ڈپریشن

اداسی بیزاری یا مایوسی میں مبتلا ہونے کو ڈپریشن کہتے ہیں، رضیہ بی بی جن کا تعلق چکوال سے ہے ایسی ہی ایک بیماری میں مبتلا ہوئیں ، وہ سیالکوٹ میں کرائے کے مکان میں رہتی ہیں، رضیہ بی بی کہتی ہیں کہ جب وہ سیالکوٹ آئیں تو وہ خوشی خوشی یہاں شفٹ ہوئی ان کا کہنا ہے کہ کرائے کا گھر بہت زیادہ تنگ تھا اور وہ کشادہ گھر کی عادی تھیں حتی کہ کرائے کے گھر میں کوئی کھڑکی بھی نہیں تھی۔ کہتی ہیں کہ ان کا خاوند رکشہ چلاتا تھا، جس سے ان کے گھر کا گزر بسر مشکل سے ہوتا تھا۔

رضیہ بی بی کا کہنا ہے کہ تنگ گھر اور تنگدستی کی وجہ سے ان کا دم گھٹتا تھا۔ آغاز میں انہیں اس بات کا علم نہیں ہوا کہ وہ ڈپریشن میں مبتلا ہو رہی ہیں ان کا کہنا ہے کہ جب کچھ عرصہ گزر گیا تو ان کو جھٹکے لگنے لگے اور ان کی طبیعت خراب ہو جاتی تھی، انہوں نے ڈاکٹر کو چیک اپ کروایا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ ڈپریشن کی مریضہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کا علم بھی نہیں ہوا کہ وہ ڈپریشن کی بیماری میں مبتلا ہو چکی ہیں، ان کے بچے اور خاوند انہیں بہت خوش رکھتے ہیں لیکن ڈپریشن کا مرض اب ان کی زندگی کے ساتھ ساتھ ہیں، وہ جب تک وہ پلز نہ کھائیں ان کو بے چینی رہتی ہے اور انہیں نیند نہیں آتی۔

اگر مایوسی یا اداسی دو ہفتے سے بڑھ جائے تو وہ ڈپریشن بن جاتی ہے، مایوسی بہت سی بیماریاں پیدا کرتی ہے اور ہماری روزمرہ کی زندگی کو متاثر بھی کرتی ہے۔

روبینہ بی بی کہتی ہیں کہ ان کی شادی 16 سال کی عمر میں ہوئی اور ان کی مرضی تھی، جب شادی ہوئی تو وہ مشترکہ فیملی نظام میں رہتی تھیں، گھریلو جگڑوں اور روزمرہ کی روک ٹوک سے وہ ذہنی طور پر سٹریس لیتی تھیں، اس سٹریس کے مسلسل لینے کی وجہ سے ان کو ڈپریشن ہو گیا۔ اس ڈپریشن کی وجہ سے انہیں اب کوئی چیز یاد نہیں رہتی، وہ بہت جلدی ہر چیز بھول جاتی ہیں حتی کہ کچھ منٹوں پہلے کی گئی بات بھی بھول جاتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اب وہ ڈپریشن کی دوائی کھاتی ہیں اگر وہ نہ کھائیں تو ان کے سر کو چکر آتے ہیں ان کے سارے جسم میں درد ہوتا ہے اور نیند ہی نہیں آتی اس کے ساتھ ساتھ جھٹکے بھی لگتے ہیں۔

بعض دفعہ زندگی میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں، جس میں ان کے ” عزیز و اقارب کا فوت ہو جانا، نوکری کا ختم ہو جانا” وغیرہ شامل ہے، جسمانی طور پر لوگ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں وہ لوگ جنہیں خطرناک بیماریاں ہوں مثلا کینسر ، دل کی بیماریاں اور ہیموفیلیا کی وجہ سے ڈپریشن ہو جاتا ہے۔ انسان کے بچپن میں ہونے والے تجربات و حالات بھی ہو سکتے ہیں، مردوں کی نسبت خواتین میں ڈپریشن ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور ڈاکٹر سید زکی معین جن کا تعلق شعبہ نفسیات سے ہے ، کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے مریض کا کسی بھی چیز میں دل نہیں لگتا، کسی چیز پر توجہ نہیں دے پاتے اور خود کو دوسروں سے کم تر سمجھتا ہے اور ایک تو وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہوتا ہے، دوسرا اس کی نیند میں بہت زیادہ کمی ہو جاتی ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ڈپریشن دماغ میں موجود کیمیائی مادے کی کمی کی وجہ سے بھی ہو جاتی ہے، ہمارے جسم میں موجود ہارمونز یا تو کم ہو جاتے ہیں یا زیادہ ۔ ماہر نفسیات مریم راتور کہتی ہیں ڈپریشن کے مرض سے انسان خود کو نکال سکتا ہے اگر وہ خود کو جسمانی طور پر مصروف رکھے، ورزش کرے اور کوشش کرے کہ متوازن غذا کھائے، شراب نوشی اور سگریٹ سے پرہیز کرے اور اگر ڈپریشن کے مریض کو نیند نہ آئے تو وہ بے چینی محسوس نہ کرے بلکہ خود کو ریلیکس رکھے۔

ڈپریشن کا علاج سائیکوٹھیراپی اور ادویات سے بھی کیا جا سکتا ہے، اگر ڈپریشن درمیانی درجے کا ہے، تو سائیکوتھیراپی کی جاتی ہے اور اگر شدت کا ہے تو اینٹی ڈپریشن ادویات استعمال کی جاتی ہیں، یہ ادویات سیروٹونن اور نار ایڈرینلین کی کمی ہوتی ہے۔ دماغ میں زیادتی کرتی ہیں، جس کی وجہ سے ڈپریشن کم ہو جاتا ہے۔

ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ اگر ڈپریشن کا علاج نہ کروایا جائے تو یہ نہ صرف آپ کی زندگی کو متاثر کرتا ہے بلکہ لوگ آپ کی حرکتوں کی وجہ سے آپ کو ناپسند بھی کرتے ہیں۔

خواتین میں ڈپریشن زیادہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ خواتین میں ایسٹروجن اور پروجسٹرون ہارمونز غیر متوازن ہو جاتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق 280 ملین لوگ ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہیں، جن میں پانچ فیصد بالغ لوگ اور پانچ یا سات فیصد 60 سال سے زیادہ عمر کے لوگ ہیں۔ 60 فیصد لوگوں کی ڈپریشن کی وجہ معاشی تنگی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق 75 فیصد لوگ جن کی انکم کم ہوتی ہے، وہ ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے