کیا عورت امامت کر سکتی ہے؟

بہن نے سوال کیا کہ کیا عورت مصحف سے دیکھ کر صلوٰۃ التراویح یا قیام اللیل میں عورتوں کی امامت کرواسکتی ہے؟ دیکھئے اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ بعض اس کے قائل نہیں جبکہ بعض اس کو جائز مانتے ہیں۔ البتہ جو فقہاء عورتوں کی امامت کے قائل ہیں ان کے نزدیک اس کی صورت مردوں سے مختلف ہوگی۔

عموماً مرد جب امامت کرواتے ہیں تو وہ مرد و عورت دونوں کی امامت کا استحقاق رکھتے ہیں۔ جبکہ عورت اگر امامت کروائے گی تو وہ صرف عورتوں کی امامت کرواسکتی ہے ۔ مرد امامت کرواتے ہوئے صف سے آگے نکل کر کھڑا ہوتا ہے جبکہ عورت اگر امامت کروائے گی تو وہ دیگر مقتدی خواتین کے ساتھ بیچ صف میں ہی کھڑی ہوگی۔

عورت کی امامت کروانے کی دلیل تو ابوداؤد اور صحیح ابن خزیمہ میں صحیح سند سے مروی وہ روایت ہے. جس میں نبی ﷺ نے ام ورقہؓ کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کروائیں سو وہ اپنے گھر کی خواتین کی امامت کروایا کرتی تھیں، جبکہ مصنف ابی شیبہ کی روایت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ام المومنین ام سلمہؓ عورتوں کی امامت کراتی اور صف کے درمیان کھڑی ہوتی تھیں۔ ان دونوں روایات سے خواتین کا صلوٰۃ میں اپنی ہم جنسوں کی امامت کروانے کا پتہ چلتا ہے ۔

جہاں تک بات رہی کہ کیا مصحف سے دیکھ کر قیام اللیل میں قرآن پڑھا جاسکتا ہے تو اس سلسلے میں بھی علماء کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے، جو اہل علم اس عمل کے جواز کے قائل نہیں، ان کے نزدیک یہ عمل ، عملِ کثیر میں آتا ہے اور صلوٰۃ کے خشوع و خضوع کے منافی ہے سو وہ اس کو جائز نہیں سمجھے۔

جبکہ جو علماء اس عمل کے مباح ہونے کے قائل ہیں ان کی دلیل صحیح بخاری میں موجود وہ روایت ہے، جس میں مذکور ہے کہ سیدہ عائشہؓ کے غلام سیدنا ذکوان ؓ مصحف سے دیکھ کر رمضان میں ان کی امامت کرواتے تھے۔ اس حدیث کی بناء پر مالکیہ دوران صلوٰۃمصحف سے دیکھ کرقرآن پڑھنے کے جواز کے قائل ہیں کیونکہ ان کے نزدیک اس کی ممانعت سے متعلق کوئی دلیل موجود نہیں۔ امام مالک کے شاگرد سحنون روایت کرتے ہیں کہ امام مالک کہتے تھے کہ رمضان اور نفلی عبادات میں قرآن مجید سے دیکھ کر لوگوں کی امامت کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم امام مالک کے نزدیک فرض صلوٰۃ میں ایسا کرنا مکروہ ہے۔ (المدونۃ جلد ۱ صفحہ ۲۴۴)

جبکہ امام نووی کا فتویٰ المجموع جلد ۴ صفحہ ۲۷ میں ملتا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ دوران صلوٰۃ مصحف سے دیکھ کر قرآن پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، یہ ہمارا (یعنی شوافع)، مالک، ابو یوسف، امام محمد اور امام احمد کا مذہب ہے۔ موجودہ دور کے سلفی علماء بھی اس عمل کے جواز کے قائل ہیں. جن میں مفتی اعظم سعودی عربیہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز بھی شامل ہیں۔

تاہم کچھ علماء اس عمل کو درست نہیں جانتےاور اس سلسلے میں کچھ ادلہ کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ہمارا رحجان اس بابت مالکیہ اور سلفی علماء کی جانب ہی ہے کہ یہ عمل سیدہ عائشہؓ کے عمل سے مشروع ہے سو اگر کسی کو قرآن یاد نہ ہو تو قیام اللیل میں ایسا کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بلکہ ہمیں تو اس عمل میں زیادہ خیر معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے وہ لوگ جو قرآن یاد نہ ہونے کے سبب قیام اللیل سے گریز کرتے ہیں یا پھر جی چراتے ہیں، اس طور سے ان کے لئے قیام اللیل آسان ہوجاتا ہے۔ البتہ مناسب بات یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ قرآن کوحفظ کیا جائے تاکہ مصحف سے پڑھنے کی اس رخصت پر عمل کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے