اشرافیہ خواتین پارلیمان اور خوشامدی خواتین فیمنسٹ

آج کل پاکستان میں میڈیا خاص طور پر سماجی میڈیا کے توسط سے بہت سی علمی تراکیب اور تصورات قریب قریب فلمی انداز میں ایکشن اور فیشن میں ہیں جیسے کہ ایلیٹ کپچر ، ایلٹسٹ کونسنسس ، فیمنسٹ ، فمنسم وغیرہ۔ پچیس تیس سال پہلے جب میں ان افکار کا اظہار سماجی ترقیاتی سیکٹر کے ٹھکیداروں کے رو برو کرتی تھی یا تحریروں میں ان الفاظ ، نظریات اور خیالات کا استعمال اور پرچار پاکستانی تناظر میں کرتی تھی تو نہ صرف تنقید بلکہ تضحیک کا بھی نشانہ بنی بہت گہرے گھاؤ کئی نامور انسانی حقوق ، صنفی مساوات اور فیمنسٹ چیمپئنز کی طرف سے بھی کھائے۔ لیکن اپنی نا قدری اور دربدری کے باوجود اپنی سوچ کا سفر جاری رکھا۔

لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں

ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

میرا ایمان ہے کہ خود مختار عورت وہ ہوتی ہے جو نا تو ماتحتی (چاہے وہ ڈونرز فنڈز کی شکل میں ہو یا باپ ،بھائی ، محبوب یا شوہر کے سٹیٹس کے روپ میں ) کے مزے لے نا ہی مقبولیت کے لیے اپنی اقدار کو کوڑے دان میں پھینک دے اور منافقت کا لبادہ کسی بھی مقصدیت کے تحت اوڑھ لے۔ خالص خودمختاری بہت قربانی مانگتی ہے اور بہت مہنگی ہے۔ تکلف بر طرف بااختیار عورت کیا بااختیار مرد بھی ہونا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، لہٰذا مجھے زیادہ تر وہ عورتیں بھی مکمل یا حقیقی طور پر آزاد اور بااختیار نہیں لگیں جن کی مثال ایک زمانہ دیتا ہے۔

میری ذاتی فہرست میں ان میں آنگ سان سوچی، ہیلری کلینٹن ، ملالہ یوسفزئی اور مرحومہ پروین شاکر جیسی شخصیات بھی شامل ہیں، جس کا تعلق ان کی ذہانت اور فراست سے ہرگز نہیں ہے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو مجھے بارڈر لائن ایمپورڈ لگیں، شائد کسی حد تک ایمپوویرمنٹ کا رشتہ تدبیر کے علاوہ تقدیر سے بھی ہوتا ہے اور بہت آسائشیں ، نعمتیں ، ذہانتیں اور محبتیں بھی گرہن لگنے سے نہیں بچا سکتیں۔ کیا ان سب شہرہ آفاق خواتین کے پاس قوّت کی باگ ڈور بھی تھی ؟ کیا وہ ہر فارم پر طاقتور مردوں اور رشتوں کی زنجیروں کے اثر سے بے نیاز تھیں ؟ کیا وہ ہر کڑوی اور کریہہ روایت کو رد کرسکی تھیں ؟ میرے حساب سے نہیں۔ اپنے اپنے میدان کی ملکہ بھی اگر پوری طرح خود مختار نہیں رہی ، جب بات ہو اپنے ذہن اور اپنے ضمیر کے حوالے سے فیصلوں کی تو یہ اندازہ لگانا کوئی خاص مشکل نہیں کہ عام عورتیں اور طبقہ اشرافیہ سے وابستہ کئی عورتیں بھی کن کن مصلحتوں کا شکار رہتی ہوں گی؟ ان کی زندگیوں میں حکمت ، غیرت ، عزت ، مشیت جیسی لَفّاظی سے کس کس طرح کے سمجھوتے ہوں گے ؟

پاکستان کے مخصوص حالات ، رسومات اور طبقات کے امتیاز کے منظر نامے میں کچھ خواتین جو صحیح معنوں میں بااختیار فیمنسٹ ہیں، ان میں نئی نسل کی صحافی بشریٰ اقبال حسین ، لیجنڈری شخصیات محترمہ فاطمه جناح ، زاہدہ حنا، کشور ناہید اور بشریٰ بشیر / انصاری ، شہناز بخاری، مرحومہ عاصمہ جہانگیر اور نجمہ صادق ہیں ۔ یہ نا تو کوئی حتمی لسٹ ہے نا فیصلہ۔ زندگی نے جو فہم مجھے خلق خدا سے ملنے اور لاتعداد سیکٹرز میں کام کرنے کا موقع ملنے کی وجہہ سے فمنسم کے حوالے سے بخشی ہے اور ہے ان کو جمع جوڑ کر کچھ تاثرات نقش ہیں، جو میں نے اپنے قارِئین کے لئیے یہاں لکھ دئیے۔

بات گنجلک لگ رہی ہوگی اور ایسا ہی ہے۔ عوتوں کی ایمپوورمنٹ نا تو کوئی انسٹینٹ کافی کا ساشے ہے اور نا ہی بنے بِنائے تیار شدہ ریڈی ٹو کک کھانے کا پیکٹ ۔ یہ ایک اعتراف ہے ذاتی سطح پر ، سماجی سیاسی اور قانونی سطح پر کہ عورت بھی ایک انسان ہے ۔ برابر کی انسان، جس کو اپنی زندگی کو اپنی نظر سے دیکھنے کی ” اجازت ” نہیں بلکہ یہ اس کا حق ہے ۔ یہ خودمختاری ایک ادراک ہے، ایک شعور ہے، آگاہی ہے، اختیار اور آزادی کے ساتھی، سنگی اور سجن احتساب ، ذمہ داری اور انکساری ہوتے ہیں۔ نصیب ، نسب اور نصاب کی بدولت طاقتور عہدوں پر فائز ہونے والی خواتین کو اس صف بندی کو ہر وقت یاد رکھنا چاہیے۔

اگر کسی بھی سبب، وہ اپنی دانائی ،اہلیت اور قابلیت کے باوجود ایسا کرنے میں کامیاب نا ہو سکیں یا یہ سبق یاد ہی نا کر سکیں یا بھول جائیں تو یقیناً یہ فرض فیمنسٹ ایکٹوسٹ اور صحافی خواتین کا ہے کہ وہ ان کو ان کی ڈیوٹی یاد دلائیں۔ افسوس صد افسوس کہ پی آر کو صحافت اور مزاحمت کے مترادف بنا دینے والی روش نے کئی روشن ذہنوں اور اچھی فمنسٹس کو خوشامدی بنادیا۔ میرا روئیے سخن صرف خواتین اس لیے ہیں کہ میں ڈرتی ہوں کہ کہیں مردوں کی برابری کی جدوجہد کو اندھا دھند تقلید کی ریس نا سمجھ لیا جائے۔ وڈیرہ شاہی ، جاگیر داری ، کلاسسسم ، برادری ازم ، قبیلہ پروری اور بیگماتی ماحول کو ہللہ شیری دیتی ہوئی، چند نادان عورتیں نادانیوں کی نئی داستانیں نا قلمبند کر بیٹھیں ، نتیجے میں خواتین بدتمیزی، بداخلاقی ، بیوقوفی اور بے مروتی میں مرد حضرات کو بھی پیچھے چھوڑ جانے میں کامیاب نا ہوجائیں۔

مردوں کی اس دنیا میں پدر سری کئی اور قسموں کی نا انصافیوں اور نا ہمواریوں کے ساتھ پوری تمکنت کے ساتھ براجمان ہے، ( یو این اور دیگر ادارے ان کے تدارک کے لیے محاز پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ محض نظر کا دھوکہ ہے )۔ اس جہاں میں ہمیں جنگجو، افسرانہ ، شاہانہ مزاج کی پدر سری رویوں کو بڑھاوا دیتی ہوئی تحریک نسواں یا نسائی تسلط کی نہیں بلکہ ہمدلی سے مزین قیادت کی ضرورت ہے۔ جن پر مفاد پرست ٹولے کا غلبہ نا ہو سکے ۔ یہ ناگزیر ہے اگر کروڑوں مظلوم ، محکوم اور محروم خواتین کے بخت کو سنوارنا ہے۔ یہی فیمنسٹ تبدیلی ہے۔

بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے

جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے