کراچی کا شیو مندر اور مدینہ مسجد کلفٹن بین المذاہب ہم آہنگی کی بہترین مثال

قرآن کریم میں متعدد جگہ آیات میں انسانوں کے مشترکہ اوصاف ذکر کیے گئے ہیں۔ تاکہ وہ بحیثیت انسان ایک دوسرے کو قبول کریں اورایک دوسرے کے قریب آئیں۔اسلام میں دوسروں کو اپنا مذہب قبول کروانے پر مجبور کرنے کی قطعا اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے اسلام اپنے قائم کردہ سماج میں دوسرے مذہب والوں کو شہری حقوق، مذہبی آزادی اورعہدے ومناصب دیتاہے۔ اسلامی تاریخ کے ہر دور میں یہ رواداری ملتی ہے؛ اس لیے کہا جاسکتاہے کہ اسلام کا قائم کردہ تکثیری سماج بے مثال ہے۔

پاکستان میں 95 سے 98 فیصد مسلمان ہیں اور 2 سے 5 فیصد غیر مسلم اقلیتیں ہیں۔ پاکستان ایسی ریاست ہے، جہاں پر پاکستان کے دستور کے تناظر میں تمام اقلیتوں کو مذہبی آزادی ہے۔ اگر ذاتی دشمنی، جاہلیت، غربت یا مقامی جھگڑے کی وجہ سے کسی آبادی میں کوئی نا خوشگوار واقعہ ہو جائے، جس میں کسی مسلمان اور غیر مسلم کا تنازعہ ہو تو اس کو اجتماعی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنا مناسب نہیں۔ البتہ کئی ایک دفعہ جذباتی ٹولے اور شر انگیز عناصر کی طرف سے کسی بھی موقع سے فائدہ اٹھا کر عوام کو اشتعال دلا کر اقلیتیوں کے ساتھ ناروا سلوک بھی کیا جاتا ہے۔

ایسے خطرات وہاں اور زیادہ بڑھ جاتے ہیں جہاں مختلف مذاہب کی عبادت گاہیں قریب ، قریب ہوں۔ تاہم اگر ان مذاہب کے ماننے والوں اور رہنماؤں کے درمیان اچھے تعلقات ہوں تو نہ صرف خطرات کم ہو جاتے ہیں بلکہ مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں اور مراکز کا قریب قریب واقع ہونا مزید لوگوں کے لیے باہم سیکھنے اور رواداری کے ساتھ رہنے کے بہترین مواقع فراہم کرتا ہے۔

وطن عزیز میں بسنے والے مختلف مسالک و مذاہب کے مراکز اور شخصیات سے باہمی افہام و تفہیم کی مجلسوں میں شرکت کا موقع ملتا رہتا ہے۔ اسی طرح کی ایک کاوش کے سلسلے کی بنا پر راقم اپنے صحافی دوستوں (جناب جنید عظیم ، سمیر علی خان اور سنیتا کے ہمراہ 11 جنوری بروز جمعرات کو کلفٹن میں واقع مندر (شوا) پہنچا۔

قارئین! ایک شوا دیوتا بھی ہندو مذہب میں ہے، شاید یہ مندر اسی کے نام پہ ہے آئیے اس کا بھی ہندو مذہب کے مطابق مختصر تعارف کروا دیتے ہیں۔ ہندو مذہب میں شوا دیوتا فنا کرنے والا اور دوبارہ پیدا کرنے والا دیوتا سمجھا جاتا ہے۔ ہندو عقیدہ کے مطابق اس کا ایک تہوار بھی ہوتا ہے۔ تہوار تین وجوہ کی بنا پر منایا جاتا ہے۔ایک تو سدا شوا دیوتا، جس کی کوئی شکل نہیں، وہ آدھی رات کے وقت نمودار ہوا تھا اور دوسرے اس نے پاروتی سے شادی کی تھی جو انسانی روح کے دیوتا سے ملنے کی علامت ہے۔

تیسرے شوا دیوتا نے وہ مہلک زہر پی لیا تھا اور اسے اپنی گردن میں روک لیا تھا جس زہر کا ایک قطرہ بھی اگر اس کے پیٹ، جو کائنات کی علامت ہے، تک پہنچ جاتا تو دنیا ختم ہوجاتی۔ اس لیے ہندو مذہب میں ماہا شوا راتری کی رات کو دنیا کو بچانے کے لیے شوا دیوتا کا شکریہ ادا کرنے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس رات ہندو عقیدت مند بھوکے رہتے ہیں اور بعض لوگ پانی بھی نہیں پیتے۔ یہ یاتری رات بھر جاگ کر سوا کی پوجا کرتے ہیں اور اوم ناما شو یا پکارتے رہتے ہیں۔ ہندووں کا عقیدہ ہے کہ جو شخص لگن سے ساری رات شوا کا نام پکارتا ہے وہ گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔ پوری دنیا اور پاکستان خصوصاً اندرون سندھ میں ہندو آبادی اس کے تہوار کو یا میلہ کو بہت اہتمام سے مناتی ہے اور اس کی تقریبات کراچی میں کلفٹن میں شوا کے مندر میں بھی ہوتی ہیں۔اس میلے میں ہندو یاتری بھارت سے پاکستان بھی آتے ہیں۔

اسی مندر میں ہم داخلے کا انتظار کر رہے تھے۔ انتظامیہ کی طرف سے داخلے کی اجازت ملنے پر ہم مندر کے اندر جانے لگے تو ہمیں برگد کے گھنے پیڑ کے سائے نے گھیر لیا، درخت پہ بیٹھے پرندوں کی چہکاریں خوش آمدید کہنے لگیں۔ ہم ننگے پاؤں سیڑھیاں اترتے ہوئے ایک وسیع و عریض احاطہ میں پہنچ گئے۔ ہندو عقائد کے مطابق یہ مندر کئی صدیوں تک شیو بھگوان کا ٹھکانہ رہا، کئی صدیوں بعد شیو جی یہاں سے چلے گئے، لیکن اب بھی اکثر وہ مندر میں سانپ کی شکل میں آتے ہیں۔ بہر حال ابتدائی معلومات تو ہمارے پاس تھیں ۔ ہم تو ان سے پڑوس میں واقعہ مسجد اور مسجد کی انتظامیہ کے رویے کے بارے میں سوالات کرنے گئے تھے ۔

ہمارے سوالات کے جوابات دینے کے لیے انتظامیہ کی طرف سے ایک بزرگ خاتون کو بھیجا گیا جنہوں نے اپنا نام ماں جن بتایا۔ پہلے ان سے حال احوال دریافت کیا پھر ان کی عبادت کے اوقات اور دیگر امور کے بارے میں دریافت کیا، انہوں نے بہت ہی محبت سے سب سوالات کے جوابات دئیے ۔ آخر پہ میں اپنے اصل مدعا کی طرف آیا اور آنے کا مقصد بتایا۔

سوال یہ تھا کہ آپ کے ساتھ ہی مسلمانوں کی عبادت گاہ (مسجد) ہے۔ کبھی آپ کو ان کی طرف سے کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ یا ان کی طرف سے تعصب کا برتاو کیا گیا ہو، ان کا کہنا تھا کہ میری ستر سالہ زندگی میں کبھی ایسا نہیں ہوا ۔ بلکہ وہ ہم سے بہت اچھا برتاؤ کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ کے تہوار کے موقع پر بطور پڑوسی وہ تعاون بھی کرتے ہیں ان کا کہنا تھا بالکل وہ تعاون کرتے ہیں بلکہ اپریل کے مہینے میں اس مندر میں جو تہوار ہوتے ہیں ، ان میں سندھ اور بلوچستان سے بڑی تعداد ہندو یاتریوں کی آتی ہے اور مندر سے کے لے کر عبد اللہ شاہ غازی مزار تک بسیں اور لوگ (ہندو یاتریوں) کے ہی ڈیرے ہوتے ہی۔

ان دنوں میں مسجد کے باتھ روم ان لوگوں کے لیے کھول دئیے جاتے ہیں، جس پہ ہمیں خوشی ہوتی ہے کہ ہمیں کتنے پیارے پڑوسی ملے ہیں ۔ مندر کے اندر تصاویر بنانے کی اجازت نا دینے پہ شکوہ کرتے ہوئے اور داخلے کی اجازت دینے پہ انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم واپسی کے لیے روانہ ہو گئے ۔ یہاں آ کر ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ شیو مندر کے اندر ایک چشمہ بھی موجود ہے اور مشہور ہے کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی کی درگاہ سے پھوٹنے والا چشمہ، اور مندر کا چشمہ زیر زمین ایک ہی ہے۔

مدینہ مسجد کلفٹن کے امام مولانا حمید اللہ ہزاروی سے اس بارے میں موقف لینے کے لیے جب میں نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ مسجد کی انتظامیہ وقتاً فوقتاً اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعاون کرتی ہے بلکہ مندر کے خاص لوگ (خدام وغیرہ) ہمارے پاس اکثر آتے رہتے ہیں۔ ہم ان کو چائے پلاتے ہیں باتیں کرتے ہیں ، اور جب اُن کو کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو مدد کرتے ہیں اور یہ ہی دین اسلام کی تعلیمات ہیں ۔ یقیناً یہ پاکستان میں ایک خوب صورت جگہ ہے، جہاں مجھے بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک بہترین مثال ملی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے پاکستان میں اسی طرح امن قائم رکھنے کی کوشش کی جائے ۔ اور ایسی خوب صورت جگہوں کو ریاست بھی پروموٹ کرے۔ یہ مندر بھی ایک ہندؤوں کی مذہبی جگہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت شاہکار ، تاریخی ورثہ اور ہمارے ثقافتی تنوع کا ایک بہترین نمونہ بھی ہے ۔

اس طرح کے مذہبی مقامات جو فطرت کے درمیان قدرتی طور پر بن گئے ہوں، دنیا میں چند ایک ہی ہیں اور یہ شیو مندر بھی ان میں شامل ہے۔ روی ڈاوانی کا کہنا ہے کہ جس طرح سکھوں کے لیے کرتارپور گردوارہ نہایت اہم مذہبی اہمیت کا حامل ہے، بالکل ویسے ہی یہ کلفٹن کا تاریخی مندر بھی ہندوؤں کے لیے بے حد اہم ہے۔ اگر مناسب انتظامات اور سہولیات فراہم کی جائیں تو دنیا بھر سے عقیدت مند یہاں آئیں گے اور یہاں منائے جانے والے مذہبی تہوار، معاشی اور سیاحتی حوالے سے بھی فائدہ مند ثابت ہوں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے