ایک اداس بے لاگ بلاگ

عورت : خاص طور پر اس عورت جس کو پدرسری نظام کی تمام بد تہذیبی ، بد دیانتی اور بد نیتی کو جھیلنا پڑتا ہے اور سہنا پڑتا ہے کہ اس کے لیے کوئی ایلیٹ اکٹیوسٹ، میڈیا پلٹ فارم ، بیباک صحافی اور آزاد ادارہ آواز نہیں اٹھاتا ، میری اولین توجہ ہوتی ہے۔میں بھی ایک ایسی ہی عورت ہوں۔ نظام کی منافقت کو سمجھنے کے باوجود اور حقوق کے علمبرداروں کے دھوکوں کو قریب سے دیکھنے کے باوجود میں ووٹ کاسٹ ضرورضرور کرتی ہوں۔

ووٹ ؛ ایک بار پھر ووٹ کاسٹ کر دیا۔ جوانی سے عمر کے ملجگے حصّے تک جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھے اور ہر طرح کی ٹھوکر کھائی، اب بڑھاپے کی سرحد کے آغاز پر ہوں کہ سماجی لحاظ سے مینو پاز کے بعد عورت بوڑھی ہو جاتی ہے اور اس کو سنیاس لے لینا چاہیے ۔ صرف عورت ہی کیوں بوڑھی ہوتی ہے ؟ یا بوڑھی محسوس ہوتی ہے ؟ یا صرف عورت کی سیرت ہی کیوں غیرت اور حیرت کا محور رہتی ہے ؟ اس بات پر بات کرنے کا ٹھیکہ چند گنے چنے اداروں بشمول چند لاڈلی این جی اوز کے پاس ہے اور میرے اندر اشتہا نہیں کہ میں اس سٹیٹس کو چیلنج کروں ۔ ہاں "میں نا مانوں” کا اختیار ضرور میرے پاس ہے ۔ میں لبرل اور فیمنسٹ ہوں اور انسانی حقوق کی اقدار کے ساتھ پیوستہ ہوں اور اس کے لیے مجھے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔

آٹھ فروری 2024 گزر چکا، منصفانہ نظام اور آزادانہ فکر سے عاری معاشرے اور مملکت میں ایک بار پھر منصفانہ و آزادانہ انتخابات منعقد ہوچکے اور تادم تحریر دھاندلی اور دھونس کی باتیں کہیں پر دبے دبے اور کہیں پر دبدبے کے ساتھ ہورہی ہیں ۔ بھانت بھانت کی بولیاں ہیں، نا تخت گرے نا تاج اچھلے ۔ مخلوق خدا اپنی اوقات پر قائم ہے۔ کہیں پر بےترتیبی ہے یا برج الٹے ہیں تو وہ بھی ترتیب سے دیئے گئے سکرپٹ کا حصّہ لگتے ہیں۔

مردانہ محافل سجی ہیں، ٹی وی سکرینز پر اور باربی کی طرح کی چند خواتین بھی ہیں۔ حسب، نسب خاندان یہاں بھی حاوی ہیں۔ میڈیا میں بھی ہر طرح کی اور ہر طرح کی قربانی دینے والی خواتین بھی ہیں۔ مجموعی طور پر نسائی عدسے سے نا تو پہلے اور نا ہی بعد میں الیکشن کو دیکھا اور پرکھا جا رہا ہے۔ عام عورت کی حالت زار سے کسی بھی سیاسی پارٹی اور صحافتی حلقوں کو کچھ خاص دلچسپی نہیں۔

مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان میں اپنی آنکھوں سے مسائل کو دیکھنے اور معاملات کو سمجھنے کی روش مقبول ہوگی ۔حقوق کی پاسداری کی ذمداری ہمیشہ ہی غیر ملکی ڈونرز کے چہیتوں کے پاس ہی رہی گی۔ زیادہ تر نوجوانوں کے لئے خاص طور پر نوجوان نان الیٹ خواتین کے لیے اپوارڈ موبیلیٹی ایک بے تعبیر خواب ہی رہے گی ۔ لسانی اقلیت کو کبھی بھی مساوی حقوق نہیں ملیں گے ۔

پارلیمنٹ میں قانون سازی بھی فنڈز کرنے والے اداروں کے تحت ہو گی اور زیادہ تر پارلیمان بشمول خواتین غیر ملکی دوروں کی نذر ہو جائیں گی اور فنڈڈ تقریبات کا حصّہ بھی رہیں گی، نا تو جہیز کے خلاف قوانین نافذ ہوں گے نا ہی تعلیم اور نصاب کی طرف توجہ ہو گی ۔ ہر وہ کام جس میں ملکی مفاد ہو اور آزادانہ سوچ کی ضرورت ہو، اس کو نظر انداز کیا جائے گا ۔

غیر ممالک میں بسنے والے پاکستانی نژاد دانشوروں کو پاکستان کے بارے میں ماہرین بنا کر پیش کیا جائے گا۔ ہر وہ دولتمند جس کے خاندان کا اس ملک سے اور غریب سے کوئی تعلق نہیں ہے ، اس کو اعلی عہدوں سے نوازا جائے گا۔ شور تو مچتا ہے، اسٹیبلشمنٹ کے مبینہ ظلم یا زرہ نوازیوں پر لیکن سول سوسائٹی کی اپنی کرم فرمائیوں پر بھی بات کرنا محال ہے اور اس کے بھی سنگین نتائج ہیں۔ میں آج جتنی مایوس اور دل شکستہ ہوں شائد اب سے پہلے کبھی نہیں تھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے