اپنے شوہر کے قتل کا مقدمہ لڑنے والی چارسدہ کی ایک خاتون رہنما کی کہانی

"وہ میری زندگی کے سب سے مشکل دن تھے, مجھ پر زمین تنگ ہوچکی تھی اور آسمان بھی اپنا سایہ کہیں دور لے جا چکا تھا ۔ کوئی اپنا نظر نہیں آرہا تھا ، کوئی ساتھ دینے والا نہیں تھا ۔ زندگی اتنی مشکل ہوگی ، کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔ لیکن مجھے جینا تھا اور لڑنا تھا ، اپنے لئےاور اپنے بچوں کے لئے ،اس لئے میں نے یہ مشکل ، چومکھی اور طویل لڑائی تن تنہا لڑنے کا فیصلہ کر ہی لیا ۔”

یہ الفاظ تھے چارسدہ سے تعلق رکھنے والی بہادر خاتون صفیہ کے ۔ صفیہ کی شادی نہایت ہی کم عمر میں ہوئی تھی ۔ اس کے شوہر اس سے تقریباً 20 سال بڑے تھے ۔ جب اس کی شادی ہوئی تب اسے گھر داری کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتا تھا ۔ لیکن اس کے شوہر ریاض خان بے حد خیال رکھنے والے انسان ثابت ہوئے ۔ اس نے صفیہ کے لئے ایک جریب سے زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا بنگلہ بنایا اور اسے شہزادیوں کی طرح رکھنے لگے ۔

"شوہر کے بے حد اچھے روئیے کی بناء پر میں خود کو دنیا کی خوش قسمت خاتون تصور کرنے لگی ۔ لیکن یہ خوشی نہایت ہی عارضی ثابت ہوئی ۔ جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ میرے سسرالی رشتے دار اس رشتے سے خوش نہیں ۔ انہیں میرے شوہر کا میرے لئے اتنا بڑا گھر بنانا ایک آنکھ نہ بھایا ۔ ریاض خان ان کے لئے سونے کی چڑیا تھا جس پر ان کے مطابق صرف ان کا حق تھا ۔ آئے روز وہ میرے شوہر کو میرے خلاف ورغلاتے رہے ۔ لیکن انہیں مجھ پر مکمل اعتماد تھا ۔ وہ میرے ہر فیصلے میں میرے ساتھ تھے ۔ ان دنوں میں نے ان سے کچھ ٹیکنیکل کورسز کرنے کی اجازت طلب کی جو انہوں نے بخوشی دے دی۔ بلکہ وہ مجھے خود گاڑی پہ انسٹی ٹیوٹ چھوڑنے جاتے ۔ یہ دیکھ کر میرے رشتے دار اور بھی آگ بگولہ ہوگئے ۔ وہ ہمارے گھر آتے اور مجھ سے اور میرے شوہر سے لڑ تے جھگڑتے ۔ ”

صفیہ کے مطابق ان لڑائیوں میں ریاض کے چچا زاد بھائی سب سے آگے تھے ۔ ایک دن جب صفیہ اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ گھر پر تھی ، یہ لوگ آدھمکے اور بلا وجہ لڑنے لگے ۔ بات زبانی تکرار سے ہاتھا پائی تک پہنچ گئی اور بالآخر انہوں نے صفیہ کی نظروں کے سامنے ریاض خان کو قتل کردیا ۔ صفیہ کی دنیا اندھیر ہوگئی ۔ وہ اپنے چھوٹے بچوں سمیت بے سایہ ہوگئی ۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے، کدھر جائے۔ ”

"اور بالآخر میں نے لڑنے کا فیصلہ کرلیا ۔ میرے پاس دو راستے تھے ۔ یا تو سسک سسک کر زندگی گزاروں ، یا اپنے حق کے لئے ڈٹ جاؤں کیونکہ شوہر کو کھونے کے بعد اب وہ لوگ میرا گھر ہتھیانا چاہتے تھے ۔ سو میں نے خود کو ایک طویل قانونی جنگ کے لئے تیار کرلیا ۔ میں نے اپنے رشتے داروں پر کیس کردیا ۔ ان لوگوں کو سزا دلوانا میں نے اپنی زندگی کا مقصد بنالیا۔ جب کہ دوسری طرف میرے سامنے چار معصوم بچے تھے ۔ ان کی پرورش کا سوال تھا ۔ اس دوران انسٹی ٹیوٹ میں کئے گئے کورسز میرے کام آئے ۔ میں اللہ کا نام لے کر گھر سے نکل گئی ۔ جلد ہی مجھے پیمان المنائی ٹرسٹ نامی ادارے کی طرف سے کھولی گئی دستکاری سنٹر جوندون میں تین ہزار روپے ماہانہ پہ جاب مل گئی ۔ کچھ عرصہ بعد میری صلاحیتوں کو دیکھ کر انہوں نے میری تنخواہ چھ ہزار روپے ماہانہ کردی ۔ ”

اس کے بعد صفیہ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ جوندون کے بعد اسے ایک دوسرے ادارے "اے ایچ ڈی” میں 15 ہزار روپے ماہانہ پر نوکری مل گئی ۔ اس کے بعد پشاور میں ایک دوسرے ادارے میں اسے پچاس ہزار روپے ماہانہ پر نوکری مل گئی ۔

"نوکری کے ساتھ ساتھ میں اپنے شوہر کے قتل کا مقدمہ بھی لڑ رہی تھی ۔ پہلے مرحلے میں ریاض خان کا چچا گرفتار کرلیا گیا ۔ ابھی مقدمہ چل رہا تھا کہ وہ چچا جیل ہی میں انتقال کرگیا ۔ چچا زاد بھائی دبئی بھاگ گئے تھے ۔ بہرحال میں نے ہمت نہ ہاری اور مسلسل مقدمے کی پیروی کرتی رہی ۔ ایک دن مجھے پتا چل گیا کہ میرے شوہر کے چچا زاد بھائی واپس آگئے ہیں۔ میں نے فوراً پولیس کو مطلع کردیا ، جس پر وہ بھی گرفتار ہوکر جیل پہنچ گئے ۔ ابھی مقدمہ چل رہا ہے ۔ امید ہے جلد ہی ان کو پھانسی کی سزا ہو جائے گی ۔ اس مقدمے کے علاؤہ میں ایک اور مقدمے کا سامنا بھی کر رہی ہوں۔ میرے سسرالیوں نے عدالت میں میرے گھر پر دعویٰ کیا ہے اس لئے میں وہ کیس بھی دیکھ رہی ہوں۔”

صفیہ کے شوہر کا قتل 2008 میں ہوا تھا ۔ تب اس کے بچے چھوٹے تھے ۔ اس نے اپنے بچوں کی بہترین پرورش کی ۔ اس کے بڑے بیٹے علی افضل نے الیکٹریکل انجنئیرنگ کی ہے ۔ اس کی شادی ہوگئی ہے اور ایک پیاری سی چھوٹی سی بچی کا باپ بن گیا ہے ۔ ایک بیٹی ار یبہ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کر رہی ہے ۔ تیسری بیٹی علینہ نے بی ایس سی کی ہے اور چوتھی بیٹی ابھی جماعت نہم کی طالبہ ہے ۔

صفیہ پچھلے کئی سال سے مختلف این جی اوز کے ساتھ کام کر رہی ہے ۔ اس کے علاؤہ وہ اپنی بوتیک اور بیوٹی پارلر بھی چلارہی ہے ۔

خود پہ اتنی مشکلات گزرنے کے بعد صفیہ نے یہ سیکھا کہ اگر خواتین کو اس معاشرے میں زندگی گزارنا ہے تو انہیں اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا ہوگا چنانچہ اس نے اس مد میں خواتین کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ کسی اور خاتون کا استحصال نہ ہوسکے ۔ لہذا انہوں نے خواتین کو ان این جی اوز کی مدد سے جن کے ساتھ صفیہ نے کام کیا تھا ، مختلف سکلز سکھائے ، انہیں روزگار دیا ، کاروبار شروع کرنے میں ان کی مدد کی ، ان کو آسان قرضے اور گرانٹ فراہم کی اور ان کے ساتھ ہر ممکن مدد کی ۔

صفیہ آج کل چارسدہ ویمن چیمبر آف کامرس کی صدر ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے وہ اپنے جیسی کئی خواتین کی مدد کر رہی ہیں۔ ان کو مختلف روزگار فراہم کر رہی ہیں ، ان کے کاروبار کو چیمبر آف کامرس کے ساتھ رجسٹر کر رہی ہیں تاکہ ان کی مناسب رہنمائی اور مدد کی جاسکے اور خواتین کو معاشرے میں بااختیار بنایا جاسکے ۔ ویمن ایمپاورمنٹ کے علاؤہ وہ امن ، رواداری اور ہم آہنگی پہ بھی کام کر رہی ہے اور اس ضمن میں چارسدہ ، پشاور بلکہ پورے خیبرپختونخوا میں ہونے والے ایونٹس میں بھرپور اور فعال حصہ لے رہی ہے ۔

صفیہ چاہتی تو شوہر کے قتل کے بعد رو دھو کر ایک طرف بیٹھ جاتی اور ظلم سہنے والی دوسری خواتین کی طرح گھٹ گھٹ کر زندگی بتاتی لیکن اس نے دوسرا راستہ چنا اپنا حق لینے کا ۔ اور پھر اس نے کر دکھایا ، نہ صرف اپنے شوہر کے قاتلوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا بلکہ اپنے بچوں کو بھی بہترین تعلیم و تربیت دیکھ کر کامیاب کیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کی دیگر خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے بھی بھرپور کردار ادا کیا ۔ صفیہ جیسے لوگوں کی اس معاشرے کو شدید ضرورت ہے ۔ درحقیقت یہی لوگ ہیں جو اس معاشرے کا کریم ہیں۔ انہیں کے دم قدم سے یہ دنیا آباد ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے