کیا قومی کمیشن برائےحقوق اقلیت کو ایک بااختیار کمیشن ہونا چاہیے؟

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نےاس وقت ازخود نوٹس لیا، جب پشاور چرچ پر بم حملہ اور چترال کے قبائلی کیلاش کے لوگوں کو دھمکائے جانے کا واقع پیش آیا۔اور یہ فیصلہ 19جون 2014کو سپریم کورٹ بنچ نے سنایا۔پشاور چرچ میں اکیاسی کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔

ہندو مسلک کے پیروکاروں نے بھی عبادت گاہوں کے تحفظ کی شکایات کیں۔ روزنامہ ڈان نیوز کے مطابق چترال میں کیلاش قبائلی اور اسماعیلی فرقہ کے افراد پر دباو ڈالا جارہا تھا کہ وہ اپنا مذہب تبدیل کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں عدالت نے ان تمام واقعات کو بنیادی انسانی حقوق جن کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے، فیصلہ سنایا۔اس فیصلہ کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ شکایات موصول نہ ہوئیں کہ ہندوں لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کروایا جارہا تھا مقدمات درج ہونے کے بعد بھی کوئی شنوائی نہ ہوئی۔پشاور چرچ دھماکہ میں متاثرین کےلئے اعلان کردہ معاوضے کی ادائیگی نہ ہوئی تھی،ہندو مندر کی بے حرمتی کی شکایت،ہندووں اور مسیحیوں کی شادیوں کی عدم رجسٹریشن وغیرہ اور اقلیتوں کا جاب کوٹہ وجہ بنی۔

قومی کمیشن برائےحقوق اقلیت ایک ایسا کمیشن ہے جسے پاکستانی حکمرانوں نے بین القوامی سطح پر دستاویزات میں تو بنا رکھا ہے لیکن پاکستان میں یہ کمیشن اپنی حالت زار پر ماتم کرتا دکھائی دیتا ہے۔اگر یہ کمیشن دیگر کمیشنز کی طرح پاکستان میں فعال اور متحرک ہوتا تو شاید پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری،نچلی سطح پر مسائل کا حل ممکن ہوتا لیکن بدقسمتی سے یہ ایک ایسا کمیشن ہے جس کا کوئی اپنا دفتر نہیں ہے،کوئی عملہ نہیں ہے،مذہبی اقلیتوں کے مسائل پر کبھی کوئی رپورٹ مرتب نہیں کی گئی کبھی اس کمیشن نے اقلیتوں کے مسائل پر آواز بلند نہیں کی۔اس کمیشن کے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کےمسائل دن بدن بڑھتے جارہے ہیں۔

پانچ فیصد ملازمت کوٹہ پر کوئی عملدآمد نہیں،اقلیتوں کی ضرورت کے مطابق کوئی قانون سازی نہیں،جبری تبدیلی مذہبی اور کم عمر اقلیتی بچیوں سے نکاح معمول بن چکے ہیں،آئین کے آرٹیکل کے مطابق ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تعلیم حاصل کرے لیکن اس آرٹیکل پر علمدآمد کون کروائے گا،دو فیصد تعلیمی کوٹہ تو مقرر کردیا گیا لیکن اس کی نگرانی کا کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا گیا،کبھی شانتی نگر تو کبھی شمع شہزاد،کبھی سانحہ گوجرہ کوریاں تو کبھی جڑانوالہ،کبھی جوزف آباد تو کبھی سانحہ پشاور،کبھی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے تکفیری قوانین کے غلط استعمال کی وجہ سے بستیوں کی بستیاں خالی ہوجاتی ہیں تو کہیں پاکستان میں 26گرجا گھروں اور سینکڑوں گھروں کے جلاو گھیراوؐ کا عالمی ریکارڈ بنا دیا جاتا ہے۔

اگر یہ قومی کمیشن برائے حقوق اقلیت حقیقت میں موجود ہوتا اور اقلیتوں کے حقوق کی نگرانی کا کام انجام دے رہا ہوتا اور تمام سانحہ میں ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا ہوتا تو شاید آج پاکستانی میں اقلتیں خوش و خرم،خوشحال زندگی بسر کررہی ہوتیں۔ سانحہ جڑانوالہ کے بعد پورے پاکستان میں ایک عجیب سا ماحول ہوا ہے ،اس سانحہ کی وجہ سے پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے اضلاع میں تعصب،مذہبی امتیاز کو فروغ ملا ہے ،جس سے بین المذہب ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچا ہے یہ درست ہے کہ اس کی دوسری تصویر میں ریاست کی جانب سے کچھ اچھے اقدامات بھی لئے گئے ہیں۔آیئے جائزہ لیں کہ یہ کمیشن کب اور کہاں فعال رہا۔

پاکستان میں انسانی حقوق اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے لئے کوشاں ادارہ برائے سماجی انصاف کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے بین المالک فورمز پر اس کمیشن کے قیام کے کئی بار دعوے کئے ہیں اقوام متحدہ کے نسلی امتیاز کے خاتمہ کے بین القوامی معاہدہ کی نگران کمیٹی کو سال2009 اور 2015جبکہ شہری و سیاسی حقوق کے بین القوامی معاہدہ کی نگران کمیٹی کو 2015 میں(سوئزرلینڈ)میں حکومت پاکستان کی رپورٹ میں دعوی کیا کہ اقلیتیوں کا یہ کمیشن پاکستان میں ایک فعال اور متحرک کمیشن ہے۔

جس کا دائرہ کار میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی صورتحال کو جانچنا اور حقوق کی نگرانی کرنا ہےاور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی رکنیت کےلئے انتخابات سے قبل حکومت پاکستان نے نیویارک امریکہ میں بھی تحریری طور پر دعوی کیا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی نگرانی کےلئے ایک کمیشن تشکیل دیا جاچکاہے جو مذہبی اقلیتوں کی شکایات سننے اور کمشین میں اقلیتی اراکین کی نمائندگی یقینی بنانے کا اختیار رکھتا ہے۔

جون 2014 کو جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ قومی کونسل برائے حقوق اقلیت تشکیل دی جائے جو اقلیتوں کے حقوق کی نگرانی اور تحفظ کے لیے پالیسی سازی میں حصہ لے۔

فروری 2016 میں حکومت نے قومی ایکشن پلان برائے انسانی حقوق میں دسمبر 2016 تک قومی کمیشن برائے حقوق اقلیت کی تشکیل کا ارادہ ظاہر کیا مگر مئی 2018 تک کونسل یا کمیشن کی تشکیل سے متعلق حکومت مسودہ قانون پارلیمان میں متعارف کروانے میں ناکام رہی حالانکہ حسب اختلاف کی تین مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیمان بیلم حسین پاکستان پیپلز پارٹی، لال چند ملہی پاکستان تحریک انصاف اور سنجے پروانی پاکستان متحدہ قومی مومنٹ کی جانب سے کمیشن برائے تحفظ حقوق اقلیت کی تشکیل کے لیے پرائیویٹ بل 2015 اور 2016 میں متعارف کروائے تھے مگر قومی اسمبلی میں ان مسودوں پر پیش رفت نہیں ہوئی اور ان بلز کو کوئی خاص اہمیت نہ دی گئی۔

شاید یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان اقلیتوں کے کمیشن کے لئے سنجیدہ نہیں تھی۔پاکستان میں آئے روز مذہبی جنونیت،جلاو گھرو،عبادت گاہوں پر حملے،گھروں،بستیوں،عبادت گاہوں کو نذرآتش کرنا معمول بن چکا ہے۔

مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی پامالی پر آج تک تاریخ میں کسی کو سزا نہیں ملی۔ نہ جانے ایسے کتنے اور واقعات ہمیں مستقبل میں دیکھنے کو ملیں گے۔ اس لئے قانون ساز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مذہبی اقلیتوں کے حال پر رحم کھاتے ہوئے ایک آزاد اور خود مختار کمیشن کو بنانا ان پر لازم ہوچکا ہے۔ 8اگست 2023کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے سے ایک روز قبل بہت سارے بلز منظور کرلئے گئے ان بلز میں اقلیتی کمیشن کا بل بھی شامل تھا۔

حکومت کے آراکین نے ان بلز پر کوئی بحث و مباحثہ نہیں کیا اور نہ ہی پاکستانی مذہبی اقلیتوں،سول سوسائٹی اور تصدق حسین جیلانی کی ججمنٹ کا خیال رکھا۔جبکہ اس بل میں اقلیتوں کو بہت سارے تحفظات تھے۔ اس بل کو قومی اسمبلی میں منظور کرلیا گیا۔ بعد از مذہبی اقلیتوں اور سول سوسائٹی نے اس بل کو مسترد کردیا۔ شکر ہے کہ سینٹ میں یہ بل منظور نہ ہوسکا۔ اگر یہ ایک ایکٹ کی صورت اختیار کرجاتا تو مذہبی اقلیتوں کو اس بل میں ترامیم کےلئے کئی دہائیاں لگ جاتیں۔

کیونکہ گزشتہ ادوار میں اس کمیشن کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے نافذ کیا گیا ہے جسے کبھی بحال اورکبھی تحلیل کر دیا جاتا رہا۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق پر کام کرنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں اور تنظیموں نوبل کنسرن فارہیومن ڈویلپمنٹ،جوائے فاونڈیشن،جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ممبران اور پاکستان میں دیگر انسانی حقوق کے کارکنان نے سابق وزیراعظم پاکستان اورسابق سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کو خطوط لکھے تھے اور گزارشات پیش کرتے ہوئے مطالبات کئےتھے کہ لفظ حقوق کو عنوان بنایا جائے اور اس کمیشن کو نیشنل کمیشن فار مینارٹی رائٹس سے ہی جانا جائے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس کمیشن کی ترکیب میں زیادہ سے زیادہ مذہبی تنوع کو شامل کیا جائے لیکن مسیحی فرقوں اور ذاتوں کی بنیاد پر نمائندگی مختص کرنے سے گریز کیا جائےکیونکہ یہ اس کمیشن کے مقاصد کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور اقلیتوں کے اندر مزید تقسیم ہو سکتی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور ای ٹی پی بی کی نمائندگی کوچھوڑ دیاجائے۔

انسانی حقوق کے اداروں سے ایک ایک نمائندہ شامل کیا جائے اس کمیشن میں این سی ایچ آر، این سی ایس ڈبلیو، اور این سی آرسی، اور وزارت خارجہ کا ایک نمائندہ شامل کیا جائے۔ اس کمیشن کے چیئرپرسن اورممبران کی تقرری پارلیمنٹ سے تیار کی گئی چاررکنی سلیکشن کمیٹی کے ذریعے کی جانی چاہیے جیسے قومی اسمبلی کے اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ کے ذریعے نامزد کیا جاتا ہے، اور اس کی سربراہی ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کرتے ہیں۔اور کمیشن پارلیمنٹ میں اپنی سالانہ رپورٹ پیش کیا کرے۔

پاکستان میں انسانی حقوق اور مذہبی اقلیتوں کےلئے خدمات سرانجام دینے والے سماجی ادارے ہر سال11 اگست کو یہ مطالبات کرتے دیکھائی دیتے ہیں کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی 11اگست 1947 کو بطور گورنر جنرل پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے کئے گئے خطاب کو آئین پاکستان کا حصہ بنایا جائے۔لیکن آج تک انکے مطالبات منظور نہیں ہوئے۔

سانحہ جڑانوالہ کے بعد جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی اقلیتی کمیشن کامطالبہ کیا۔ انسانی حقوق کے معروف وکیل اور دانشور صحافی پیٹر جیکب، چیئرپرسن پیپلز کمیشن برائے اقلیتی حقوق نے کہا کہ بل کی دفعات اقوام متحدہ کے پیرس اصولوں اور سپریم کورٹ کی ہدایات(SMC No. 1 of 2014) سے مطابقت نہیں رکھتی، حکومت پر زور دیتی ہے۔ مزید مضبوط اور جامع NCMR کو نافذ کرنے کی سمت میں فوری قدم اٹھانا چاہیے۔

اقلیتی کمیشن کے بل کی تیاری MORA کے دائرہ اختیار اور اہلیت سے باہر ہے، بلکہ اسے انسانی حقوق کی وزارت کو تیار کرنا چاہئے کیونکہ یہ حقوق کا معاملہ ہے۔ دیگر تمام NHRIS‏ وزارت انسانی حقوق کے ذریعے شروع کیے گئے بلوں کے ذریعے قائم کیے گئے ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کا ادارہ تشکیل دینے میں کوئی مذہبی ادارہ نہیں ہے۔

مذہبی تنوع کو تسلیم کرتے ہوئے، سکھوں کے لیے ایک نشست کے ساتھ، چھوٹی مذہبی برادریوں کے لیے متناسب نمائندگی ہونی چاہیے۔ کمیشن میں تقرریاں صرف مذہبی یا ذات پات کی شناخت کی بجائے میرٹ کی بنیاد پر ہونی چاہئیں، انسانی حقوق کے ادارے کے طور پر کمیشن کے کردار پر زور دیتے ہوئے اراکین کو انسانی حقوق کے محافظ کے طور پر تجربہ ہونا چاہیے۔

تقرری کے عمل میں پارلیمنٹ کو مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے اور کمیشن کے احتساب کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ صدر پاکستان کے بجائے خود پارلیمنٹ کو رپورٹ پیش کرے۔سماجی کارکن سردار جسپال سنگھ نے کہا کہ خوش قسمتی سے، سینیٹرز کے ساتھ سول سوسائٹی تنظیموں کی بہت بروقت وکالت کی وجہ سے، قومی کمیشن برائے اقلیتی بل، 2023 کو 9 اگست کو سینیٹ میں چھوڑ دیا گیا۔

مندرجہ بالا کلیدی مسائل کو دیکھتے ہوئے، اس پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ ایک ایسا ادارہ قائم کیا جا سکے جو حقیقی معنوں میں اقلیتی برادریوں کے حقوق اور تحفظ کو برقرار رکھے۔ امید ہے کہ جب اس بل پر دوبارہ غور کیا جائے گا، پارلیمنٹ کے اراکین سول سوسائٹی اور مذہبی اقلیتوں کے تحفظات کو مد نظر رکھا جائے گا تاکہ 2014 کے بعد سے اقوام متحدہ کے پیرس اصولوں اور سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق ایک خود مختار، موثر اور وسائل سے بھرپور اقلیتی کمیشن قائم کیا جا سکے۔تاحال اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی ہے.اس کمیشن کو ایک قانون سازی کے ذریعے ایک بااختیار اور مضبوط کمیشن بننا چاہیے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے