"میں واش روم میں بند تھا اور میرے ساتھ چند طلباء اور بھی تھے ۔ جب اس شخص نے بندوق ہماری طرف تان لی ، ہمیں اپنی موت سامنے نظر آنے لگی”
یہ الفاظ تھے ، سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور میں اپنی کلاس میں واحد سروائیور عدنان کے ۔
عدنان کے بقول وہ دسمبر کی ایک چمکیلی صبح تھی جب انہیں ڈرل انسٹرکٹر کی طرف سے ہدایات موصول ہوئی کہ تمام طلباء آڈیٹوریم ہال میں جمع ہو جائیں ،انہیں کچھ خاص ٹریننگ دینی ہے ۔
"میں ہال میں اپنے جماعت نہم کے دیگر ساتھیوں کے ساتھ پچھلی نشستوں پر بیٹھ گیا۔ ہمیں سیلف ڈیفنس کے حوالے سے ٹریننگ دی جارہی تھی ۔ چند لمحے گزرے تھے اچانک ہمیں فائرنگ کی آوازیں سنائی دینی لگیں ۔ ہم نے سمجھا شاید یہ بھی ٹریننگ کا حصہ ہے لیکن تھوڑی دیر بعد یہ آوازیں چیخ و پکار میں تبدیل ہوگئی اور ساتھ ہی بھگدڑ مچ گئی ۔
ہمیں سمجھ نہیں آرہا تھا یہ ہوکیا رہا تھا۔ اچانک ہمیں کچھ عجیب حلیوں والے بندوق بدست افراد نظر آئے جو بے دریغ گولیاں برسا رہے تھے ۔ یہ دیکھ کر ہماری چیخیں نکل گئی۔ میں جس جگہ بیٹھا تھا وہاں قریب ہی واش روم تھا ۔
چنانچہ آؤ دیکھا نہ تاؤ ، میں فوراً ہی واش روم میں گھس گیا ۔ میری دیکھا دیکھی کچھ اور طلباء بھی میرے پیچھے گھس آئے ۔ باہر قیامت کا سماں تھا ۔ اندھا دھند گولیاں برس رہی تھی ، چیخ و پکار مچی ہوئی تھی ۔
میرا دل کنپٹیوں میں دھڑک رہا تھا ۔ اچانک واش روم کے دروازے پر ایک نامعلوم شخص کا چہرہ نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ میں بندوق تھی اور اس کی مہیب نال ہماری جانب اٹھی ہوئی تھی ۔ بندوق دیکھ کر طلباء بے اختیار چیخنے لگے ۔
گن برادر نے ہمیں دیکھتے ہی ہم پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی ۔ میں چونکہ واش روم میں سب سے پیچھے تھا اس لئے براہ راست گولیوں کی زد سے محفوظ رہا ، البتہ شدید خوف کی وجہ سے زمین پر گر گیا ۔ میرے اوپر کئی طلباء گر گئے اور میں ان کے نیچے دب گیا ۔ میرے ارد گرد بہت سے طلباء تڑپ رہے تھے ۔ ہر طرف خون کے فوارے چھوٹ رہے تھے ۔ کچھ دیر بعد وہی گن بردار واش روم کے اندر گھس آیا اور جو طلباء ابھی زندہ تھے ، ان کے سروں میں گولیاں مارنے لگا ۔ میں چونکہ طلباء کے نیچے دبا ہوا تھا اس لئے یہاں بھی گولیوں سے بچ گیا ۔ تاہم شدید خوف کی بناء پر اپنے ہوش و حواس سے بے گانہ ہوگیا ۔
عدنان کا تعلق قبائلی علاقے سے ہے ۔ اس کے بڑے بھائی پاک فوج میں اچھے عہدوں پر تعینات ہیں ۔ والد نے بہتر تعلیم کی خاطر اور خاص طور پر قبائلی اور خاندانی تنازعات سے بچانے کی خاطر عدنان کو پشاور لاکر آرمی پبلک اسکول میں داخلہ دلوا دیا ۔اس بات سے بے خبر کہ یہاں پر بھی انہیں موت چھوکر گزرے گی ۔
ایک سوال کے جواب میں کہ جب اسے ہوش آیا تو اس نے کیا دیکھا ، عدنان نے بتایا ” جب مجھے ہوش آیا تو خود کو واش روم کی فرش پر پڑا پایا ۔ سب سے پہلے خود کو ٹٹولا کہ کہیں کوئی گولی تو نہیں لگی ۔ یہ دیکھ کر آنکھوں سے بے اختیار خوشی کے آنسو چھلک پڑے کہ میرا پورا جسم صحیح سلامت تھا ۔ ہلکی سی خراش بھی نہیں آئی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں دیگر طلباء کے نیچے دب گیا تھا ۔ قدرت کو شاید میری کچھ مزید سانسیں منظور تھی اسی لئے بچت ہوگئی تھی ۔ بہرحال اپنے اوپر سے ڈیڈ باڈیز کو ہٹاکر جب میں ہال میں آیا تو دیکھا کہ ہر طرف خون بکھرا ہوا تھا ۔
آڈیٹوریم میں موجود تقریباً تمام طلباء شہید ہوچکے تھے اور آڑھے ترچھے پڑے تھے ۔ یہ دیکھ کر میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے ۔ ہر طرف قیامت کا سماں تھا ۔
کسی کو کسی کا ہوش نہیں تھا ۔ والدین اپنے جگر گوشوں کی تلاش میں چکراتے پھر رہے تھے ۔ میں ہال پار کرکے گراؤنڈ میں نکل آیا ۔ گراؤنڈ میں اچانک مجھے اپنا بھائی نظر آگیا ۔ وہ بھی ملٹری میں ہے ۔
اس نے بعد مجھے بتایا گیا کہ جیسے ہی آرمی پبلک اسکول پر اٹیک ہوگیا ، اس نے اپنے بڑوں سے ریسکیو آپریشن میں حصہ لینے کی اجازت مانگی کیونکہ اسے پتا تھا کہ اس کا چھوٹا بھائی بھی وہاں ہے ۔ جیسے ہی اس کی نظر مجھ پہ پڑی ، وہ تیر کی طرح میری طرف آیا ۔ مجھے بے اختیار گلے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔
اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میں زندہ ہوں۔ بھائی بہت دیر تک مجھے گلے لگا کر اسی طرح روتے رہے۔ پھر مجھے کہنے لگے تم یہاں ٹھہرو میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ چند لمحے گزرے گئے پھر وہ مجھے دکھائی دیئے ۔ کہا چلو گھر چلتے ہیں۔
انہوں نے شاید اپنا کام ختم کرلیا تھا ۔ ہم کسی کو کچھ بتائے بغیر وہاں سے نکل آئے۔
جب ہم گھر پہنچے تو وہاں بھی کہرام مچا تھا ۔ میری والدہ نے رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا ۔ مجھے زندہ سلامت دیکھ کر ان پر شادی مرگ کی سی کیفیت طاری ہوگئی ۔ بے ساختہ مجھ سے لپٹ گئی اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگی ۔ وہ فقط ایک ہی لفظ بولتی جارہی تھی ” میرا بچہ میرا بچہ” ۔ بہت دیر بعد اس کے دل کو قرار آگیا ۔
وہ میری زندگی کے بدترین دن تھے ۔ میں راتوں کو اچانک اٹھ کر رونے لگتا ۔ بھوک پیاس سب اڑ گئی تھی ۔ ہر وقت نظروں کے سامنے وہ خونی مناظر گھومنے لگتے ۔ کبھی کبھی مجھے لگتا میرا سر پھٹ جائے گا ۔ کبھی ایسا لگتا جیسے کہ دل کو کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو اور بے طرح مسل رہا ہو۔ ”
بولتے بولتے عدنان کی سانس پھول گئی اور اس کی آنکھیں بے تحاشا سرخ ہوگئیں ۔ ہم نے تھوڑی دیر اسے اس کے حال پہ چھوڑ دیا ۔ جن تکلیف دہ لمحات سے وہ گزرا تھا ہم ان کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے ۔ اس نے موت کو بہت قریب سے دیکھا تھا ۔
درحقیقت موت اسے چھوکر گزر گئی تھی ۔
کہتے ہیں کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔ عدنان کو بھی رفتہ رفتہ قرار آنے لگا ۔ اس کی دیوانگی کی کیفیت رفتہ رفتہ ختم ہونے لگی ۔
تقریباً تین ماہ بعد اس کی حالت بہت حد تک بہتر ہوچکی تھی ۔ تب اس نے اپنی پڑھائی جاری رکھنے کا سوچا ۔ اے پی ایس تو وہ دوبارہ کبھی بھی نہیں جانا چاہتا تھا۔
ان دنوں قبائلی علاقہ جات کے لیے یو ایس ایڈ نے اسکالر شپ شروع کی تھی ۔ عدنان نے اسی اسکالرشپ کے لئے اپلائی کر لیا اور سیلیکٹ ہوگیا ۔ باقی کی تعلیم اس نے کوہاٹ کیڈٹ کالج میں حاصل کی ۔
"فوجی پس منظر اور پھر آرمی پبلک اسکول میں پڑھائی کے باعث بچپن ہی سے میرے دل میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کرنے کی خواہش تھی ۔ اتنے بڑے سانحے نے بھی میرے اس شوق میں کمی نہیں آنے دی بلکہ اب تو یہ جذبہ اور بھی مہمیز ہوگیا ۔ اب تو ایک جنون کی سی کیفیت ہوگئی فوج میں جانے کی ۔ لیکن دوسری طرف والدین اور دیگر گھر والوں کا ذہن بدل چکا تھا۔ انہوں نے مجھے صاف صاف بتا دیا فوج اور گھر والوں میں سے ایک کو چننا ہوگا ۔
اس کے باوجود میں نے ہمت نہیں ہاری اور فوج میں کمیشن کے لئے اپلائی کیا ۔ وہاں پر مجھے سابقہ سکول ریکارڈ کی کلئیرنس کی ضرورت پیش آئی اور مجھے ایک بار پھر اے پی ایس پشاور جانا پڑا ، جہاں سے میں اب تک کتراتا آرہا تھا ”
عدنان نے اے پی ایس پشاور دوبارہ داخلے کا منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ وہاں پہنچا تو بہت کچھ بدل چکا تھا ۔ اس کے اساتذہ میں سے اکثریت وہاں نہیں تھی ۔ اس نے اپنا تعارف کروایا۔ پہلے پہل تو اسے کسی نے
پہچانا نہیں ۔ پھر جیسے ہی انہیں پتا چلا کہ عدنان اپنی کلاس کا واحد زندہ بچ جانے والا طالب علم ہے تو بس پھر کیا تھا ایک ہلچل مچ گئی ۔ ہر ایک اس سے ملنے اور اس سے اس دن کی اور اس کے زندہ بچ جانے کی روداد اس کی زبانی سننا چاہتا تھا ۔
عدنان نے بڑی مشکل سے جان چھڑائی اور اپنے مطلوبہ کاغذات لے کر وہاں سے روانہ ہوا۔
"آئی ایس ایس بی کے تمام ٹیسٹ و انٹرویو بہت بہترین ہوئے اور مجھے امید تھی کہ میں ضرور سیلیکٹ ہوجاونگا”
یہ بات کہتے ہوئے اس کے لہجے میں تھوڑی سی افسردگی در آئی تھی ۔
” بہرحال دوسرا آپشن بھی ذہن میں رکھ کر میں نے پشاور یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ میرا مضمون انٹرنیشنل ریلیشنز تھا ۔ وہ کیا کہتے ہیں” تدبیر کند بندہ تقدیر کند خندہ ” آئی ایس ایس بی میں میری سیلیکشن ہوگئی اور میرا جوائننگ لیٹر میرے گھر کے پتے پہ پہنچ گیا۔
میں چونکہ یونیورسٹی ہاسٹل میں تھا ۔ اس لئے گھر والوں نے مجھے اس بات کی ہوا بھی نہیں لگنے دی اور وہ خط پھاڑ دیا اور میری طرف سے انہیں جواب دیا کہ میں جوائن کرنا نہیں چاہتا۔ اس بات کا علم مجھے کافی عرصہ بعد ہوا۔ میں جتنا غصہ کرسکتا تھا وہ کرلیا لیکن اب کوئی فائدہ نہیں تھا۔ گھر والوں نے ایک بار پھر صاف صاف بتا دیا تھا کہ یا وہ یا فوج اور یوں میرا فوج میں جانے کا خواب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا ۔ ”
عدنان اپنی تعلیم مکمل کرچکا ہے اور آج کل وہ اپنے علاقے کی غریب عوام کی خدمت کر رہا ہے۔ وہ کئی ملکی اور بین الاقوامی این جی اوز کے ساتھ کام کر رہا ہے جن میں سٹوڈنٹس فار لبرٹی ، پروموٹ فری مارکیٹ اکانومی ، سپیڈو (SPADO) ،ڈبلیو ایچ او ، یو این ایچ سی آر سر فہرست ہیں۔
وہ سٹوڈنٹس فارلبرٹی کے ساؤتھ ایشیا سینئر کوآرڈینیٹر ہیں ۔اسی پلیٹ فارم سے انہوں نے ساؤتھ ایشیا ایوارڈ بھی جیتا ہے ۔یہ ایوارڈ ان کو ملائیشیا میں ایک بین الاقوامی تقریب میں دیا گیا ۔
SPADO نامی تنظیم کے ساتھ جنریشن فار پیس پراجیکٹ میں بطور ڈسٹرکٹ نمائندہ کے کام کر چکے ہیں۔ اس پراجیکٹ کا مقصد اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنا تھا ۔ آج کل وہ بلیو وینز (Blue Veins) نامی تنظیم کے ساتھ کیلاش چترال میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔
اقلیتوں کو یونیورسٹی اور کالجز میں جو دو فیصد کوٹہ دیا گیا ہے ، جو کہ صرف برائے نام ہے ، اس کوٹے کے حصول کے لئے موصوف کام کر رہے ہیں ۔ اس کے علاؤہ کیلاش میرج بل پر کام کر رہے ہیں ۔ اس بل کا مقصد کیلاشیوں کی شادیوں کو ریگولرائز کرنا ہے ۔ اور ان کو آئین اور قانون کے مطابق لانا ہے کیونکہ کیلاش میں یہ رواج ہے کہ شادی ہوگئی اس کی کوئی خاص ڈاکومینٹیشن نہیں ۔ آپ دو دن بعد بھی شادی ختم کرلیں ، کوئی مسئلہ کوئی زمہ داری نہیں۔
عدنان جیسے نوجوان اس معاشرے میں بہت کم ہیں جو ایسے سانحے سے گزرنے کے بعد بھی نہ صرف اپنے پیروں پہ کھڑے ہوتے ہیں بلکہ معاشرے کے دیگر طبقات کے لئے آواز بھی بلند کرتے ہیں۔
عدنان نے اس سانحے کو اپنی طاقت بنایا اور خوب زور و شور سے پسے ہوئے طبقات کے لئے عملی کاوشیں کرنے لگا۔