پاکستان کی قومی اسمبلی : سولہ برس کی

انتیس فروری 2024 کو 76 سالہ اوریجنل پاکستان اور 53 سالہ ٹوٹے ہوئے پاکستان میں سولہویں قومی اسسمبلی کے ارکان حلف لیں گے۔ یہ وہی حلف ہے جو بقلم ضیاء دور کے معروف مزاحمتی شاعر محترم حسن عبّاس رضا "نیوز چینلز اکثر کچھ الفاظ غلط تلفظ سے بولتے ہیں۔ مثلا ایک لفظ ہے، حلَف جبکہ اکثر چینل حلف بولتے ہیں جو کہ غلط ہے ۔ ”

رضا صاحب نے باغیانہ افکار سے آراستہ خطرناک شاعری کے علاوہ معصوم قسم کی بھی شاعری کی ہے۔ کیسٹ کوئین کہلانے والی مُنّی بیگم نے لہک لہک کر ہارمونیم بجاتے ہوئے پی ٹی وی پر ان کا ایک کلام اس طرح گایا تھا کہ اس نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئیے تھے۔

آپ نے بھی سنا تو ہوگا کہ :

آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہئیے
لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہئیے
مجھ سے بچھڑ کر اِن دنوں کس رنگ میں ہے وہ
یہ دیکھنے رقیب کے گھر جانا چاہئیے
اُس بت سے عشق کیجئیے لیکن کچھ اِس طرح
پوچھے کوئی تو صاف مکر جانا چاہئیے

تلفظ ، اشعار اور گائیکی کی دنیاؤں کے علاوہ بھی بہت سی زمینی حقیقتیں ہیں جیسے کہ انتخابات ، اقتدار (جس میں دار بھی ہے ) اور اسمبلی ۔ اس دار فانی میں دیگر اشیاء کی طرح پاکستان جیسے جمہوری ملک میں جمہوریت سی جڑی اجناس اور ادارے بھی لافانی نہیں۔ اگلا لیپ کا سن 2028 کو ہوگا، تب تک اسمبلی کا پتا نہیں کہ رہے گی یا نہیں۔ ناموزوں یا حسب ضرورت مختلف طرح کے منتخب ، نہ منتخب اور نو منتخب ارکان تزک و احتشام کے ساتھ عوام کی خدمات کے لئیے آ گئے ہیں۔ ان میں سے اکثر وہ ہوتے ہیں، جنہوں نے بقول برطانوی مفکر، فلسفی، ماہر ریاضیات، ماہر طبیعیات، مدرس، محقق، مؤرخ، افسانہ نگار،ادیب جناب برٹرینڈ رسل اپنے والدین عقلمندی سے منتحب کئیے تھے۔

اب جنیاتی لاٹری میں ہم اور آپ کون ہیں۔ جو اعتراض اٹھائیں اور اگر یہ کریں گے تو لازم ہے کہ اٹھا لئے جائیں۔ دروغ بر گردن راوی، جو بچا ہوا ہے، وہ بکا ہوا ہے۔ ایک عام خیال یہ بھی ہے ۔ یہ بھی دروغ بر گردن راوی ہے ۔ اسیری اور ایلیٹِسم کا بھی گہرا تعلق ہے ۔ معتوب سیاسی پارٹیز کے اکثر ورکرز ، پارلیمان اور سینیٹرز آزادانہ طور پر نظر آتے ہیں۔ اپنے جدا گانہ انداز میں، مجال ہے کوئی ان کی طرف اشارہ بھی کرنے کی جرات کر سکے۔ ایسے بھی ہیں جو لوٹا /لوٹی بھی ہوں تو منصب دلبری پر پھر بھی فائز رہتے ہیں۔ خواتین پر سیاست میں بھی زیادہ لے دے ہوتی ہے۔ اس میں بھی عام تصور یہ ہے کہ خاتون کا "عام ” ہونا قابل گرفت ہے۔ قابل تقلید تو نا درست طریقوں سے ترقی کے زینے چڑھنے والوں اور والیوں میں شازو نادر ہی کوئی ہو۔ پھر بھی جب مرد حضرات کو بیل آوؐٹ کر دیا جائے کہ ان کی کوئی فضیلت ہے اور عورت کو اخلاقی کوئلوں کی آگ پرسینکا جائے تو مجھے دکھ ہوتا ہے ۔ مصو جینی کے لئے میرا زیرو ٹالرنس ہے۔

ا لمیہ یہ بھی ہے کہ ایسا کرنے والے اکثر اوقات کمینے نہیں بلکہ نگینے جیسے لوگ ہوتے ہیں۔ زندگی کی بھول چوک،کو میں کبھی نہ سمجھ سکی، کھل کر بات نہ ہوسکے اور قلم ضمیر کی عدالت میں سرخرو نہ ہوسکے تو کیا کرنا چاہیئے ؟

میرے پاس کوئی اچھا جواب نہیں ہے ۔ قومی اسمبلی کے سولہویں سال پر بہت کچھ لکھنا چاہ رہی تھی۔ لیکن خیر خواہ نے کھل کر بتایا کہ میں ایک مشکل عورت ہوں اور سیاپا ڈالتی ہوں اور بلکل یاد نہیں رکھتی باوجود ڈینوسار ہونے کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں ؟

سوچا سولہویں برس کو ڈسکس کروں اسمبلی کو اڈولے سنٹ کی طرح جان کر، پھر ماضی کی مشکلات یاد کرکے اور بے جرم جو سزائیں کاٹی ہیں اور جو عذاب ابھی تک سه رہی ہوں، ان کو یاد کرکے خوف طاری ہو گیا۔ میں بیک وقت بزدل اور بہادر ہوں۔ سائنس پر مبنی پبیرٹی کی تبدیلی کی باتیں کہیں مجھ کو فحش نگار عورت بھی نہ بنا دیں، گناہ گار اور نا شکر گزار تو پہلی ہی ہوں ۔ پھر بھی اتنا لکھے بغیر نہیں رہ سکوں گی کہ مجھ کو 16 کے ہندسے سے اور تاریخ سے خوف آتا ہے، وجہ آپ خود بھانپ لیں۔۔۔۔

الله پاکستان کا حامی و ناصر ہو ۔ آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے