تمام مذاہب کا پیغام محبت،احترام اور انسانیت ہے،پھر نفرت اور بد امنی کی وجہ کیا ہے

آ ج کے معاشروں میں نرمی اور گداز کم ہوتا جا رہا ہے۔ صبر، برداشت ایک دوسرے کو قبول کرنے، حقوق و فرائض میں توازن پیدا کرنے کے مثبت رویئے تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک سماج دشمن عناصر مذہبی افراتفری کے ذریعے انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں بین المذاہب ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو پہچاننا ہو گا۔

معاشرے میں ناخوشگوار واقعات کی روک تھام کے لیے جہالت کا خاتمہ ضروری ہے۔ معاشروں میں حقوق و فرائض کا خیال نہ رکھنے سے بھی انتشار پھیلتا ہے۔ ہمیں معاشرے میں بین المذہب ہم آہنگی کا رنگ بکھیر کر مزید خوبصورت بنانا ہے۔

معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی کیوں ضروری ہے اور کس طرح لائی جا سکتی ہے، اس حوالے سے مختلف طبقہ فکر اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد سے فورم کا اہتمام کیا گیا، جن سے ہونے والی گفتگو قارئین کی نذر کی جا رہی ہے۔

اتحاد المدارس العربیہ پاکستان کے صوبائی ناظم علامہ محمد شعیب نے کہا کہ اسلام کی تعلیمات یہ ہیں کہ دوسروں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی ہیں۔ ہر مذہب کے پیروکار اپنے طریقے سے فرائض سرانجام دیں گے۔ ہمیں اپنے حسن اخلاق سے اور بہترین رویئے سے دوسروں کو اپنا گرویدہ بنانا ہے اور بحیثیت اسلامی ملک کے پاکستان کی سالمیت استحکام اور امن کا قیام بھی اسی میں پوشیدہ ہے کہ ہم آپس میں نہیں لڑیں گے۔

اس طرح سے نہ صرف مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ ملک کو بھی خطرہ ہوتا ہے اور انتشار و افتراق کا ایک دور شروع ہو جاتا ہے، جو اپنی جڑیں مضبوط کر لے تو پھر اسے قابو میں لانا مشکل ہوتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی تو امن کے قیام کے لیے جو کوششیں کی جا رہی ہیں، ہم ان کو بھی بتانا چاہتے ہیں۔ بیرونی دنیا کو بتانا چاہیے کہ ہم یہاں پر دوسرے مذاہب کو ان کے مکمل حقوق دیتے ہیں۔ بھائی چارے سے زندگی گزار رہے ہیں۔

اگر ان کو گمان ہے کہ یہاں دیگر مذاہب کو انکے حقوق نہیں مل رہے یا ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو کوئی ایسی بات ہے ہی نہیں ، ہمارے یہاں پر حکومتیں مختلف مذاہب کے پیشوا اور علما کرام سب ایک ہیں۔ میری زوجہ فوت ہوئیں تو مختلف مذاہب کے لوگ مذہبی پیشوا ہمارے گھر آئے، میت کے احترام میں وہ سب کھڑے ہو گئے۔ جب ان کا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے، تو ہم بھی جاتےاور احترام میں کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شریک ہوتے ہیں ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرتے ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ دنیا بھر میں بد امنی کی کیفیت نظر آرہی ہے جسے ختم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان رواداری کو فروغ دیا جانا چاہیے۔ اس میں حسن تعامل کی فضا پیدا ہو گی تو امن کو فروغ حاضر حاصل ہوگا۔

دنیا کا جائزہ لیں تواس وقت غزہ کے اندر جو صورتحال ہے، اس میں مذہبی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔جس کی وجہ سے پورا خطہ جنگ کی زد میں ہے اور اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑ رہے ہیں۔ انڈیا میں مسلمان اور دیگر مذاہب کے شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں جڑاوالہ کا واقعہ ہمارے لیے بہت عبرت ناک ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان کا تاثر پوری دنیا میں منفی چلا گیا ۔ ہمیں بحیثیت مسلمان اور پاکستانی مہذب شہری کے یہ دیکھنا ہو گا کہ مذاہب نفرت کے لیے بطور پلیٹ فارم استعمال نہ ہوں بلکہ تمام مذاہب کا پیغام محبت اور احترام انسانیت ہے اور اسی پیغام کو فروغ دیا جائے۔

مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی خاتون کونسلر شہلا کامران نے کہا کہ مذہبی ہم آہنگی ناصرف ضروری ہے بلکہ ایک جگہ پر ایک ملک میں رہنےوالےسب مذاہب ایک سٹیج پر یا ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھے بیٹھ کے ایک دوسرے سے اپنے مذہب سے متعلق معلومات کا تبادلہ کرناچاہیے تاکہ سب کو علم ہو سکے اور کوئی بھی کسی کے خلاف نہیں۔ ایک دوسرے کا احترا م کریں اور مل کر رہیں۔ اگر ہم اسی طرح ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھے ہو کے مل کے کام کریں گے تو زندگی گزارنے کے زیادہ اچھے مواقع مل پائیں گے اور زیادہ بہتر نتائج بھی آئیں گے۔

خیبر پختون اسمبلی کے سابق رکن اسمبلی رنجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے وہاں کے رہنے والے تمام مذاہب ، مسالک ، رنگ و نسل کے لوگوں کا اخوت ،پیار بھائی چارہ ، محبت اور مذہبی ہم اہنگی کے ساتھ رہنا ضروری ہے۔ میں ایک دوسرے کی تقریبات، دکھ سکھ، تکلیف میں شریک ہو نے سے ایک دوسرے کوسمجھنے کا موقع ملتا ہے اور بچے بھی سیکھتے ہیں ۔

ہمارے درمیان لاعلمی کے باعث نفرتیں پھیل چکی ہیں۔ بچوں میں دوسرے مذہب کو سمجھنے اور دیکھنے سے مثبت تبدیلی آئے اور ان کو بڑے ہو کر بھی یہ سمجھ یاد رہے گی کہ سب اللہ کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ مذہبی اسکالرز، سکھ کمیونٹی کے گرنتھی صاحبان پادری صاحبان،پنڈت صاحبان یا علما کرام کو معاشرے میں الگ مقام حاصل ہے۔ ان کی باتوں کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ وہ بہترین مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اپنی مساجد، مندروں، گردواروں ، گرجا گھروں سے مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے بڑا اچھا پیغام دیا جا سکتا ہے۔ نصاب میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ چیزیں بدلی بھی گئی ہیں، اس میں مزید ابھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

مردان سے تعلق رکھنے والے ریڈیو براڈ کاسٹر افضل خان نے کہا کہ کسی ملک یا خطے کا امن اور ترقی کا گر مذہبی ہم آ ہنگی میں پنہاں ہے۔ اگرکہیں خوف کا عمل دخل ہوتو وہ دہشت کوجنم دیتا ہے اور جب خوف اور دہشت مل جائے تو سب سے پہلے وہ امن کو سبوتاژ کرتا ہے اور جس ملک یا علاقے میں امن نا ہو وہ ترقی کسی صورت نہیں کر سکتا۔ ایسے علاقوں یا ممالک کو اندر یا باہرکے لوگ پسند نہیں کرتے اور نا ہی وہاں جا کر سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ جس سے ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے ۔ امن تو برباد ہوتا ہی ہے ، ترقی بھی تنزلی میں بدل جاتی ہے۔ ہمارا ملک تو مزیدکسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ لہذا اپنے ملک کی بقا امن اورسلامتی کے لیے ہمیں ہر قدم سوچ کر رکھنا ہے اور اپنے درمیان ملک دشمن عناصر کے مذموم ارادوں کو بھی مد نظر رکھنا ہے تا کہ ملکی ترقی اور امن کی شادمانی رہے۔

سول سوسائٹی کی نمائندگی کرنے والی خاتون آئرش گل نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مذہبی ہم آہنگی کے قیام میں خواتین کا بہت مثبت کردار ہے، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ خاتون خود با علم اور با صلاحیت ہو کیونکہ اگر اس کے پاس مذہبی علم کا فقدان ہے ، اس کو اپنے اور دوسرے کے مذہب کے بارے میں صحیح نہیں پتا تو وہ اپنے بچوں کو یا اپنے ارد گرد کی نوجوان بچیوں کو وہ کوئی تعلیم نہیں دے سکتی ۔

اس لیے سب سے پہلے اس کو چاہیے کہ وہ خود اپنے مذہب اور دوسرے مذاہب کا علم رکھتی ہو۔ ان کے عقائد،رسومات کے بارے میں وہ خود آ گاہی حاصل کرے تاکہ وہ ان کے لیے احترام اور تفہیم کو فروغ دے سکے۔ اگر وہ کسی سکول یا جامعہ سے منسلک ہے تو اس کو سکولوں میں، جامعات میں مختلف مذاہب پر مبنی سرگرمیوں کو متعارف کرائے۔ مختلف مذاہب کے طلبا کو شامل کرے، مذہبی ہم آہنگی کے لیے بچوں کی سطح پر کہانیاں بنائی جا سکتی ہیں۔ اسکول و جامعات میں نوجوانوں کے درمیان بین المذاہب گفتگو اور سمجھ بوجھ کے پروگراموں کا انعقاد کیا جائے تو مذہبی ہم آہنگی کو بہت حد تک فروغ دیا جا سکتاہے۔

ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے راجپوت ویلفیئر سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری وشال نے کہا کہ سرکاری سطح پر تمام مذاہب کے مذہبی ،ثقافتی تہواروں کوملکی سطح پر منایا جائےاور میڈیا اسے کوریج دے۔ ہماری رسومات رواجات، قوانین کی معلومات دوسروں تک پہنچائی جائے۔ میٹر ک کی تعلیم تک نصاب میں بھی ہر مذہب کا احترام کرنا سکھایا اور پڑھایا جائے۔ پیس ایجوکیشن کو فروغ دیا جائے جبکہ دوسری طر ف نوجوانوں میں فرسٹریشن ختم کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔

پشاور یونیورسٹی شعبہ صحافت کے طالب علم ثنااللہ اور عیسیٰ نے کہا کہ مذہبی آہنگی کے حوالے سے اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پشاور میں تحصیل گور گھڑی میں ایک طرف مسجد ہے اور اس کے سامنے مندر ہے۔ اس طرح کی کئی مثالیں پورے پاکستان میں ملتی ہیں، جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ پاکستان بننے سے پہلے یہاں جو معاشرہ تھا اور ہندو، مسلم مسیحی ،سکھ وغیرہ یہ سب اکھٹے رہتے تھے ۔ تو اگرچہ عقائد کی بنیاد ایک دوسرے سے فرق تھا لیکن اختلافات نہیں تھے۔ ایک ہزار سال پہلے بھی یہاں پہ مسلم، ہندو اور سکھ سب اکٹھے رہتے تھے۔

معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی کتاب "برصغیرکی تاریخ ” ــمیں بھی لکھا ہے کہ یہاں پہ مسلمان ہندو اور عیسائی (مسیحی) سب اکٹھے رہاکرتے تھے۔ ایک دوسرے کے دکھ تکلیف میں شامل ہوتے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ نفرت نہیں کرتے تھے ۔محبتیں بانٹتے تھے، تبھی تو ہزاروں سال تک اکھٹے رہ سکے ہیں۔

آج کے اس گلوبلائزیشن کے دور میں ہم سب مذہب کے ماننے والوں کومحبت اور انسانیت کے جذبے کے ساتھ رہنا چاہیے۔ ہمیں مذہبی اقلیتی برادری کے ساتھ مل جل کر امن کے ساتھ رہنا ہے۔ ہم سب کے سب پہلے پاکستانی ہیں بعد میں مذہبی یا مسلکی گروپوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ پاکستان کے شہری سکھ ،ہندو، مسیحی سب پاکستانی ہیں۔ان کے جو بنیادی حقوق ہیں ان کو اپنے اور ہمارے مذہب نے اور آئین نے جو تحفظ دیا ہے، وہ ہمارے رویوں سے جھلکنا چاہیے۔ ان کو مذہبی آزادی حاصل ہو ، وہ اپنے مذہب اور مسلک پر عمل کر سکیں اور امن کا بول بالا ہو کیونکہ کسی بھی علاقے ،ملک یا خطے کی ترقی میں امن کا بہت بڑا کردار ہے۔

سوات سے تعلق رکھنے والی گورنمنٹ کالج کی لیکچرر جویریہ وہاب نے کہا کہ بین المذاہب ہم آ ہنگی بیک وقت نہایت مشکل بھی ہے اور انتہائی آسان بھی ۔ ضرورت اس کوحقیقی معنوں میں سمجھنے کی ہے۔ مسئلہ ان کے لیے ہے جو سمجھتے نہیں ہیں اور آسان ان کے لیے ہے جو نا صرف اپنے بلکہ دوسرے کے مذہب کو سمجھتے ہوئے بین المذہب ہم اہنگی پر عمل کرتے ہیں اور امن بھی دو طرح کا ہوتا ہے ایک اندرونی اور دوسرا بیرونی ۔

جو اپنے اندر سے پرسکون ہوتے ہیں وہ پرامن ہوتے ہیں، مسائل اور بدامنی وہ پیدا کرتے ہیں جو خود کسی نا کسی مسئلے کا شکار ہوتے ہیں دراصل ہر مذہب امن کا درس دیتا ہے۔ پاکستان جیسے جہاں مختلف مذہب، مسالک اور ثقافت کے لوگ رہتے ہیں تو اگر ہم آپس میں ہی مل جل کے نہیں رہیں گے تو امن کیسے قائم ہو گا ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم سب مل کے کام کریں گے تو ملک میں نا صرف امن ہوگا بلکہ ترقی بھی کرے گا۔

ہندو کمیونٹی کی نمائندگی کرنے والے اویناش داس نے کہا مختلف مذاہب میں بہت ساری قدریں مشترک ہیں جبکہ ثقافتی طور پر بھی بہت سارے رواجات و رسومات ایک جیسی ہیں۔ ہمیں اپنی مشترک مذہبی احکاما ت اور اقدار کو ساتھ لے کر چلنا اور انہیں فروغ دینا ہیں تا کہ مذہبی روادری ،ہم اہنگی ۔ مثبت سوچ، اور بہترین معاشرتی رویئے پروان چڑھ سکیں ۔

لا ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم طلحہ جاوید نے کہا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے ، جس میں سب کی رائے کو شامل کیا جاتا ہے۔ اس میں اقلیت اور اکثریت دونوں ہی قابل احترام ہیں۔ لہٰذا ملک میں جمہوری عمل کو فروغ پانا اور جمہوریت کو تقویت دینی چاہیے اور اگر جمہوری عمل نہ ہو تو افر تفری پھیلتی ہے۔ جمہوریت ہو تو امن کا قیام آسان ہو جاتا ہے۔ جمہوریت کے مخالف جو نظام ہے، وہ بادشاہت یا پھر آمریت ہے۔ جس میں صرف ایک بندے کی چلتی ہے لہٰذا دوسرے طبقے کو مواقع نہیں ملتے۔ ہمیں پاکستان میں حقیقی جمہوریت کو لانا ہے، جس میں اقلیت و اکثریت کو برابر کے مواقع ملیں گے اور ملک میں امن کا قیام بھی اسی صورت ممکن ہوگا، جب جمہوریت ہوگی تو امن ،واداری، بھائی چارے اور مذہبی ہم اہنگی کا بول بالا ہوگا ۔

پشاور یونیورسٹی کی ایم ایس کی طالبہ سمرا نے کہا کہ ضروری ہے کہ تمام مذاہب اور مسالک کو سمجھا جائے اور مل کر کام کیا جائے اور انسانیت کے جذبے کو فروغ دیں۔ سکول ٹیچر رانی عندلیپ نے کہا کہ ا گر تنوع ہو تو مختلف مذاہب کے درمیان برداشت پیدا ہوتی ہے اور انتہا پسندی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یہ معاملات اس وقت بہتر طور پر حل ہو سکتے ہیں کہ جب فیصلہ سازی میں مختلف طبقہ فکر اورمختلف مذاہب کو شامل کیا جائے۔

ہر کسی کی سنیں اور ان کو سمجھیں تو پھر مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کے ساتھ ساتھ امن و امان کا قیام ممکن ہو سکے گا۔ پاکستان ایک گلدستہ ہے، جس میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں اور انہیں بہت ساری سہولتیں بھی دی جاتی ہیں، ملازمت میں مختلف سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کی صورت میں خصوصی کوٹا فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے لیے فنڈز رکھے جاتے ہیں۔ ان کی عبادت گاہوں کے لیے بھی سرکاری طور پر فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ بہت سارے اقدامات ایسے ہیں جو مذہبی اقلیتی برادری کو اضافی سہولتیں دی جاتی ہیں تاکہ وہ کسی صورت بھی اکثریت سے پیچھے نہ رہ جائیں۔

اچھے اور بہترین مواقعوں کی فراہمی کے باوجود بعض اوقات ایسے واقعات ہو جاتے ہیں، جس کا آغاز تو کوئی انفرادی حیثیت سے کرتا ہے لیکن بعد میں وہ ملک کو بدنامی کی طرف لے جاتے ہیں، تاہم سب کو مل کے سوچنا ہے کہ یہ ہمرا اپنا ملک ہے، ہمیں اپنے ملک کی بقا و سلامتی اور عزت و آبرو کا خیال رکھتے ہوئے سماج دشمنوں کے عزائم کو بھی سمجھنا ہے اور کسی ایسی کاروائی کا حصہ نہیں بننا کہ جس سے مذہبی رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کے لیے کی جانے والی کاوشوں کو سبوتاز کیا جا سکے۔

گور نمنٹ لیڈی ریڈینگ ہسپتال کی پبلک ریلیشنز آفیسر ناہید جہانگیر نےکہا اگر سب نے پرامن رہنا ہے کیونکہ ایک ہی ملک میں، ایک ہی خطے میں زندگی بسر کرنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ تمام مسالک اور مذاہب میں بہت مضبوط تعلق ہو ایک دوسرے کے لیے عزت ہو احترام ہو۔ ایک دوسرے کے ساتھ رابطےرکھیں۔ ہمارا مذہب الگ الگ ہے لیکن ہم ایک ہی زبان بولتے ہیں ایک ہی علاقے میں رہتے ہیں تو پھر فاصلے کیوں رکھیں اپنے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزاریں۔ اور بھائی چارہ بھی رکھیں۔

سکول ٹیچر سلمیٰ نے کہا کہ گزشتہ د و دہائیوں سے مذہب اور مسالک کے حوالے سےمعاشرے میں درمیان خلا پیداہو گیا ہے ، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم بچپن میں محرم میں وہی شربت پیتے تھے، ہر جگہ آ جا سکتے تھے، کوئی پابندیاں یا خوف ڈر نہیں تھا، ہر کوئی اپنے مذہب یا مسلک کی پیروی کرتا، جس میں ارد گرد کے سب لوگ شامل ہو جاتے۔ عبادت اپنی اپنی کرتے لیکن دکھ سکھ سانجھے ہوتے ، اب بھی اسی رواج کو دوبارہ لانے کے لیے ہمیں کوششیں کرنی چاہیے۔ ہمیں پرامن رہنے کے لیے مختلف مسالک اور مذہب کے درمیان خلا کو پر کرنا ہے اور بد امنی ڈالنے والی بیرونی طاقتوں یا سازشوں کو پہچاننا ہے ، جو ہم میں پھوٹ ڈال کر ایسے معاملات کو ہوا دیتے ہیں ، جن کی بنیاد مذہب بنتا ہو تا کہ ملک کو بدنام اور امن کو خراب کیا جا سکے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والےساجد انور وردک نے کہا کہ بنیادی طور پر جب ہمارے اندر برداشت کم ہو جاتی ہے تو ہم معاشرتی طور پر ایک دوسرے کو قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر یہی رویہ ہم دیگر مذاہب اور مسالک اورعقیدے رکھنے والوں کے ساتھ بھی اپناتے ہیں۔ جس سے سوسائٹی کے اندر بھی آپس میں محبت اور عزت بڑھ جاتی ہے اور معاشرہ پر امن و خوشحال رہنے لگتا ہے۔ جب امن ہو تو معاشی ترقی وہاں زیادہ ہو جاتی ہے۔ لوگوں کا اعتماد بڑھ جاتا ہے، سرمایہ کاری ہوتی ہے، روزگار بڑھتا ہے، فی کس آمدنی بڑھ جاتی ہے اور ملک ترقی کی راہ پر چل نکلتا ہے۔

سینیر صحافی مسرت اللہ جان نے کہا کہ پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ آپ کسی کی بری ماں کو برا نا کہو تا کہ وہ آپ کی اچھی ماں کو برا نا کہے ۔ ہمارے ہاں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک ہیں اور دوسرا غلط۔ دوسروں پر اپنی مرضی اور رائے زبردستی تھوپتے ہیں اور یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ بعض لوگ دوسری کمیونٹی کے لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں تو اس سے نفرت پھیلتی ہے۔ رواداری ،بھائی چارہ اس وقت ہو گا، جب ہر کسی کو اللہ کا پیدا کردہ بندہ سمجھا جائے گا اور تکبر سے بچا جائےگا۔

ہری پور سے تعلق رکھنے والی خواتین نگہت ایاز کیانی اوربشریٰ حبیب نے کہا کہ ہمارے بچے آج کل مذہب سے بہت دور ہوتے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا میں کچھ زیادہ ہی مصروف اور مذہب سے بہت دور ہو رہے ہیں۔ معاشرے کو سدھارنے کے لیےسب سے پہلے اپنے مذہب کی تعلیم اور تہذیب کا معاملہ اپنے گھروں سے شروع کرنا ہو گا۔ اپنے بچوں کی تربیت ایسے کریں کہ سب سے پہلے انہیں انسان اور انسانیت کی قدریں سکھائیں ، پھر سکول میں ایسا نصاب ہو جس میں کسی سے متعلق نفرت نا ہو ۔ میڈیا بھی اپنا بھر پور کردار ادا کرے۔

دیر اپر سے تعلق رکھنے والے ایم ایس سی کیمسٹری کے طالب علم سعید احمد مدنی نے کہا کہ ہمارے لیے بین المسالک ہم آہنگی زیادہ ضروری ہے کیونکہ یہاں بین المسالک مسئلے زیادہ ہیں۔ اہل تشیع ، اہل حدیث ، سنی ، بریلوی ، دیوبندی اور بہت کچھ ہے۔ اگر یہ سب بین المسالک ہم آہنگی پیدا کر لیں تو آسان ہو جائے گا۔ در اصل بیرونی ممالک کی مداخلت نے ایسے حالات بنائے ہیں کہ ہم مسلمان بین المسالک مسائل میں پھنس گئے ہیں۔ اگر اس میں استحکام آجائے تو پھر بین المذاہب ہم آہنگی بہت اچھے سے آ سکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے