تین دن کی ورکشاپ کے بعد میں نے کیا سیکھا؟ امرجنگ لیڈرشپ اکیڈمی کی روداد

برگد یوتھ آرگنائزیشن کی جانب سے لاہور میں منعقد کردہ تین روزہ ایمرجنگ لیڈرز اکیڈمی ٹریننگ کا حصہ بننے کا موقع ملا جہاں مختلف مذاہب و فکر سے وابستہ نوجوان موجود تھے۔

ایسی ہی کسی ٹریننگ کا کبھی حصہ رہنے والے جوشوا بھی موجود تھے ۔ جو اب نوجوانوں کے راہنما بن کر کھڑے تھے، جنھوں نے اپنی کمیونٹی میں عورتوں کے حقوق خصب ہوتے دیکھے تو ان کے حقوق کے علم بردار بن گئے۔

اس دن مجھے یہ سیکھنے کو ملا کہ غیر انسانی رویوں کا تعلق قطعاً کسی خاص مذہب کے ماننے والوں سے نہیں بلکہ یہ ایک خالصتاً انسانی معاشرے کا داغ ہے، جس کو انسانوں نے ہی مٹانا ہے اور مذہب ہماری اس معاملے میں بہترین راہنمائی کرتا ہے۔

تین روزہ ٹریننگ میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا مگر کچھ نمایاں پہلوؤں کا ذکر بہت ضروری ہے۔ ٹریننگ کے دوسرے دن یوتھ پالیسی کے ماہر اقبال حیدر بٹ صاحب نے جمہوریت اور گورننس کے اوپر لیکچر دیا اور اس لیکچر کی بہترین بات یہ تھی کہ اس میں کچھ بھی لیکچر جیسا نہیں تھا اور ریاست، اس کا مطلب، اس کا ڈھانچا اور اس کی ذمہ داریاں انتہائی آسانی سے کہانی کی شکل میں ہمیں سمجھا دی گئیں۔ یہاں تک کہ تاریخ سے لیے گئے حوالے بھی مشکل معلوم نہ ہوئے، یعنی یہاں بھی بتائے جا سکتے ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ کہ ریاست کسی کی سگی نہیں۔ ریاست کچھ مشترکہ قوانین پر چلتی ہے اور جو سب کو ماننے ہوتے ہیں مگر وہ قوانین کسی ایک فرد یا گروہ کے مفاد میں نہیں بنتے۔ وہ سب کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں۔ اس طرح کہ سب کا فائدہ ہو جب تک کسی دوسرے کا اس فائدے سے نقصان نہیں ہوتا۔ اگر ریاست کسی شخص کے فائدے کو برقرار نہیں رکھتی ، جب وہ کسی دوسرے کے لیے نقصان کا باعث ہو اور قانون توڑے جانے پر سخت سزا دے تو اس ریاست کو ماں نہیں کہا جا سکتا۔

تاریخی پس منظر میں چنگیز خان کے سفاک دور کی مثال دی گئی کہ اس وحشت بھرے لا قانونیت کے وقت بھی یسا نام سے منسوب کچھ قوانین موجود تھے جیسے کہ رات کے وقت حملہ نہیں کیا جائے گا، جس کو نہ ماننے کی صورت میں سزا طے ہوتی۔

مجھے ذاتی طور پر حمزہ اقبال صاحب کا سیشن بے حد پسند آیا جس میں ہم نے گفتگو کے بنیادی پہلو سیکھے جو کہ ہر بات میں مطلب کی روح پھونک دیتی ہیں۔ مگر ہم ان چیزوں سے انجان اپنی روزمرہ کی زندگی کو مشکل بناتے ہیں اور یہ احساس بھی ہوا کہ ہمارے کتنے اچھے تعلقات محظ غلط فہمی کی بنیاد پر خراب ہو جاتے ہیں کیونکہ ہم اپنے پیغام اور دوسرے کے پیغام کو ان کی نظر سے نہیں دیکھ پاتے، جس کی وجہ سے ہم جو بات کہنا چاہتے ہیں یا سنتے ہیں وہ اپنی اصل حالت کھو دیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر بات کا ایک پس منظر اور سیاق وسباق ہوتا ہے اور اگر ان چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے گفتگو نہ کی جائے تو مضحکہ خیز ناراضگیاں جنم لیتی ہیں۔

اس کا ایک نمونہ ہمیں گروپس کی شکل میں تقسیم کر کے دکھایا گیا، جہاں ایک شخص اپنی پسند کی بات کرے گا اور دوسرا اس کی بات پر منفی انداز اپنائے گا جیسے کہ بات کو سنی ان سنی کر دینا یا چہرے سے آوازاری دکھلانا۔ مگر مجھے اس اداکاری کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ تعلقات بگاڑنا میرے لئے فطرتاً آسان رہا ہے۔

جس شخص کے ساتھ میرا گروپ بنا اس کا تعلق ملتان سے تھا اور میں نے آتے ساتھ ہی اسے کہہ دیا کہ مجھے ملتان کے لوگ پسند نہیں۔ اب چاہے مجھے سامنے والے کی گفتگو میں دلچسپی بھی ہو مگر دونوں میں بہترین بات چیت کے امکان کم ہو جاتے ہیں کیونکہ دلچسپی یا آوازاری کا اظہار اپنے باطنی لہجے یا اپنی بات سے کرنا ہوتا ہے، صرف سوچنے یا خیال کر کے یہ امید لگانا کہ سامنے والا خود ہی سمجھ جائے ممکن نہیں۔ہمیں روز مرہ کی زندگی میں اسی طرح کی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور بلا وجہ کی بہثیں ہمارا وقت کھا جاتی ہیں۔

غرض یہ کہ باتوں کے علاؤہ بھی کئی دوسرے عناصر ہماری گفتگو کو مکمل کرتے ہیں جن کو ہم نظر انداز کر دیں تو بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ اپنا پیغام سامنے والے کے پیرائے میں ٹٹولتے ہوئے درست انداز میں پہنچانا مدتوں کی محنت کا ثمر ہے۔ یہ چیز گفتگو کے ساتھ ہی سیکھی جا سکتی ہے اور آہستہ آہستہ آپ کو معلوم ہوئے بغیر یہ خوبی آپ کی باتوں میں سرایت کر جائے گی بشرطیکہ کوشش برقرار رہنی چاہیے اور بیچ منجدھار میں نتائج سے بے زار ہو کر کوشش نہ چھوڑ دی جائے۔

حمزہ اقبال صاحب کے سیشن میں اس کے علاؤہ پبلک سپیکنگ کے گر بھی سکھائے گئے۔ یہ وہ ہنر ہے جس کو عموماً چند منٹوں کے سیمینار یا یوٹیوب ویڈیوز میں سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر جس ٹریننگ کا میں حصہ تھا اس میں یہ کمال سمجھنے کے لئے تقریباً آدھا دن صرف ہوا۔ میرے مطابق یہ وقت بھی کم تھا مگر جیسا کہ ہمارے ٹرینر حمزہ اقبال نے ایک لڑکی کے شکوے پر سمجھایا کہ پبلک سپیکنگ میں مہارت حاصل کرنے کے لیے روزمرہ کی بنیاد پر ریاض ضروری ہے۔ ٹریننگ میں ضروری پہلوؤں کو سمجھا جا سکتا ہے جس کو سمجھے بغیر لوگوں کے درمیان بولنا مشکل ہے مگر ان نکات کو جاننا ہی کافی نہیں بلکہ اس کو عملی زندگی میں کار عمل لانا بھی اہمیت کا حامل ہے۔

میں صرف اپنی بات کروں تو مجھے اس بات سے کوئی مطلب نہیں تھا کہ کس چیز پر کتنا وقت خرچ کیا جا رہا ہے کیونکہ مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ لوگوں کے سامنے بولنے کا موقع ملا مگر پہلی بار بولنا میرے بولنے میں ہر گز حائل نہ ہوا کیونکہ وہاں موجود لوگوں کی موجودگی میری حوصلہ افزائی کا عندیہ دے رہی تھی کیونکہ ہر محفل کا اپنا ماحول ہوتا ہے جو بغیر لفظوں کے کسی مخصوص پیغام کی ترجمانی کرتا ہے اور شاید بہت سارے افراد کو ایسے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے، جہاں وہ اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کر سکیں، جہاں ان کو سنا جاتا ہو اور جہاں ان کو دنیا کے مختلف زاویوں کو جاننے کا موقع ملے۔ اپنے اگلے کالم میں، میں اس ٹریننگ سے حاصل کیا گیا سبق اور اپنے اوپر مثبت اثرات کا ذکر کروں گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے