ایک نہتی لڑکی، ماہ رنگ بلوچ کی کہانی

کئی دنوں سے ٹویٹر پر ٹرینڈ چل رہا ہے "سٹاپ بلوچ جینو سائیڈ” ۔ حقیقی کہانی کو دیکھا تو ایک نوجوان لڑکی جس نے بلوچ ثقافتی لباس زیب تن کیا ہوا ہے۔ ان کپڑوں میں وہ بہت پیاری اور ملکہ تو لگ رہی ہیں لیکن کئی دنوں کی پیدل مسافت اور ہر شہر کے لوگوں کے استقبال ، سوالوں کے جوابات دینے اور میڈیا کے لوگوں کے جوابات دیتے دیتے آواز میں خلل پڑ گیا ہے اور اب آپ صرف یہ سوال کر رہی ہیں کہ ہمیں اسلام آباد کلب جانے دو۔ انتظامیہ کہہ رہی ہے کہ آپ لوگ ایف نائن یا ایف سیون پارک چلے جائیں لیکن وہ کہہ رہی ہیں کہ ہم یہاں پارکوں میں سیر سپاٹے وغیرہ کرنے کے لیے نہیں آئے بلکہ اپنا مسئلہ آسلام آباد پریس کلب لے کر آئے ہیں لیکن بدقسمتی سے انتظامیہ انہیں نہیں چھوڑ رہی ۔

رات کے دو بجے ہیں، بلوچستان کی مائیں، بہنیں، بچیاں اور شیر خوار بچے اسلام آباد کی ٹھٹھرتی راتوں میں سڑکوں پر خوار ذلیل ہو رہے ہیں اور جب ان کے درمیان تنازعہ بڑھتا ہے تو انتظامیہ ان پر اس ٹھٹھرتی رات میں ، جبکہ وہ بے سر سامانی کے عالم میں ہیں۔ جن کے پاس ٹھنڈ سے بچنے کے لیے سویٹر اور چادر وغیرہ بھی نہیں ہیں۔ ان بے یار مددگاروں پر ٹھنڈے پانی سے شیلنگ کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے اور وہ سردی کی وجہ سے کانپتے اور ٹھٹھرتے رہتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک بچہ اور بچی ٹھنڈ کی وجہ سے کپکپاتے نظر آئے ۔ ان کے دانت سردی سے کپکپا رہے تھے۔ ٓاخر سوچنے کی بات ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا ہے کہ بلوچستان کی مائیں، بہنیں اور بچے اپنے گھروں کو چھوڑ کر دسمبر کی ٹھنڈی شامیں اسلام آباد میں گزار رہی ہیں۔

اگر ریاست ماں ہے تو ماں تو اپنے بچوں سے پوچھتی ہے کہ بیٹے کیا مسئلہ ہے؟ کیا ان عورتوں سے نہیں پوچھا جا رہا؟ اگر نہیں پوچھا جا رہا تو یہ کہاں کا انصاف ہے اور یہ کون سی ریاست ہے؟

ماہ رنگ بلوچ ایک نوجوان لڑکی ہے۔ اس لانگ مارچ کو لیڈ کر رہی ہے۔ ماہ رنگ بلوچ پیشے کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر ہے۔ کہتے ہیں کہ ماہ رنگ بلوچ کے والد کو 2013 میں اٹھایا گیا تھا اور ابھی ابھی یعنی تقریبا 10 سال بعد آپ کے والد کی لاش دے دی گئی ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے قبائلی علاقہ جات میں ایسے واقعات اور کہانیاں معمول بن چکا ہے۔ لوگوں کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ پھر کئی کئی سالوں تک ان کا پتہ نہیں لگتا۔ پھر اس کی لاش مل جاتی ہے۔ ماہ رنگ بلوچ بلوچستان سے پیدل عورتوں، ماؤں اور شیرخوار بچوں کا ٹولا لے کر کئی دنوں کا سفر کر کے اسلام آباد پہنچی ہے اور چاہتی ہے کہ ہم اسلام آباد پریس کلب کے سامنے اس وقت تک دھرنا دیتے رہیں گے جب تک ہمارے مطالبات منظور نہیں ہوتے۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ حکومت پاکستان ہمیں ویسے بھی انصاف نہیں دے گی لیکن ہم اپنی آواز بین الاقوامی اداروں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔اس امید کے ساتھ ان کا قافلہ تو اسلام آباد تو پہنچ گیا لیکن اسلام آباد پریس کلب تک نہ پہنچ پایا۔ اسلام آباد کی انتظامیہ نے بلوچستان کی بےسر و سامان و بے یار و مددگار بہنوں اور شیر خوار بچوں کا استقبال ایف آئی آر اور پانی کی شیلنگ سے کیا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے