سماجی اور اقتصادی ترقی، صنفی تعلیمی برابری سے جڑی ہے

یہ بات جو مجھے بے حد پریشان کرتی ہے کہ کیا تعلیم ہی سکھاتی ہے جینے کا طریقہ۔۔۔ وہ لوگ جو تعلیم حاصل نہیں کر پاتے، کیا وہ لوگ صحیح سے نہیں جی پاتے؟

یہاں بات ہو رہی ہے ایک ایسی لڑکی کی جس کو پڑھنے کا شوق تھا۔ مبین جو ایک ہونہارطالب علم تھی، جو پڑھ لکھ کر کچھ بننا چاہتی تھی۔ مبین کہتی ہیں کہ انہوں نے میٹرک تک فرسٹ ڈویژن سے تعلیم حاصل کی، اس کے بعد انہوں نے کالج ایڈمشن کروایا لیکن اس کے بھائی افضل نے اس کو کالج جانے ہی نہیں دیا۔ افضل جو مزدور ہے، اس کے مطابق عورت کا پڑھنا لکھنا ضروری نہیں، افضل نے ماں سے بہت جھگڑا کیا کہ وہ اسے کیوں پڑھا رہی ہیں۔

مبین بتاتی ہیں کہ افضل کے پریشر کی وجہ سے مجھے کالج چھوڑنا پڑا اور میں نے ایف اے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے کیا۔ مبین کہتی ہیں کہ میں نے ایف اے کے بعد تعلیم چھوڑ دی ، تعلیم چھوڑنے کی وجہ سے وہ بہت زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئی اور اسی سٹریس کی وجہ مرگی کی مریضہ بن گئی۔ مبین کہتی ہیں کہ انہیں آج بھی اس چیز کا دکھ ہے کہ اس کے کچھ خواب تھے جو ادھورےرہ گئے۔

ٹیچر ناہید اختر کہتی ہیں کہ ایک عورت کی تعلیم ایک پورے خاندان کی تعلیم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیم ایک معاشرے، ایک ملک کی ترقی کے لیے بہت ضروری عمل ہے۔ ہمارے معاشرے میں کئی لڑکیاں ایسی ہیں جو خاندانی دباؤ سے تعلیم چھوڑ دیتی ہیں۔ ہمارا اسلام کہتا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ ہم عورتوں کو تعلیم سے روک کر بے شک ایک معاشرے، ایک قوم اور ایک ملک کو تباہ کر رہے ہیں۔پاکستان کی کل آبادی کا 52 فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔ آبادی کے اتنے بڑے حصے کو ناخواندہ رکھنا ایک خوفناک صورتحال ہے۔ جو ملک کی معشیت کوکمزور کرتی ہے۔

ریحانہ کی بیٹی عروج جس نے ایف اے میں تعلیم چھوڑ دی، کہتی ہیں کہ انہیں اپنی اولاد کو پڑھانے کا بے حد شوق تھا لیکن اس کے والد ایک ڈرائیور تھے ،ان کی آمدنی کم تھی جس کی وجہ سے وہ تعلیم کےاخراجات نہیں اٹھا سکتے تھے۔ عروج کہتی ہیں کہ مالی حالات کی وجہ سے وہ تعلیم جاری نہ رکھ سکی۔

پاکستان میں 2010 کے لٹریسی ریٹ کے مطابق ٹوٹل 55 فیصد ہیں، جس میں مرد حضرات 68.9 پرسنٹ ہیں اور خواتین 41.02پرسنٹ ہے۔ 2019 کی لٹریسی ریٹ کے مطابق مرد حضرات 69 پرسنٹ اور عورتیں 46 پرسنٹ ہیں۔ بہتر صنفی برابری اور معاشی سرگرمیوں میں خواتین کی شرکت سماجی اور اقتصادی ترقی سے جڑی ہوئی ہے۔لہذا ہمیں چاہئیے کہ ہم عورت کو تعلیم کی اجازت دیں تاکہ وہ اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے جی سکیں اور نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے نسل کے لیے بھی ایک مضبوط سہارا بن سکیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے