کیا ریاست جموں و کشمیر کا وجود ہندوستان یا پاکستان کی وجہ سے قائم ہے؟

میرا تعلق اس خطہ ارض سے ہے، جسے رب کائنات نے قدرتی حسن، نعمتوں اور خوبصورتی سے نوازا۔ جسے جنت بے نظیر ریاست جموں کشمیر کہا جاتا ہے۔ مگر بد قسمتی تو دیکھیں 110 ملکوں سے بڑی ریاست، جس کا وجود تب تھا۔ جب انڈیا اورپاکستان اور کئی ممالک کا وجود تک نہ تھا۔ تاریک لمحوں قریبی اپنوں کے دھوکہ سے یہ خطہ غلامی کی گہری گھائی میں جا پہنچا۔ جب بھی اٹھننے کی کوشش کی دبا دیا جاتا۔ بلکہ کچل دیا جاتا۔

دنیا کی ہر طرح کی نعمتوں سے مالامال یہ ریاست، جس کے پاس ہر وہ چیز موجود ہے جو اسے پروقار طرح سے سر اٹھا کر اس دنیا کے باقی ممالک کے ساتھ کھڑا رکھ سکے۔ ظلم کی انتہا دو ملکوں نے اسے اپنی جاگیر سمجھ کے دو ٹکرے کر کے بھائی کو بھائی سے جدا کرکے کھنچا تانی میں مصروف ہوئے ۔محکوم بنانے تک ہی نہیں رکے بلکہ اس قوم کو یہ باور کروانے میں بھی کامیاب ہوئے کہ انڈیا اور پاکستان کے بغیر سرواویل ہی نہیں اور وجود ان کی وجہ سے ہے۔ اس کے ذرائع و وسائل ظالموں ،غاصبوں اور مراعات یافتہ طبقات نے خود اپنے ہاتھوں میں لے کر اس قوم کو بنیادی ضرورتوں میں الجھا دیا بلکہ محروم کر دیا کہنا غلط نہ ہو گا۔ تا کہ کبھی یہ سر نا اٹھا سکیں۔ پڑھا لکھا طبقہ روذگار کی تلاش میں پردیس روزگار کی تلاش میں در بدر ہو رہے یا پھر یوتھ کو سوچے سمجھےمنصوبے کے تحت نشے کا عادی بنایا جا رہا ہے ۔

کہاوت ہے کہ جب کسی قوم کو محکوم بنانا ہو تو ان سے ان کی زبان اور تاریخ و کلچر چھین لیا جائے اور یہ ہی کشمیریوں کے ساتھ کیا گیا۔ نئی نسل پڑی لکھی مطالعہ پاکستان اور بھارت کی ہر تاریخ و ادوار سے واقف مگر خود کی 5,500 سال تاریخ سے نا واقف، انڈیا و پاکستان کے بڑے عہدہ پہ بھی دکھائی دیں گے مگراپنی سر زمین کے حقائق سے لا علم۔

ایسابھی نہیں کہ پوری قوم نے محکومیت کو مقدر مان کے سوتی رہ گی۔ اس دھرتی کے لخت جگروں نے ہر دور میں حق آزادی کےلیے اٹھے۔ پر آواز کچل دی جاتی یا دبا دی جاتی۔ مقبول بٹ کی شہادت کے بعد اٹھنے والی آزادی کی تحریک ایسی زور پکٹری کے پھر دم نہ توڑ سکی۔ اس تحریک نے کام بھی کیا۔ self awareness

اسں دوران جموں کشمیرکے دونوں اطراف سے ،دو قسم کے طبقے سامنے آئے۔ ایک وہ جو اپنے آقاوؐں کے مفادات کے لیے خود کے پاوؐں میں کلھاڑی مار رہے تھے اور قوم کو غلامی کی تاریکی میں دھکیل رہے تھے اور دوسرے وہ جانشین وطن جنہوں نے جان و مال کی پروا کیے بغیراپنے مادر وطن کی وحدت بحال کرنے اور اپنے قومی تشخص اور جموں و کشمیر کی مکمل آذادی و خودمختاری کے بعد دنیا کی باعزت اقوام کی صف میں شامل کرنے کےلیے جدوجہد میں مصروف ہیں،یا اس کے لیے جان کی بازی لگا چکے۔

سلام ہے مقبول بٹ شہید، حمید شیخ شہید،اشفاق مجید وانی شھید جمیل چوھدری شھید اوران ہی جیسے سب انگت بہادروں کو جنھوں نے اس مشکل راستے کو چنا۔ اپنی جان مال قربان کر کے کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا اور آنے والی نسل کے لیے مشعل راہ بنے ۔ یہ ہی وہ راہ حق ہے جسکی منزل آزادی ہے۔ جس کی خاطر مقبوضہ کشمیر کے لوگوں نے بے انتہا قربانی دی اور دے رہے ہیں۔ یاسین ملک جیسے کئی بےشمار وطن کے لال قید پابند ہوئے۔ اور آج ریاست جموں کشمیر کا دوسرا حصہ پاکستانی کنٹرول آزاد کشمیر اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج ہے۔ سول نا فرمانی کی کامیاب تحریک کئی مہینوں سے چل رہی ہے۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کشمیر کے so called آزاد خطہ کی غلط فہمی دور ہوئی کہ وہ آذاد ہے اور آباد ہے۔اب ہر کونے سے چاہے وہ گلگت ہو یا لداخ ,آذاد کشمیر یا کشمیر ہو یا پھر جموں و پونچھ ہو ، لوگ اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتے نظر آئیں گے۔تھوڑا وقت لگا مگر اپنے حق کے لیے کھڑے ہوئے ۔

آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں، ایسا کیا ہے جو دو ممالک ریاست جموں کشمیر کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ہم نے اکثر یہ سنا کہ انڈیا اور پاکستان کشمیریوں کو نہیں کشمیر کی زمین چاہتے ہیں۔ یہ بہت بڑی تلخ مگر حقیقت ہے۔ اس کی پہلی بڑی وجہ اس کی سرحدیں 5 ممالک چین،انڈیا، پاکستان،افغانستان،اور تاجکستان ہیں۔ پھر کشمیر ایک ذرعی ریاست ہونا بھی ہے۔ اسی فیصدلوگ زراعت سے وابستہ ہیں۔ چاول دالوں سے لےکر پھل پھول اور ڈرائی فروٹ تک پائے جاتے ہیں۔ جنگلات ،پانی کی دولت سے مالامال، ریشم silk اور شال بافی،پیپر ماشی قالین بافی ، نمدہ سازی اور لکٹر پر کشیدہ سازی کی صنعتیں قدیم دور سے ہیں۔ادویات میں استعمال ہونے والی بہترین جڑی بوٹی کا خزانہ اس دھرتی کی مٹی تلے دبا ہواہے۔

معدنی دولت سے بھی رب نے خوب نوازا ہے۔ خوبصورت بلند و بالا پہاڑ بہت سے خزانوں کو سموے ہوئے ہیں۔ جن سے کشمیری قوم یا تو بے خبر ہے یا پھر اختیار اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے خاموش تماشائی۔خودکو اندھیرے میں رکھ دوسروں کے دیئے جلا رہے ہیں۔ معدنیات کی طرف نظر ڈالیں تو، معدنیات میں نمائیاں کوئلہcoal،لوہاiron،گریفائیٹ graphite،سنگ مرمر marble،چونے کا پتھر lime stone ،جپسم Gypsum ،پئیرائٹ pyrite،سوپ سٹون soapstone،فلسپار feldspar، بکسائٹ Bauxite ،fullers Earth ۔اور بے انتہا جن کا شاید ہمیں علم ہی نہیں ۔ ماہرین جوہرات کے مطابق دنیا کا%80 زخیرہ جموں کشمیر کے پاکستانی کنٹرول حصہ ،آذاد کشمیر ،گلگت ھنزا اور سکردو میں پایا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ زمرد Emerald ،Aquamarine,نیلم Sapphire، تانبا copper ، سونا چاندی اور دنیا کا بہترین یاقوتRuby،سے بھی ریاست جموں کشمیر ملا مال ہے۔ نا صرف یہ بلکہ ایسی تابکار معدنیات یورینیم ، ریڈیم، تھوریم جیسی قیمتی خزانہ بھی discovered ہوا ہے۔ جن سے ایٹمی توانائ حاصل کی جاتی ہیں اور ہو سکتا ہے ہو رہی ہوں ۔لمحہ فکریہ ہے کہ وہاں کے رہنے والے اس کے مالکوں کو انکے قیمتی ذخائر سے انجان رکھا جا رہا ہے۔

K2 دنیا دوسرا سب سے بڑا پہاڑ جو ریاست جموں کشمیر کے north حصہ میں ہے۔ وہاں آمدنی کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ہر سال دنیا بھر سے mountain climbers آتے ہیں ۔ جن کو پرمٹ اور(peak)پیک پر جانے کے لیے ایک بندے کوRS13,434,500 دینا پڑھتا ہے اور ہر سال لا تعداد میں ٹورسٹ آتے ہیں۔ نہ صرف k2 اس جیسے اور بہت خوبصورت وادیاں خوشک سے لے کر سروسبز پہاڑوں کے سلسلے قدرتی خوبصورتی اور لوگوں کے اخلاص، اخلاق اور محبتیں سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہر ادوار رہا۔ اس ریاست کے tourism کا ایک بہت اہم رول رہا ہے ۔ مگر وہاں کے لوگوں کے حالات اس کی گواہی دے رہے ہیں کہ اس جنت پہ غیر کا قبضہ ہے۔

اس کی علاوہ ریاست میں جھلیں ،ندی ،نالے، ابشار، دریا، گلیشیر کا پانی کے قدرتی زراع ہیں ۔ ریاست کشمیر میں پانی سے بے شمار مقامات میں بجلی پیدا کی جا رہی ہے اور ستم ضریفی یہ کے جہاں سے لی جا رہی ہے وہاں کے لوگ بجلی کے extra ٹیکس تو ادا کر رہے ہیں مگر بجلی کی سہولت سے یا تو مرحوم یا لوڈ شڈئنگ کا شکار ۔

معدنیات سے بے خبر، جنگلات سے لکڑیاں درخت کہاں جا رہے ہیں بے خبر ۔ اگنے والی سبزی سے لیکر لکڑ پتھر ،جوہرات سب سے پہلے باہر جاتا ہے۔ اس پر ٹیکس لگا کر اس دھرتی کے لوگوں بیچا جاتا ہے۔ اگر زیادتی وستم حق تلفی کی داستان لکھنے کو آئیں تو شائد صفات کے صفات بھر جائیں۔ بات بہت ہی سادا اور صاف ہے اور قصہ مختصر یہ ہے کہ ریاست جموں کشمیر کسی بھی لحاظ سے کسی دوسرے ملک کا محتاج نہیں ہر نعمت سے مالامال ہے۔ آزاد و خودمختار رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بلکہ اس بات کی قابلیت رکھتی ہے کہ آذادی کے بعد ہمسائیوں کا بھی خیال رکھ سکیں۔اور آج غلامی کی کسم پرسی کی حالت میں بھی کشمیری کسی کے محتاج نہیں، کھا نہیں کھلا رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے