سوات میں خواتین کا پہلا جرگہ منعقد کرنے والی باہمت خاتون رہنما تبسم عدنان کی کہانی

"سوات میں خواتین کے لیے جرگے کا قیام آسان کام نہ تھا، شروع شروع میں بہت تنقید کا سامنا کیا, یہاں تک کہ فتویٰ بھی لگایا گیا لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری”

یہ کہنا ہے سوات سے تعلق رکھنے والی سماجی ورکر تبسم عدنان کا جو پہلی خواتین جرگے د خویندو جرگہ کی چیئرپرسن ہیں۔ تبسم عدنان نے بتایا کہ انہوں نے ۲۰۱۰ سے ہی خواتین کے حقوق کے لیے کام شروع کردیا تھا لیکن جرگے کا باقاعدہ قیام ۲۰۱۳ میں عمل میں لایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جب ان کو لگا کہ خواتین کے مسائل حل کرنے میں کوئی سنجیدہ نہیں ہے تو انہوں نے خواتین کے لیے الگ جرگے کے قیام کا فیصلہ کیا۔ تبسم عدنان کہتی ہیں کہ شروع میں لوگوں نے ان کا مذاق اڑانا شروع کردیا کہ اب خواتین مسائل حل کریں گی لیکن انہوں نے ٹھان لی تھی کہ خواتین کے چھوٹے چھوٹے گھریلو مسائل اب وہ خود حل کریں گی۔

دھمکیاں دی جانے لگی کہ باہر مت نکلو

تبسم عدنان کہتی ہیں کہ جب انہوں نے خواتین کے مسائل حل کرنا شروع کردیئے تو لاہور کے جامعہ اشرفیہ نے ان پر فتویٰ بھی لگادیا۔ یہی نہیں ان کو دھمکیاں ملنے لگیں۔کبھی ان کو کال کے ذریعے دھمکایا جاتا تو کبھی لیٹر پھینک دیا جاتا۔ ان کو کہا جاتا کہ اگر وہ یا ان کے بچے باہر نکلے تو ان کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔

تبسم عدنان کو کہا جانے لگا کہ انہوں نے خواتین کو کیوں باہر نکالا ہے، جس پر تبسم عدنان ان کو کہتی کہ خواتین تو ویسے بھی خوشی یا غم کے موقع پر دوسروں کے گھر جاتی ہیں، اگر ان کے گھر آتی ہیں تو اس میں کیا حرج ہے لیکن علاقے میں کوئی بھی ان کے خواتین جرگے کو ماننے کو تیار نہیں تھا۔

سوات میں سورہ ، کم عمری کی شادی، تیزاب گردی جیسے سنگین مسائل کے خلاف تبسم عدنان نے بھرپور آواز اٹھائی۔

سوات میں خواتین کو درپیش مسائل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہاں سورہ اور کم عمری کی شادی بہت بڑا مسئلہ تھا اور اس حوالے سے انہوں نے کافی کام کیا۔ اب علاقے میں یہ مسئلہ کافی حد تک ختم ہوچکا ہے جبکہ خیبرپختونخوا کی پچھلی حکومت نے بھی کم عمری کی شادی کا بل اسمبلی سے منظور کرلیا ہے۔

تبسم عدنان نے بتایا کہ سوات کے کچھ علاقوں میں جب کوئی خاتون سسرال والوں کو اچھی نہیں لگتی تو وہ سزا کے طورپر اس پر بدچلنی کا الزام لگا دیتے ہیں اور اس کا ناک یا کان کاٹ دیتے ہیں۔ ان کے پاس دو ایسی خواتین آئی تھیں جن میں سے ایک کے کان اور دوسری کا ناک کاٹ دیا گیا تھا، انہوں نے ان دونوں خواتین کا علاج کروایا جو اب بالکل صحت مند ہو چکی ہیں۔

تبسم عدنان نے کہا کہ انہوں نے سوات میں تیزاب گردی کا شکار ہونے والی خواتین، طوائف اور خواجہ سراوؐں کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھائی ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب سوات سے خواجہ سراؤں کو بے دخل کیا جارہا تھا تو انہوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور کہا کہ ان کو یہاں رہنے دیا جائے البتہ ان طوائفوں اور خواجہ سراؤں کے لیے شہر سے باہر بالاخانے بنائے جائیں جہاں وہ آرام سے زندگی گزار سکیں۔

خواتین جرگے کی سربراہ نے کہا کہ سوات میں دہشت گردی، زلزلوں اور سیلاب کی وجہ سے کئی خاندان اجڑگئے۔ کسی کا شوہر مرگیا تو کسی کی بیوی دنیا سے چلی گئی۔ ایسے میں کئی نوجوان بچے اور بچیاں بھی متاثر ہوئیں کیونکہ اکیلی ماں اور اکیلے باپ کے لیے جوان بچیوں کی پروش کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ ایسے میں وہ جلدی ان کی شادی کروانے کا سوچتے ہیں اور انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، جس سے ان کی بچیوں کی زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔

ہم عصمت فروشی کا شکار خواتین اور خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے بھی بات کرتے ہیں کہ ان میں ایڈز پھیل چکا ہے لہذا ان کے لیے ٹیسٹ کا بندوبست کیا جائے کیونکہ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو اس سے سوات میں ایڈز پھیلنے کا خطرہ ہے۔

ایک لڑکی نے بتایا کہ اس کا خاوند نامرد ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت گزرنے کے ساتھ علاقے کے مرد بھی سمجھ گئے ہیں کہ خواتین کا جرگہ خواتین کے مسائل بہتر طریقے سے حل کرسکتا ہے کیونکہ وہ اپنے مسائل مردوں کو اس طرح سے نہیں بتا سکتیں، جس طرح وہ خواتین کو بتا سکتی ہیں۔ ایک دفعہ میرے پاس ایک لڑکی آئی تھی جو مسلسل یہی کہہ رہی تھی کہ اس کو شوہر کے ساتھ نہیں رہنا میں نے اس سے پوچھا یہ تمہاری ضروریات پوری کرتا ہے۔ کہنے لگی جی کرتا ہے، کپڑے روٹی سب کچھ دیتا ہے۔ اس لڑکی نے ایک کاغذ پر مجھے لکھ کے دیا کہ میرا خاوند نامرد ہے، جس کے ساتھ زندگی نہیں گزاری جاسکتی حالانکہ وہ اس کی باقی تمام ضروریات پوری کرتا تھا۔ اس کے بعد اس لڑکی کے والدین نے اس کو شوہر کے ساتھ جانے نہیں دیا۔

تبسم عدنان بتاتی ہیں کہ انہوں نے مذہبی اقلیتیوں کے لیے بھی کام کیا ہے۔ سوات میں سکھوں کا الگ قبرستان بنانے کے لیے انہوں نے کافی جدوجہد کی۔ چرچ بنانے کے لیے بھی آواز اٹھائی، اب چرچ کے لیے زمین الاٹ کردی گئی ہے۔

کامیابی اور ایوارڈز

تبسم عدنان نے کہا کہ وہ اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب ہوگئی ہیں کیونکہ اب جرگے کی ممبر خواتین باقی خواتین کے مسائل حل کررہی ہیں، خواتین اپنے حق کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں اور ووٹ بھی ڈالتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خویندو جرگہ اپنی کوششیں جاری رکھے گا اور خواتین کو بہت آگے لے کر جائیں گی۔

یاد رہے تسبم عدنان اب تک کئی ایک انٹرنیشنل ایوارڈ بھی اپنے نام کرچکی ہیں، جن میں پاکستان کا صدارتی ایوارڈ، ہیومن رائٹس ڈیفنڈر، انٹرنیشنل وومن آف کریج اور نیلسن منڈیلا ایوارڈز شامل ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے