آٹھ مارچ اور آٹھ آٹھ آنسو روتی ہوئی خواتین

عام طور پر رائج ادراک احساس بلکہ استدلال یہ ہے کہ پدرسری کا مفہوم پدرانہ اور مردانہ حاکمیت ہے۔ درحقیقت پدرسری صرف بیشتر مردوں ہی کی خاصیت نہیں بلکہ یہ خَنّاس بہت سی عورتوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ جارہانہ اور نا منصفانہ روئیے کئی محترم اورمُتَنازَعَہ زنانہ رشتوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ساس ،بہو ،سوکن اور سوتیلی ماں۔ عورت بھی ایک دوسری عورت کے لئے قہر اور زہر بنتی ہے، گھر میں بھی اور دفتر میں بھی – عورت عورت کی دوست بھی ہے اور دشمن بھی، یہی انسانی فطرت ہے۔

ایک ہی عورت میں بہت سی متضاد خصوصیات بیک وقت بھی ہو سکتی ہیں بالکل مردوں کی طرح۔

ڈپٹی نذیر احمد ناول کے مراة العروس کی اکبری اور اصغری جو بل ترتیب مطلق بری اور اچھی عورت ہیں۔حقیقی زندگی میں شائد ہی پائی جاتی ہوں۔ پیاری اور پارسا کون ہے ؟ شائستہ اور مہذب کون ہے ؟ بد صورت اور بدچلن کون ہے ؟ معاشرتی میعار ایسے بھی ہیں جو بیمار ذہنیت کو عریاں کرتے ہیں۔ مرد حضرات کو پوری دنیا میں بہت سے امور میں چھوٹ حاصل ہے۔ پاکستانی تناظر میں ان کی تمباکو نوشی ایک رومانوی سٹائل ہے ، مغربی سوٹ زیب تن کرنا ان کے تعلیم یافتہ ہونے کی دلیل ہے اور چھپ کر معاشقے کرنا ان کا مردانہ حق۔

ذرا اندازہ کریں اگر آپ پروین شاکر کا کوئی پوسٹر سگریٹ سلگاتے ہوئے دیکھ لیں تو آپ میں سے اکثر حضرات کیا خواتین کے دل بھی ٹوٹیں گے کہ وہ بکھرے بال، نمناک آنکھوں کے ساتھ مشرقی لڑکی کی بے بسی کی اور ڈائجسٹ والے افسانوں کی ہاٹ ہاٹ ہٹ ہٹ جیسی شاعری کرتی ہی اکثریت کو بھاتی ہیں ۔ 70 کی دہائی میں فہمیدہ ریاض کی سگریٹ سلگاتے ہوئے تصویر ایک پاکستانی انگریزی جریدے پر تھی اور کہرام برپا ہوتے دیکھا، بچپن میں "بڑا” ہو کر ان کی ” گندی نظمیں ” پڑھنے کا بھی ارمان تھا، جو بچپن میں ہی پورا کیا اور "گند ” ڈھونڈنے سے اب تک قاصر ہوں۔

اچھی اور بری عورت کا پیمانہ بھی یکساں نہیں ہے۔ اس حوالے سے بے تحاشہ فیمنسٹ لٹریچر ، فلمز ، تھیٹر اور ٹی وی ڈرامے اور پروگرامز ملکی اور عالمی سطح پر موجود ہیں۔ خود میں نے بھی پاکستانی تناظر میں سن 1999 میں پرائیویٹ پروڈکشنز کے تحت ایک میگزین شو بطور سیریز کیا تھا، "جینڈر واچ” کے عنوان سے ، جس نے نا صرف 2001 میں پی ٹی وی ایوارڈ آف عکسی لینس جیتا بلکہ اس کے توسط سے لفظ "صنف ” عام صحافتی اور سماجی ترقیاتی انڈسٹری کی لغت میں آگیا۔ بعد ازاں اس سیریز کے کئی چربے بھی بنے، جن کو آج کل انسپرآشن بھی منوا کر داد اور فنڈز وصول کیے جاتے ہیں۔

بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ کام کرنے کے طریقے اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے احتجاج کے انداز بھی بدلے ۔ کہنے کو ہم زیادہ موڈرن اور روشن خیال بھی ہوگئے۔ لڑکیوں کی کرکٹ ، کبڈی ، کشتی ،وئٹ لفٹنگ ، ہاکی اور باکسنگ ٹیمز پاکستان میں بھی بن گئی۔ سول سروس میں فارن آفس اور پولیس میں بھی خواتین کی شمولیت کی پالیسی بن گئی۔ ایک وقت میں یہ سب کچھ شجرممنوعہ تھا اور ایسے خواب دیکھنے اور دکھانی والی ہم جیسی ایکٹوسٹس کو بری عورتیں ،گھر توڑنے والیاں ، غیر ملکی ملک دشمن ڈونرز کا ایجنڈا پوری کرنی والی ایجنٹس ” اور نجانے کیا کچھ کہا اورسمجھا گیا لیکن بات اتنی سادہ بھی نہیں، یہ بھی ایک اور حقیقت ہے کہ کئی دھوکے باز چیرا ٹیس اور این جی اوز بھی ہیں۔

مذاہب ،سیاست اور اخلاقیات کے نام نہاد ٹھیکے داروں اور ایکسپرٹس نے پوری دنیا بشمول پاکستان پسے ہوئے طبقات کو بہت نقصان دیا ہے۔ نقصان کا سودا—- وہ بھی عورتوں کے بااختیار ہونے کے نعرے کے ساتھ کرنے میں کئی پروگریسو ادارے اور آوازیں بھی کم نہیں۔ ان کی وجہ سے (جو صرف اپنا اور اپنے قریبی حلقوں کا مستقبل بناتے ہیں، دہری شہریت کے چکر میں رہتے ہیں، تگڑی تنخواہ لیتے ہیں اور زیادہ تر غیر ملکی دوروں پر رہتے ہیں) ان لوگوں کا امیج بھی تباہ ہو جاتا ہے، جو خلوص اور بِنا کسی درپردہ اجنڈے کے خواتین کی اقتصادی اور سماجی آزادی کے لئیے سلیقے سے کام کرنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔

سماجی میڈیا نے فوری کامیابی کی حرص کو بڑھا دیا ہے۔ رہی سہی کسر مخصوص امدادی اداروں ، ڈپلومیٹک کلب اور طاقتور فارمز کے قرب سے منسلک منافع نے پوری کردی ہے۔ نتائج سب کے سامنے ہیں۔ چند رسمی کاروایوں کی بدولت چند مخصوص نظریات کی مالک عورتوں اور بچیوں کی حالت تو سنور گئی لیکن حقیقت کیا ہے ؟ جب بات ہو ہر عمر، نسل ، رنگ ، طبقے ، قومیت اور علاقے کی خواتین کے مجموعی احوال کی ؟ اس سمے بمشکل کہیں پر امن ہے۔ علمی مکالمے اور با ضمیر انسانوں کی مزاحمت طاقت ور بے حس حکمرانوں کو ظلم کا بازار سجانے سے باز رکھنے میں نا کام ہیں۔

جنگ بذات خود ایک غیر انسانی فعل ہے لہٰذا اس میں اصول اور اقوام متحدہ کے قوائد کی پاسداری ڈھونڈنا یا جنگلوں کے قانون اور اشرف المخلوقات کے قتل و غارت پر نظمیں لکھنا شہرت کا سبب یا انسانی حقوق کے کسی انعام کا محرک تو بن سکتاہے لیکن اب مرے جیسی فیمنسٹ کے لئیے قطعی ضروری،مددگار یا متعلقہ نہیں رہا۔ اس کو میری ذاتی شکست کا اعتراف بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس لئیے میں فلسطین میں جاری نسل کشی اور آفات زدہ خطوں کے بارے میں خاموش رہوں گی۔ ملالہ، انگ سن سوچی ، وغیرہ جیسی نوبل امن یافتہ شہرہ آفاق کا سلیکٹو ایکٹی وزم اور اخلاقی طور پر مجرمانہ خاموشی البتہ قابل غور ہے۔

آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن پاکستان میں بھی منایا جائے گا اور ایک خاص طرح کے آکٹی وزم کو میڈیا میں اجاگر کیا جائے گا۔ بہت دھوم دھڑکا ہو گا ۔ بنفشی ، سبز اور سفید رنگوں کو کہ یہ فمسم کے رنگ کہلاتے ہیں کی ہر طرف بہار ہو گی۔

یہ دن بھی اور اس سے جڑا مدّعا یعنی تمام عورتوں کی ہر طرح کے تشدّد سے حفاظت ، سیاسی ، معاشرتی اور قانونی معاملات میں شراکت اور معاشی طور پر مضبوطی کی بات کہیں دب سی جائے گی۔ گھروں میں کام کرنے والی میڈز کے حقوق کے نام پر ، بسوں اور رکشوں میں خوار ہونے والی شہری عورتوں کی مشکلات کے نام پر ، شوہر سے مار کھانے والی اور بیٹا نہ پیدا کرنی والی عورت کے نام پر ، کھیتوں ، کھلیانوں ، کارخانوں اور بھٹوں کی جفا کش عورت کی جبری مشقّت یا کم اجرت کے نام پر المناک کہانی— بہت سی مراعات یافتہ بیگمات کو یو این کےنیویارک کے اجلاس تک تو لے جائے گی لیکن ان عورتوں کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔

یہی وہ تلخ سچ ہے جو کارپوریٹ فرہنگ اور آہنگ میں منایا جانے والا آٹھ مارچ آپ کو کبھی نہیں دیکھنے دے گا۔ ہر بازی گری اس اہتمام کے ساتھ ہوگی کہ اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی ٹوکنظم کو نسائی تحریک کی طاقت یا تاثیر ہی جانیں گے اور اصل گیم کو سمجھ ہی نہ سکیں گے ۔ ویسے بھی یو این کی رپورٹز کب کا اعلان کر چکی ہیں کہ موجودہ رفتار کام جو عورت کی خود مختاری کے حوالوں سے ہے۔ تین سو سال چاہئیے ہوں گے، پدر سری سے نجات پانے میں۔

ان تمام گزارشات اور تلخ نوائی کے باوجود آٹھ مارچ منانا ضروری ہے کہ شائد کہیں ،کبھی ،کسی طرح ، کوئی ٹھوس تبدیلی آ ہی جائے اور عورت کو بشمول عام عورت کو ، ٹرانس عورت کو ،مطلقہ عورت کو، دھتکاری ہوئی عورت کو اور کسی بھی طرح کی ذہنی یا جسمانی معذوری کے ساتھ جیتی جاگتی عورت کو مردوں کے معاشروں میں برابر کا انسان بھی صدق دل سے سمجھ لیا جائے۔

آپ سب کو آٹھ مارچ مبارک اس خواہش کے ساتھ آپ کو آٹھ آٹھ آنسو روتی وہ کروڑوں عورتیں بھی نظر آجائیں جو مروجہ ضوابط کے مطابق نیوز میکر یا نیوز ورتھی نہیں ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے