جوش ملیح آبادی اور اسلام آباد کا سلوک : کچھ دھندلی یادیں

بائیس فروری شاعر انقلاب اور یادوں کی برات جیسی آٹو بائیو گرافی کے تصنیف کار کی برسی کا دن ہوتا ہے۔ اس خبر کو کئی نامور اور پاپولر ٹی وی نیوز چینلز نشر کرتے ہیں۔ اس سال بھی ایسا ہوا۔ گذشستہ کئی برسوں سے میں یہ معجزہ دیکھ رہی ہوں۔

آج میں آپ کی ملاقات اپنے بچپن کی چند دھندلی یادوں سے کرواؤں گی، جن کا تعلق جوش صاحب سے ہے۔ ان کا نام جب میں نے پہلی بار اپنے اسکول کی اسمبلی میں اس حوالے سے سنا کہ ہمارے کالج میگزین سنبل میں ( جی ہاں میرا اسکول کالج تک تھا اس لیے اپ گریڈ ہونے کے بعد اس کا نام اسلام آباد ماڈل اسکول فار بوائز سے اسلام آباد کالج فار بوائز ہو گیا – وہاں کو ایجوکیشن پہلے آٹھویں پھر پانچویں تک تھی ) جوش ملیح آبادی کا انٹرویو شامل ہوا ہے۔ یہ بہت اعزاز کی بات تھی کیوں کہ جوش صاحب کے سامنے اردو بولنا بھی ایک کارنامہ تھا۔ یہ ضیاء کے مارشل لاء سے پہلے کی ہی بات ہو گی کیونکہ ظلمت اور حبس کے اس دور میں تو جوش صاحب کو پی ٹی وی نے بین کر دیا تھا۔ حیرت ہے، نامور ادیب ،ادب شناس اور شعرا جن میں سے کچھ تو پی ٹی وی کے ایم ڈی بھی رہ چکے ، کوئی احتجاج نہ کر سکے۔

روٹی ، روزگار کے اژدہے نے غالِباً انسانیت اور مزاحمت جیسی بیکار خصوصیات کو نگل لیا ہو گا یا پھر عقل نے بہکا دیا ہوگا۔ سو جوش اور فیض کے ساتھ ساتھ کلاسیکل رقاصہ ناہید صدیقی کا پائل پروگرام اور فریدہ خانم کی وہ غزلیں بھی پابندی کی شکار ہوئیں جو انھوں نے سلیولسس بلاؤز اور ساڑھی میں ملبوس ہو کر گائیں تھیں۔

میرے مرحوم والد نہ صرف ایک اصلی ،خالص اور کھرے ادیب، نقاد اور اسکالر تھے بلکہ ایک بناوٹ سے عاری سچے انسان بھی تھے لہٰذا انھوں نے اپنی اے سی آر کی کبھی پرواہ نہ کی۔ انھوں نے جوش صاحب سے مراسم کو نہ صرف اپنے لئیے ایک اِنْعام اور تَکْرِیم جانا بلکہ اپنے خاندان کو بھی دلیری، تحمل ، رواداری اور وضعداری کا سبق اپنے اعمال سے سکھایا بغیر کسی صلے یا ستائش کی تمنا کے۔

"حساس ” دانش وروں اور قد آور ادیبوں کے چھوٹے پن ، چھچھورے پن ، بیہودگی ، تنگدلی ، توہین اور کیریئر کی تنزلی کو وقار کے ساتھ جھیلا۔ تنہائی کے ساتھ موت کو گلے لگایا، ایک بار ہم لوگ کہیں باہر گئے اور جب واپس آئے تو گیٹ پر ایک پرچی ملی جس سے پتا چلا کہ جوش صاحب اپنی فیملی کے ہمراہ آئے تھے۔ اس زمانے میں موبائل فون نہیں تھا ، ٹی این ٹی کا فون ہر گھر میں نہیں تھا اور اسلام آباد تک میں بغیر اپائنٹمنٹ کے لوگ ایک دوسرے کے گھر شام کو ملنے چلے جاتے تھے ۔ ابّو جان کو اس بات کا بے حد افسوس ہوا تھا۔ بار بار کہتے اتنا بڑا شاعر ہمارے گھر آیا اور آج ہی ہم گھر پر نہیں تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ دکھی ہو جاتے جوش صاحب ایک دن اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے گھر آ ہی گئے اور ہم نے ملاقات کی اور آٹوگراف لیا۔ میری آٹو گراف بک پر انھوں نے یہ شعر لکھا تھا کہ

جس کو دیکھو وہ مسکراتا ہے

کون بےکس پر رحم کھاتا ہے

میں اس وقت بارہ تیراہ سال کی رہی ہوں گی لیکن مجھے اس سمے بڑھاپے اور نظر انداز ہونے کا دکھ کچھ کچھ سمجھ آگیا۔ میں اداس ہو گئی تھی۔

جب ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا ہوا تو جوش صاحب کی بہت ہی پیاری پوتی، ہمارے ایف سیون ٹو اسلام آباد کالج کی مقبول خوش گلو طالبہ اور آج کی معروف شاعرہ تبسم آفریدی، ہماری آپی سے بھی ملاقات ہوئی۔ جوش صاحب شالیمار اسلام آباد کے ایک سیکٹر میں رہائش پذیر تھے اور کوئی قابل ذکر سرکاری سرپرستی نہ تھی۔ ان کے فرزند اور باکمال موسیقار سجاد حیدر خروش بھی تغافل کا شکار تھے۔

پھر 1982 میں بائیس فروری کو ملیح آباد کے شبّیر حسن خان ، ہمارے اور آپ کے جوش صاحب ، جن کو ہندوستان نے 1954 میں اعلی ترین حکومتی ایوارڈ پدما بھوشن دیا تھا اور جو اردو کی محبّت میں 1956 میں پاکستان ہجرت کر کے آئے، ایک مختصر علالت کے بعد تراسی سال کی عمر میں اپنے ابدی سفر پر روانہ ہوگیئے۔

اسلام آباد کے پولی کلینک ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ حکومتی بے التفاتی کے ساتھ جنگ اخبار میں کسی کونے میں ان کے رخصت ہونے کی مختصر سی خبر چھپی تھی۔ ابّو جان اور ان کے ایک قریبی دوست مرحوم مہتاب ظفر انکل آخری دنوں میں بھی جوش صاحب سے ملتے رہے اور ابوجان گھر آکر مختلف لوگوں کے رویوں کے بارے میں بے بسی سے تذکرہ کرتے رہے۔ ان کے جنازے میں بمشکل چند افراد نے شرکت کی۔ زندگی کی بےشرم حرکتیں ضروری نہیں کہ وکیپیڈیا یا گوگل سرچ سے عیاں ہو سکیں۔ جوش صاحب "مر ” گئے اور اسلام آباد ٹس سے مس نہ ہوا، مجھے ایک بار پھر بہت بہت اداسی ہوئی۔

اور ہو گا کوئی جبر تو وہ بندۂ مجبور
مردے کی طرح کلبۂ احزاں میں ملے گا

اچھی بات ہے کہ پاکستان میں مزاج کی تبدیلی ہے اور بعد از مرگ۔ اکتیس سال کے بعد حکومت پاکستان نے جوش کو 2013 میں ہلال امتیاز سے نواز کر اس ایوارڈ کی کچھ لاج رکھ لی۔ اسلام آباد کے گریڈ زدہ قبرستان میں ایک نان وی آئی پی گوشے میں ایک "ملحد/دہریہ ” منوں مٹی تلے مدفون ہے۔ جس کے لکھے ہوئے مرثیے اب ٹی وی چینلز بشمول پی ٹی وی ، اس کے یکتا لہجے میں ادائیگی کے ساتھ چلا چلا کر نہیں تھکتے، نہ ہی ان کو شرم آتی ہوگی، نہ ہی یہ خیال کہ ان نایاب کلپس کی رویالٹی ہی ان کے خانوادے کو ادا کر کے کچھ تو ازالہ کریں ۔ اس ناروا سلوک کا جو اسلام آباد نے جوش کے ساتھ کیا۔

کچھ نہیں تو کوئی ادارہ جوش فیسٹیول کا ہی انعقاد کرکے ادبی ایلیٹِسم پر لعنت بھیجے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے