دھوکے کا احساس اور عوام

ایسا کوئی دن نہیں گذرتا ہمارے پاکستان میں کہ ہمیں سنسنی خیز خبروں کی بازگشت نہ سنائی دے، شاید بحیثیت قوم ہمیں اچھی بری خبروں کی عادت ہوچکی تھی اور اگر ہم اور ہمارا گھر بخیریت تھا تو دوسرے کے گھر میں آگ بھی لگ جائے تو وہ خبر چند لمحوں سے مزید ہمارے دماغ میں ٹک نہیں پاتی تھی۔

کیا اب سب کچھ تبدیل ہوگیا ہے؟ کیا اب ہمیں دوسروں کی تکلیف اپنی تکلیف محسوس ہونے لگی ہے؟ شاید ہاں اور نہ بھی۔ ہاں اسلیئے کہ عوام میں یہ احساس بیدار ہونا شروع ہوگیا ہے، مثال کے طور پہ حال ہی میں بلوچ پاکستانی مرد، عورت اور بچوں کا اپنے گمشدہ پیاروں کی بازیابی کیلئے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو پورے پاکستان میں انکے لئے ہمدردی کے نمایاں جذبات دیکھے گئے کیونکہ گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران خصوصی طور پہ پنجاب میں رونما ہونے والے پولیس گردی کے واقعات نے سب کو ہلا کر رکھ دیا کہ اپنوں کی گمشدگی، عورتوں کی حرمت اور بزرگوں کے عزت پامال ہو تو کتنی شدت سے اذیت محسوس ہوتی ہے لیکن حکومت وقت یہ سب کچھ کسی اور زاویے سے دیکھتی ہے۔

حکومت سمجھتی ہے کہ یہ مسنگ پرسنز وہ ہیں جو سنگین جرائم میں مطلوب ہو سکتے ہیں اور کسی شر پسند گروہ کیساتھ مل کر ملک دشمنی میں ملوث بھی ہوسکتے ہیں۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس طرح کی کوئی بات ہے بھی تو اس مبینہ گنہگار کو سامنے لایا جائے اور اس پہ کھلی عدالت میں قانون کی مطابق مقدمہ چلایا جائے یوں اگر وہ شخص کسی ملک دشمنی میں ملوث ہے تو وہ معلومات بھی انکے خاندان اور قوم کے سامنے رکھنی چاہئے۔

جی نہیں میرا موضوع بلوچ دھرنا نہیں ہے بلکہ میں آپکی توجہ اس بات کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ پنجاب میں جو کاروائیاں ایک سیاسی پارٹی کے رہنماؤں، ورکرز، سپورٹرز اور انکے اہل خانہ کیساتھ ہوئی ہیں اس کے بعد پنجاب کو پہلی بار دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کے درد کا احساس ہوا ہے۔ ہمیشہ کہا جاتا تھا کہ انتخابات کے رخ کا فیصلہ لاہور کرتا ہے جو جماعت لاہور جیت جائے تو وہ پنجاب با آسانی جیت لیتی ہے اور پنجاب جیت لے تو وفاق میں حکومت بنانا آسان ہوجاتا ہے۔

۷۰ ،۸۰ کی دہائی اور کچھ حد تک ۹۰ کی دہائی کی اولین چند سال لاہور پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا پھر نون لیگ کا گڑھ بنا اور حالیہ انتخابات میں بلاشک و شبہ نون لیگ سے لاہور چھن چکا ہے اور تحریک انصاف کی جھولی میں آگیا ہے، سرکاری نتائج تو ضرور مختلف تصویر دکھا رہے ہیں لیکن ٹی وی پہ بتائے نتائج یکسر ۹ فروری کی صبح تبدیل ہوچکے تھے۔

تو اب ہم بات کو لے آتے ہیں، اس انسانی فطری جذبے کی طرف جس کو ہم “احساس” کہتے ہیں، اگر محبت کا احساس ہوجائے تو وہ مٹ نہیں پاتی، درد کا احساس ہوتا ہی تب ہے جب وہ آپکو کسی حادثے یا سانحے کی صورت میں ملتا ہے پھر آپکو ہر کسی کے درد کا احساس بھرپور انداز میں محسوس ہوتا ہے۔

لیکن ایک احساس ایسا ہے، جس کا زخم بہت گہرا یا شاید ناسور بن جاتا ہے اور وہ ہے دھوکے کا احساس! جی ہاں اس وقت پاکستانیوں کی اکثریت جنہوں نے بڑے جذبے کیساتھ تمام تر نامسائب اور مشکل حالات کے باوجود ۸ فروری کو اپنا ووٹ ڈالا، ان میں سے کثیر اکثریت یہ یقین رکھتی ہے کہ انکا ووٹ تبدیل کر کے بلکہ چوری کر کے کسی اور کو دے دیا گیا اور وہ سمجھتے ہیں کہ انکے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، وہ اس دھوکے کا ذمہ دار الیکشن کمیشن، نگران حکومت اور فیصلہ سازوں کو سمجھتے ہیں۔

یہ بات میں اسلیئے کر رہا ہوں کہ تحریک انصاف کے پاس فارم ۴۵ موجود ہے، جو وہ برملا ہر جگہ دکھا رہے ہیں اور تو اور انکے مخالفین جن کا تعلق جماعت اسلامی یا کچھ ایسے آزاد امیدوار جیسے کہ مصطفیٰ نواز کھوکھر تھے، وہ بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ انکے پاس بھی وہی فارم ۴۵ ہے، جو تحریک انصاف کے امیدوار کے پاس ہے، جس میں وہ واضح اکثریت سے جیتا ہوا ہے۔

کمشنر روالپنڈی کی بھی مثال سامنے ہے حالانکہ اب انکا سافٹ وئیر اپڈیٹ ہوچکا اور وہ اپنی پریس کانفرنس والے بیان سے یُو ٹرن لے چکے ہیں اور تو اور مولانا فضل رحمان بھی دھاندلی کی شکایت کر بیٹھے ہیں لیکن کیا کبھی اس طرح ماضی میں فارم ۴۵، مخالف امیدوار اور متعلقہ حکام الیکشن کمیشن کی طرف سے دھاندلی اور شکست کا کھلا اعتراف کیا گیا تھا؟ ہر گز نہیں۔

قوم کو اس احساس سے نکالنا ہوگا کہ انکے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، یہ بہت خطرناک احساس ہوتا ہے، خاص طور پہ ہمارے جیسے جذباتی معاشرے میں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے