ایسی ویسی آمریت اور جیسی تیسی جمہوریت

صدر جنرل پرویز مشرف کے عہد میں کچھ اور بدلا ہو یا نا ہو پاکستان کا میڈیا لینڈ سکیپ ضرور بدلا ۔ پرائیویٹ سیکٹر میں ٹی وی چینلز کی بہتات ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ روایتی ریاستی چینل پی ٹی وی کا سنسر کوڈ بدلا۔ موصوف کو بصیرت کا پاسبان گردانا جاتا تھا۔ غم روزگار اور عہدوں کا لالچ اچھے بھلے جانے مانے لبرلز کو بھی اخلاقی اور ذہنی طور پر تنزلی کا شکار کردیتا ہے یا کچھ مادیت پرستی سے جڑے شوق ان کو، ان کی اصلیت کو بے نقاب کر دیتے ہیں۔ لہٰذا کئی جمہوری نظریات کے حامل مرد و زن بھی ان کی مداح سرائی میں دھت رہے لیکن حکمرانوں اور اگر وہ آمر بھی ہوں تو انکی ثنا خوانی تو ایک پرانی روایت رہی ہے اور جس کا آغاز مشرف صاحب کی حالت روشن خیالی نے نہیں کیا۔

الطاف گوہر ، قدرت اللہ شہاب صرف دو امثال ہیں ورنہ تو اگر جان کی امان کا ڈر نا ہو تو نام تو گنوانے والے اور بھی گیان والے اور والیوں کے ہیں۔ جدھر دیکھیے اشرافیہ ہی اشرافیہ ہیں۔ کچھ انگریزوں کی سیوا کر کے اشرافیہ بنے تو کچھ سر جھکا کر مسکا لگا لگا کر اور سب سے بڑھ کر یہ کہ راضی با رضا کی عملی تفسیر بن کر اشرافیہ بن گئے لہٰذا اب ہر سمت اور ہر شعبے میں اشرافیہ ہی اشرافیہ ہیں، جو قیادت بھی کرتے ہیں اور مول تول بھی۔

سیاست ہو ، عدلیہ ہو ، ادب ہو یا صحافت ایسے مراعات یافتہ بیوپاریوں کی ایک طویل فہرست ہے، جو آمر کو اجر مانتے رہے اور جمہوریت کا اجر بھی کماتے رہے ۔ ٹی وی چینلز کی زیادتی کے ساتھ ساتھ صحافت سے زیادتی کی بھی افزونی ہوتی گئی۔ ندائے غیب کی ہدایات پر نت نئے کوئے ملامت آزادانہ اور جرات رندانہ کی صحافت کا روپ دھارتے سامنے آتے گئے یا لائے گئے ۔ پھر ٹیکنالوجی اور سٹیزنز پورٹلس نے تو ہر کسی کو صحافی بنا دیا۔ کہانی میں ڈرامائی اور ڈراؤنا موڑ اس وقت آیا جب یہ تماشا بھی ہم ستم زدہ لوگوں کو دیکھنا پڑ رہا ہے جو اس شعر سے سمجھ لیں۔

جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھی دھڑکنیں
ان کو زباں ملی توہمیں پر برس پڑے

وقت سے برا اور بڑا ستم ظریف کون ہو گا ؟ زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے۔۔۔ لیکن پاکستان کی تعلیم کی اصل روشنی سے محروم ، مُعْتَبَر تاریخ سے لاعلم ، مظلوم ،مقہور ،معتوب اور محکوم عوام ان چینلز بشمول سوشل میڈیا سے نشر کی گئی ہر بازی گری کی گرویدہ بھی ہوئی اور ہر طلسم کی اسیر بھی ۔

نتیجتا ایک ایسی مملکت وجود میں آگئی ہے جس کی قریباً ٦٥ فی صد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو زیادہ تر بے روزگار ہیں اور نا امید بھی۔ بڑی مہارت اور محنت سے اس بربادی کو تشکیل دیا گیا ہے۔ تحمل اور برداشت صرف حقوق کی صلبی پر ظاہر کیا جاتا ہے، لہٰذا کسی کو فرق نہیں پڑتا کہ کتنے بچے اور بچیاں، ٹرانس ، بوڑھے لوگ ، معذور لوگ ، بیوہ ،مطلقہ عورتیں ، شناخت کی تلاش میں، انصاف کی تلاش میں بلکی بھٹکتی کمیونٹیز کس کس طرح کے مصائب کا شکار ہیں ۔

فیک نیوز اور ڈس انفارمشن کے اس اپا دھاپی کے دور میں ہمارے سماجی ، سیاسی ، صحافی اور ادبی لیڈران کھوکھلے نعروں اور ترغیبات سے آگے نہیں جاسکے ۔ کسی کو اس بات سے فرق بھی نہیں پڑتا کہ ہمارے ٨ فروری کے انتخابات میں گنتی کے چند دن رہ گئے ہیں اور دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے پاس منشور تک نہیں اور اگر منشور نما کوئی دستاویز ہے بھی تو اس میں عوام کے مختلف طبقات کی شمولیت اور شراکت کا فقدان ہے ۔ اس سے بڑا بحران اور المیہ یہ ہے کہ اس کی کسی کو فکر نہیں یا ان کے نا ہونے سے کوئی ہائی پروفائل پریشان نہیں۔

اس ملک میں رہتا ہی کون ہے ؟ صحافی ،اشرافیہ ،ایکٹ وسٹس ،کھلاڑی ، اداکار ،ادیب ،سول اور فوجی بیورو کرسی کے رٹائرڈ عہدہ داران، بیشتر بیرون ملک فیملیز رکھتےہیں اور دہری یا تہری شہریت بھی۔ میرا بدنصیب وطن پاکستان تو محض ‘شہرت پانے کمانے’ عالمی کنٹریکٹرز کا ایجنڈا پورا کرنے کا محل وقوع ہے۔ ایسی ویسی آمریت ہو یا جیسی تیسی جمہوریت ہو، ایسی کی تیسی توعوام کی ہی ہوتی آئی ہے اور ہوتی رہے گی۔ مگر جن کو پشیمان ہونا چاہیئے وہ تو یہی کہتے ہوں گے کہ سانوں کی تے سا ڈا کی۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے