پہلی بار ملتان سے 21 آزاد خواتین امیدوار انتخابی میدان میں اتریں گی

خواتین کے لیے آج بھی سیاست میں پاؤ جمانا آسان کام نہیں، سیاست میں خواتین کے لیے کئی مشکلات آتی ہیں، وہی آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین کو کسی پارٹی کا سپورٹ حاصل نہ ہونے کی وجہ سے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑھتا ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد خواتین امیدوار کی جانب سے بھی انتخابی سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جاری کردہ لسٹ کے مطابق پنجاب میں خواتین ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ سے زائد بتائی گئی ہے ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حالیہ اعداد وشمار کے مطابق ضلع ملتان کے کل ووٹرز کی تعداد تیس لاکھ اکتالیس ہزار پانچ سو اٹھاسی ہے، جس میں خواتین ووٹرز کی تعداد چودہ لاکھ تینتیس ہزار دو سو اکیس ہے جو کہ ضلع ملتان کے کل ووٹرز کا 47 فیصد بنتی ہے، شہر میں خواتین کی اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود آزاد امیدوار خواتین کو الیکشن لڑنے کے لیے کئ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

آنے والے انتخابات میں ملتان ڈویژن سے 21 خواتین انتخابات میں حصہ لیں گی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے آزاد امیدوار کے طور پہ حصہ لینے والی خواتین کو نشان بھی الاٹ کر دئیے گئے ہیں۔ خواتین میں این اے 148 سے انیلہ افتخار ہیں، جن کو” ٹریکٹر ” کا انتخابی نشان الاٹ ہوا ہے۔ این اے 151 سے مہربانو قریشی آزاد امیدوار وار کے طور پہ میدان میں اتریں گی، جن کو "چمٹا "کا انتخابی نشان الاٹ ہوا ہے، این اے 153 نغمہ مشتاق لانگ جنکا انتخابی نشان "ڈف” کا ہے اور پی پی 213, عائشہ صدیقہ جن کو ” کرسی” کا نشان الاٹ ہوا ہے جبکہ پی پی 214 سے سارہ علی ” کیلکولیٹر” کے نشان سے لڑیں گی اور پی پی 215 سے ظل فاطمہ میدان میں اتریں گی جنکا نشان "گٹار” ہے۔ پی پی 215 سے ہی قربان فاطمہ ” پیالہ” کے نشان پہ لڑیں گی جبکہ فرزانہ سلیمان” ٹی پاٹ” کے نشان پہ انتخابات میں حصہ لیں گی جبکہ پی پی 216 میں سیدہ قرتہ العین زاکر کو ” ٹینٹ” کا نشان ملا ہے ۔

ایڈوکیٹ ہما انصاری جو 12 سال سے بار کونسل کی ممبر ہیں اور خواتین کے لیے مختلف تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ہمارے ملک کا قانون خواتین کو الیکشن لڑنے کے معتلق تحفظ فراہم کرتا ہے، بے شک چاہے وہ آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیں، خواتین کے انتخابات لڑنے کے متعلق پاکستان کے آئین اور قانون کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 2002 سے پاکستان کی قومی اسمبلی میں عورتوں کے لیے 60 سے زیادہ مخصوص سیٹیں موجود ہیں۔

پاکستان کے پہلے آئین (1956) میں خواتین کے لیے 10 سیٹیں مختص کی گئی تھیں، 1962 میں اس تعداد کو کم کر کے 6 کر دیا گیا تھا، 1973 میں دوبارہ دس جب کہ 1985 میں انہیں دوگنا کر کے 20 کر دیا گیا اور اب یہ تعداد 60 ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت اگر کسی حلقے میں خواتین کے ووٹ دس فیصد سے کم پڑیں گے تو وہاں انتخابات دوبارہ ہونگے جبکہ ہر سیاسی جماعت 5 فیصد ٹکٹیں خواتین کو دینے کی پابند ہے، اگر امیدوار چاہے آزاد ہو یا کسی پارٹی کی جانب سے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے انکو سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔ آزاد امیدوار کے طور پہ الیکشن میں حصہ لینے والی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے کی بھی کسی کو اجازت نہیں، قوانین تمام امیدواروں کے لیے یکساں ہوتے ہیں مگر افسوس ہیں آزاد امیدوار کے طور پہ حصہ لینے والی خواتین کو پارٹی کی سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے پولینگ اسٹیشن سے لیکر کمپین کرنے میں بھی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

این اے 151 سے آزاد امیدوار کے طور پہ انتخابات میں حصہ لینے والی سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی صاحب ذادی مہر بانو قریشی کا کہنا ہے کہ اس بار آزاد امیدوار کے طور پہ میدان میں اتریں ہوں اور ووٹ مانگنے ڈور ٹو ڈور کمپین کر رہی ہوں ایک عورت ہونا اور پھر آزاد امیدوار کے طور پہ انتخابات میں اترنا ایک مشکل امتحان سے کم نہیں ہے۔ میں ایک سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہوں اور معاضی میں بھی انتخابات میں حصہ لے چکی ہوں عورت کے ویسے ہی کورنر میٹنگز اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کو برا سمجھا جاتا ہے اور اگر کسی سیاسی پارٹی کا تعاون بھی حاصل نہ ہو تو آپ سمجھ ہی سکتے ہیں۔

کیسے امتحان کو پار کرنا ہوتا ہوگا اس بار کیونکہ مالی معاونت بھی حاصل نہیں کسی پارٹی کی جانب سے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشان بھی چمٹا الاٹ کیا گیا ہے تو لوگوں کی جانب سے عجیب باتیں بھی سنیں کو ملیں ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران مجھے آوازیں کھسی گئ کہ عورت چمٹا بجا کر ووٹ مانگ رہی ہے مگر عورت کمزور نہیں ہوتی۔ آج بھی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آزاد امیدوار خاتون کو کسی پارٹی نے نہیں اپنایا تو وہ کس طرح آگے بڑھ کر انکے مسائل حل کر سکیں گی مگر 2022 کے ضمنی انتخابات میں بھی سابق وزیر اعظم کے بیٹے کو میں نے تحریک انصاف کی نشست پہ ٹکر کا مقابلہ دیا تھا، اس بار بھی اپنی پوری کوشیش کروں گی۔

پی پی 218 سے انتخابات میں آزاد امیدوار کے طور پہ حصہ لینے والی قربان فاطمہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے کئ بار مختلف پارٹیز سے ٹکٹ کا مطالبہ کیا ہے مگر کسی کی جانب سے انہیں سپورٹ نہیں کیا گیا تو اس بار میں آزاد امیدوار کے طور پہ ہی میدان میں اتریں ہوں مگر اسکے مسائل بھی الگ ہے نہ ہی مالی تعاون حاصل ہے اور نہ ہی اپنوں کا سپورٹ حاصل ہے۔

آج بھی لوگ سیاست میں عورت کے آنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں۔ یہ میں بس اپنے شوہر کے سپورٹ کی وجہ سے یہاں موجود ہوں ورنہ خاندان میں یہ بھی کہا گیا جسکو کوئی ٹکٹ نہیں ملا۔ وہ انتخابات میں کریں کیا کرے گی، عورت ہر شعبے میں اپنا لوہا منوا سکتی ہے لیڈر تو بس لیڈر ہوتا ہے نا؟

اس میں کہاں لکھا ہے کہ لیڈر مرد ہونا لازمی ہے اور آزاد امیدوار ہونے پہ پیسے کے بنا کمپین کرنا ایک اہم مسئلہ ہے دور تک اپنی آواز پہچانے کی کوشیش جاری ہے ایک ایک کے گھر جاکر اس سے ووٹ مانگ رہی ہوں میں نے کونسلر کے انتخابات میں حصہ لیا تھا اور میں نے 4 امیدواروں کو شکست بھی دی تھی مگر لوگوں کو اب بس یہ یقین دلانا مشکل ہے کہ انکے کام او گی ووٹ دیں کیونکہ انکا کہنا ہے کہ کسی پارٹی نے اعتماد نہیں کیا تو وہ کیوں کریں مگر میری کوشیش جاری ہے اور یقیناً نتائج مختلف ہوں گے جو سب کو حیران کر دیں گے کیونکہ محنت کرنا میرا کام ہے تنقید تو عورت شروع سے ہی برداشت کرتی آئی ہے۔

پی پی 215 کے رہائشی 65 سالہ کامران علی کا کہنا ہے کہ عورت پہ اعتماد کرتے ہیں اور انکے کام کو بھی سہراتے ہیں مگر علاقے کے تاحال بڑے بڑے مسئلے حل نہیں ہوسکیں گے۔ جس میں پینے کا صاف پانی تو ہر ایک ضرورت ہے آزاد امیدوار کے طور پہ انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین پہ اعتماد اس لیے کرنے میں مشکل ہوتی کیونکہ انکو کوئی پارٹی اپنانے کو تیار نہیں یعنی وہ اپنی قابلیت دیکھانے میں ناکام رہی کہی نہ کہی ہم غریب لوگ ہیں ہم عورت یا مرد کا فرق نہیں ہم اپنے بچوں کو بنیادی سہولیات دلوانے چاہتے ہیں۔ خاتون کے لیے ویسے ہی کورٹ کچہری کے مالے حل کرانا مشکل ہوتا ہے اوپر سے کسی پارٹی کے سپورٹ کے بنہ انہیں ووٹ ڈالنے کو دل نہیں مانتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے