاسٹک کا بڑھتا استعمال ، فضائی آلودگی، آبی آلودگی، شور کی آلودگی،قدرتی آفات، گرمی اور سردی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں سالانہ تقریباً 500 بلین پلاسٹک کے تھیلے استعمال ہوتے ہیں اور صرف پاکستان میں سالانہ 60 ارب پلاسٹک بیگز استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ عالمی سطح پر ہر منٹ میں دس لاکھ سے زیادہ پلاسٹک کے تھیلے استعمال ہوتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب پاکستان سمیت دنیا بھر میں چیزوں کی خریدوفروخت کے لیے کپڑے کی تھیلوں کا استعمال کیا جاتا تھا مگر ٹیکنالوجی کی ترقی نے ماحولیاتی تبدیلوں میں بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں ۔ پاکستان میں پلاسٹک کے شاپنگ بیگز 80 کی دہائی میں شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان بھر میں استعمال ہونے لگے۔ شہر ہو یا گاؤں، محلہ ہو یا کوئی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی ہر جگہ شاپنگ بیگ اڑتے، بکھرتے اور پانی میں تیرتے یا ڈھیر لگے نظر آتے ہیں۔ کیا ہر طرف کچرے کے ڈھیر اور ان میں سے جھانکتی اور اڑتی پلاسٹک کی تھیلیاں ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ساتھ ان سے پیدا شدہ فضلہ تعفن کا باعث بھی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پلاسٹک کی تھیلیاں، ڈسپوزایبل کپ اور ربڑ میں ایک کیمیکل ہوتا ہے جس کے سبب لوگوں کی صحت پر اثر پڑ سکتا ہے اور بہت سی بیماریاں بھی ہوسکتی ہیں، جن میں کینسر بھی شمار ہو سکتا ہے۔ شاپنگ بیگ یا ناقص پلاسٹک کی اشیاء جلانے سے جو دھواں پیدا ہوتا ہے وہ ہماری آنکھوں، جلد اور نظام تنفس پر بری طرح سے اثر انداز ہوتا ہے اور یہی دھواں سردرد ،آنکھوں کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔
عالمی ماحولیاتی اداروں کے مطابق اگر پلاسٹک کے استعمال کو نہ روکا گیا تو سال 2050 تک زمین کی تباہی کے ساتھ ساتھ سمندر میں مچھلیوں سے زیادہ تعداد پلاسٹک کی ہوجائے گی۔
بین الاقوامی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مطابق کہ پاکستان میں سالانہ کچرے میں 25 کروڑ ٹن کچرا پلاسٹک کا ہوتا ہے جن میں پلاسٹک بیگ، بوتلیں اور کھانے کی پیکنگز وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔ اس 25 کروڑ ٹن میں سے 16 کروڑ 30 لاکھ ٹن یعنی 65 فیصد ساحل سمندر تک پہنچتا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے لیے اگلے چند سال انتہائی نازک ہیں، ماحولیاتی آلودگی کی لہر کو روکنے کے لیے دنیا کو ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک اور اس کے استعمال میں کمی کو نصف کردینا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر ممالک اور کاروباری ادارے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانے اور منڈی کو ضرورت کے مطابق ڈھالنے کے لئے موجودہ ٹیکنالوجی سے کام لیں تو 2040 تک پلاسٹک کی آلودگی میں 80 فیصد کمی لانا ممکن ہے۔
یو این ای پی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں جس طرح پلاسٹک کو پیدا، استعمال اور تلف کرتے ہیں اس سے ماحولیاتی نظام آلودہ ہو رہے ہیں، انسانی صحت کے لئے خطرات جنم لے رہے ہیں اور ماحول غیرمستحکم ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یو این ای پی کی یہ رپورٹ ایک ایسے دائروی طریقہ کار کے ذریعے ان خطرات میں غیرمعمولی حد تک کمی لانے کا لائحہ عمل پیش کرتی ہے جو پلاسٹک کو ماحولیاتی نظام، ہمارے اجسام اور معیشت سے خارج رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں پلاسٹک کا دوبارہ استعمال، اسے ضائع شدہ حالت سے دوبارہ کارآمد بنانے، اس کی تشریق نو اور اسے متنوع صورتیں دینا شامل ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں پلاسٹک کی آلودگی کے طویل مدتی اثرات سے نمٹنے کے اقدامات کا بھی تذکرہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مندرجہ بالا اقدامات پر عملدرآمد کے باوجود ہر سال ایک مرتبہ اور مختصر مدت کے لئے استعمال ہونے والی اشیا کی صورت میں 100 ملین میٹرک ٹن پلاسٹک کو ٹھکانے لگانا پڑے گا۔
تاہم رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اس معاملے میں وقت بہت اہم ہے۔ پانچ سال کی تاخیر کے نتیجے میں 2040 تک پلاسٹک کی آلودگی میں 80 ملین میٹرک ٹن اضافہ ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کی یہ رپورٹ تقریباً 200 ممالک کے مذاکرات کاروں کی پیرس میں ملاقات سے دو ہفتے قبل سامنے آئی ہے، جس کا مقصد اگلے سال پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے کے لیے ایک قانونی معاہدے تک پہنچنا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پلاسٹک کے اثرات کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے، مائیکرو پلاسٹک کے ٹکڑے سمندر کی گہرائیوں سے لے کر ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی تک پائے جاتے ہیں جبکہ انسانوں میں ان کا سراغ خون، چھاتی کے دودھ اور نال تک میں ملا ہے۔
سال 2020 کے دوران دنیا بھر میں قلیل المدتی پلاسٹک سے تقریباً 238 ملین میٹرک ٹن (ایم ایم ٹی) فضلہ پیدا ہوا، اس میں سے تقریباً نصف کو غلط طریقے سے ٹھکانے لگایا گیا اور زیادہ تر ماحول میں پھینک یا جلا دیا گیا۔
یو این ای پی کو خدشہ ہے کہ اہم تبدیلیوں کے بغیر 2040 تک پلاسٹک کا سالانہ فضلہ 408 ملین میٹرک ٹن تک پہنچ جائے گا، جس میں 380 ملین میٹرک ٹن نئے فوسل فیول پر مبنی پلاسٹک بھی شامل ہے، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تقریباً 227 ایم ایم ٹی پلاسٹک ماحول میں شامل ہوجائے گا۔
پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق روزانہ 20 سے 25 کروڑ پلاسٹک بیگز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ حکومت کے 2002 آرڈنینس کے مطابق جوفیکٹری 15 مائیکرون سے کم موٹائی کے پولیتھین بیگز تیار کرے گی اس کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔ پاکستان میں کوئی مناسب ویسٹ منیجمنٹ سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے پلاسٹک کی اشیا خصوصا شاپنگ بیگ کا غیر ضروری استعمال انسانی زندگیوں کے ساتھ ماحولیاتی خطرات کو بھی جنم دے رہے ہیں ۔