کراچی بین المذاہب ہم آہنگی کا مثالی نمونہ

دنیا بھر میں موجود تمام مذاہب کا مل جل کر ہم آہنگی کے ساتھ رہنا اور پرامن حالات کے لیے کوشش کرنا بین المذاہب ہم آہنگی کہلاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جہاں تمام روزمرہ کے معاملات معمول کے ساتھ بغیر کسی پرتشدد اختلافات کے چل رہے ہوں، پرامن معاشرے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یعنی ایسا معاشرہ جہاں زندگی کے معاملات پرسکون اور صحت مندانہ طریقے سے جاری و ساری ہوں۔ اور تمام مذاہب و مسلک کے لوگ بلا امتیاز اپنی زندگی پر سکون طریقے سے گزار سکیں۔اسی طرح بین الاقوامی سطح پر امن کا مطلب ہے، ایک دوسرے کے ساتھ باہمی رضامندی اور بھائی چارے کے تعلقات قائم ہوں۔اور اختلافات اور جنگ کی صورت حال سے معاشرے کو پاک و صاف رکھ کر اس کی کامیابی اور ترقی کی باگ دوڑ میں اہم ترین کردار ادا کیا جا سکے۔

کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی میں تعلیمی ادارے اہم ترین رکن ہوتے ہیں۔ با مقصد تعلیم قوموں کی ترقی اور بے مقصد تعلیم قوموں کے زوال کی وجہ بنتی ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف سکول،کالج،یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اس کے ساتھ ملکی تعمیر و ترقی کے لئے اخلاقی تہذیب سیکھنا بھی شامل ہے تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور اقتدار کا خیال رکھ سکے۔تعلیمی اداروں کا یہ فرض بھی ہوتا ہے کہ اپنے ملک کے کلچر تہذیب اور اس میں بسنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کے درمیان آپس میں باہمی مساوات محبت کی تعلیم کو عام کریں اور صلہ رحمی کو اجاگر کریں تاکہ معاشرے میں مشترکہ طور پر مل جل کر ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے کام کرنے کا جذبہ کارگر ثابت ہو۔

تعلیمی اداروں کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ قوم کے نوجوانوں کو امن وآشتی کے اصولوں سے روشناس کرواتے ہوئے قومی سطح پر امن و امان کے قیام کی ذمہ داری کا فریضہ سنبھالیں اور اپنے اداروں سے فارغ التحصیل اور زیر تعلیم طلبہ میں امن و برداشت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے اپنا بہترین کردار نبھائیں۔

کیوں کہ کسی بھی قوم کے مستحکم ہونے میں اس کے نوجوانوں کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے. ان میں ٹھہراؤ پیدا کرنا سماجی اور اخلاقی تربیت اور صرف ملکی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر امن قائم رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی سوجھ بوجھ پیدا کرنا تعلیمی اداروں کا فریضہ ہوتا ہے۔ معاشرہ میں امن، برداشت، استحکام جیسے رویوں کو فروغ دینے کے لئے اگر یونیورسٹی سطح پر ہی بہتر اقدامات کا سہارا لیا جائے اور نوجوان طلبہ کے نوخیز ذہنوں کو توازن و برداشت کی اعلیٰ اقدار کا سبق سکھا دیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یونیورسٹی سطح پر تعلیم حاصل کرنے والے تمام طلبا وطالبات معاشرتی و سماجی سفیروں کا کردار ادا کرتے ہوئے ملک کے مختلف طبقات کے مابین ہم آہنگی کا وسیع تر وسیلہ بن جائیں۔  ملک کی معاشی ترقی کے لئے بھی امن و استحکام کی از حد ضرورت ہے کیونکہ اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کے لئے جہاں بہت سی شرائط کی ضرورت ہوتی ہے وہاں پر ایک بنیادی شرط ملکی امن بھی ہے۔

تعلیمی اداروں کا فرض صرف اور صرف اعلیٰ تعلیم کی فراہمی ہی نہیں بلکہ علمی و سماجی رہنمائی کے ذریعے طلبہ کی ایسی ذہن سازی ہے جو انہیں سماجی و معاشرتی شعور سے بہرہ ور کرتے ہوئے انہیں انسانیت کی خدمت کی جانب مائل کر دے۔ مختلف موضوعات پر مکالمہ و مباحثہ کی موجودگی طبقاتی جنگ کو ختم کرنے اور دہشت گردی جیسے ناسور سے چھٹکارا حاصل کرنے کا بہترین ہتھیار ہے۔ ہم آہنگی، برداشت، توازن، طبقاتی مساوات، بہتر روزگار ایسے عناصر ہیں جو کسی بھی معاشرے کو جنت نظیر بنانے کے لئے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں اور اساتذہ کا اولین فریضہ یہی ہے کہ وہ اپنے زیر تربیت طلبہ کو ان اعلیٰ سماجی اقدار سے روشناس کروانے کی از حد كوشش کریں جو مستقبل میں ایک متوازن معاشرہ کی تشکیل میں اہم ہوں۔

ہمارے ملک میں بھی مختلف مذاہب کے زیر اثر اسکولز اور جامعات کام کررہی ہیں جو طلباء کو بین المذاہب ہم آہنگی کے سنہری اصولوں کے مطابق تعلیمات دے رہی ہیں۔ایسے اسکولز سسٹم جو بین المذاہب ہم آہنگی کے اصولوں کے مطابق کام کررہے ہیں اور طلباء میں مساوات کی تعلیم عام کرر رہے ہیں ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔

مساجد و مدارس:

مسجد مسلم معاشرے کا مرکز و مرجع ہے، بہت سے معاشرتی اُمور مساجد سے وابستہ ہیں۔مسلمان جب نماز کے لیے مسجد میں جاتا ہے تو اسے تمام مسلمان اسلام کے رشتہ اخوت سے جُڑے دکھائی دیتے ہیں، کیوں کہ مسجد میں ذات پات ، رنگ و نسل، علاقے اور ملک، امیر اور غریب میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا بلکہ بقول شاعر
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

جب مسلمان مسجد میں اکٹھے ہوتے ہیں تو آپس میں حقوق العباد کی اَدائیگی کا عمل بھی ہوجاتا ہے جیسے ایک دوسرے کو سلام و جواب کرنا، بیمار کی عیادت کرنا، باہم ایک دوسرے کا احترام اور حاجت مندوں کی مدد کرنا شامل ہے. اس کے علاوہ دیگر حقوق العباد کا احساس بھی پیدا ہوجاتا ہے۔کیونکہ مساجد و مدرسے میں حقوق العباد کی اہمیت پر تقاریر کرکےلوگوں کو تعلیم دی جاتی ہے اور ان کی ادائیگی پر بھی زور دیا جاتا ہے۔

 مساجد میں معاشرتی مسائل کا ادراک بھی حاصل ہوتا ہے، مسجد میں لوگ ایک دوسرے سے بلارکاوٹ ملتے ہیں اور درپیش مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔ کوئی لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کا ذکر کرتا ہے تو کوئی بدامنی، دہشت گردی کے ظلم وناانصافی کی بات کرتا ہے اور ایسے ہی انفرادی مسائل کا اندازہ بھی انکے ذریعے سے ہوتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ان مسائل کی روک تھام کے لئے اصلاحات بھی سامنے لائی جاتی ہیں۔

مسجد میں ایک دوسرے سے ملاقات سےایک دوسرے کی اخلاقی حالت سامنے آتی رہتی ہے۔ مسجد میں پابندی کے ساتھ پانچ وقت حاضری دینے سے مؤمن کے اخلاق اور کردار کی تعمیر ہوتی ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے اصولوں کے مطابق اور ہمارے پیارے دین اسلام کی روشن تعلیمات کےمطابق لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک سے رہنے امن و آشتی کے سنہری اصولوں پہ عمل کرنے کا سبق بھی سکھایا جاتا ہے۔

 نماز کو باقاعدگی سے وقت پر ادا کرنے سے انسان وقت کا پابند بن جاتا ہے اور وہ اپنے وعدہ کو پورا کرنے اور نبھانے کا شعور پاتا ہے۔ اگر انسان معاشرے میں ان باتوں کا عادی ہوجائے تو اس کے اثرات بہت اچھے ہوتے ہیں۔ نماز انسان کو بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے.  مسجد میں انسان، جھوٹ، غیبت، دھوکا دہی، چغلی، رشوت، چوری اور بے حیائی وغیرہ سے جزوی طور پر رُک جاتا ہے اور آخرکار مکمّل طور پر ان معاشرتی برائیوں اور لعنتوں سے اپنے آپ کو بچانے کا عادی ہوجاتا ہے۔آدابِ مسجد کو ملحوظ رکھ کر مسجد میں جانے والا انسان نشے جیسی تباہ کن عادت سے بچا رہتا ہے،کیونکہ نشہ اور حواس باختگی کے عالم میں اسلام نے نماز کی ادائیگی سے منع کیا ہے. اس لیے نمازی منشیات اور نشہ آور اشیا سے بچتا ہے۔مَساجد کا ایک کردار ثقافتی ہے۔ اسلامی ثقافت مسلمان کی زندگی کی عکاس ہوتی ہے. اس سے مراد وہ اعمال و افعال ہیں جو اسلام کی آمد کے بعد وجود میں آئے اور ان کا تعلق مسجد سے ہے. مسجد میں نمازِ جمعہ، رمضان المبارک اور عیدین کے موقع پر ، زکوٰۃ و صدقات اور خیرات دینے کا جذبہ مزید بڑھ جاتا ہے. جس سے بہت سے مسلمان اور غیر مسلم لوگ بھی مستفید ہوتے ہیں۔

 مسجدایک ایسا ادارہ ہے، جو تعلیم و تربیت میں بنیادی اور اہم کردار کا حامل ہے۔ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ پہلی تین صدیوں میں مسجد ہی وہ درس گاہ تھی کہ تمام علوم و فنون اس میں پڑھائے جاتے تھے اور سب سے پہلے درس گاہ ‘اصحابِ صفہ ‘کے نام سے مسجد نبویﷺ میں قائم ہوئی تھی۔ مسجد میں درسِ قرآن و حدیث کے ساتھ فقہ کے مسائل بیان کرنے کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ علم و عرفان کا بہت سا حصّہ مسلمان مسجد سے ہی سیکھتے ہیں اور ایک زمانے میں پاکستان میں مسجد ِسکول کا قیام بھی ہوا تھا جو بعض علاقوں میں آج تک چل رہا ہے۔

مسجد ہی معاشرے کے تمام اسلامی اور فی سبیل اللّٰہ مالی معاملات کا مرکز ہوتی ہے۔ تمام فنڈز اور چندے مسجد میں جمع اور تقسیم ہوتے تھے مثلاً جہاد فنڈ، زکوٰۃ، صدقات و خیرات وغیرہ وغیرہ۔ یہ نظام مسجد سے وابستہ رہا ہے اور آج بھی اسے جاندار بنایا جاسکتا ہے۔یعنی مساجد و مدارس نا صرف معیاری تعلیم کی ترویج میں اپنا اہم کردار ادا کررہی ہیں بلکہ لوگوں کی اخلاقی سماجی تعلیم و تربیت میں بھی اپنا اہم کردار ادا کررہی ہیں۔

گرجا گھر/ چرچ:

 گرجا گھر اس عمارت کو کہا جاتا ہے، جس کا بنیادی مقصد ایک مسیحی کلیسیا کے اجلاس کے لیے سہولت مہیا کرنا ہے۔اور کلیسا کا مطلب مسیحی عبادت خانہ ہے۔گرجا گھروں میں یسوع مسیح کی دی ہوئی تعلیمات کو اجاگر کرتے ہوئے بین المذاہب ہم آہنگی کا درس بھی دیا جاتا ہے۔

کراچی کے گنجان آباد علاقے صدر میں کئی گجا گھر تعمیر ہیں اور یہاں بہت سے مشنری اسکولز جن میں سینٹ پیٹرک اسکول،سینٹ جوزف اسکول قابل ذکر ہیں۔ بشپ انتھونی تھیوڈور لوبو معروف  مذہبی رہنما اور ماہر تعلیم بشپ انتھونی تھیوڈور لوبو 4 جولائی 1937ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے سینٹ پیٹرکس اسکول کراچی اور کرائسٹ دی کنگ سے تعلیم حاصل کی۔ 8 جنوری 1961ء کو انھیں کراچی کا پریسٹ مقرر کیا گیا۔ بعد ازاں انھوں نے جامعہ کراچی ، ہارورڈ اور پیرس سے مزید تعلیم حاصل کی۔ بشپ انتھونی تھیوڈور لوبو نے پاکستا ن کے نظام تعلیم کی بہتری کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ وہ کئی تعلیمی اداروں کے سربراہ بھی رہے جن میں کراچی کا سینٹ لارنس بوائز اسکول، سینٹ پیٹرکس اسکول اورسینٹ مائیکل کانونٹ اسکول شامل ہیں۔ 1993ء میں انھیں اسلام آباد کا بشپ مقرر کیا گیا۔ 18 فروری 2013 کو ان کا انتقال ہوگیا۔ حکومت پاکستان  نے انہیں14 اگست 1990ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

ان تمام مسیحی تعلیمی اداروں میں حضرت عیسی علیہ السلام کے دئے گئے پیغام محبت کی ترویج کی جاتی ہے۔تمام مذاہب کا ادب او احترام کرتے ہوئے تمام لوگ ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور مساوات کی زندگی گزار رہے ہیں۔جن میں ایسے علاقے مثالی ہیں، جہاں ہر مذہب اور مسلک کے لوگ انسانیت کے تقاضوں کے مطابق اپنی اپنی مذہبی تعلیمات پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں۔

کراچی کے علاقے صدر میں نے تاریخی زیب النساء اسٹریٹ سے سینٹ پیٹرک کتھیڈرل تک آپ چلتے جائیں، تو ہر ایک بلاک پر ایک مختلف مذہبی برادری آباد نظر آئے گی۔ یہاں پر یہ برادریاں ایک دوسرے کے ساتھ کئی سالوں سے بھائی چارے کے ساتھ امن و آشتی کی زندگی گزاررہ رہی ہیں۔

لفظ پارسی فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب فارس (موجودہ ایران) سے تعلق رکھنے والا ہے، آزادی کے بعد ابتدائی چند سالوں میں پارسی کراچی کی سب سے زیادہ بااثر اور دولتمند برادری تھی۔ انہوں نے شہر بھر میں کئی سماجی و طبی ادارے قائم کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ان میں سب سے اہم این ای ڈی یونیورسٹی اور لیڈی ڈفرن ہسپتال ہیں۔ گذشتہ چند سالوں میں ان کی برادری کی تعداد ہجرت اور گھٹتی شرحِ پیدائش کی وجہ سے کم ہو رہی ہے، اور زیادہ آتش کدے باقی نہیں بچے ہیں۔ان میں سب سے بڑا ایچ جے بہرانا دارِ مہر (آتش کدہ) ہے۔کراچی میں صدر کے علاقے میں ہی جماعت خانہ بھی ہے جو طاہری مسجد کہلاتا ہے، اور یہ شہر کے سب سے بڑے جماعت خانوں میں سے ہے۔مسجد کے اندرونی حصے میں دنیا بھر کی اسلامی ثقافتوں کے طرز ہائے تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے۔

مندر:

وہیں صدر میں ہندؤوں کی عبادت کے لیے مندر بھی بنے ہوئے ہیں۔مندر سب سے نمایاں چیز اسکے اوپر ہاتھ سے بنائی گئی کرشن جی کی پینٹنگ ہے، جو ان کی کہانی بیان کرتی ہے۔مندر کے ساتھ ہی ایک وسیع میدان ہے جو میلوں اور تقریبات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ سوامی نارائن مندر کی اپنی گئوشالہ بھی ہے، جہاں گائے رکھی جاتی ہیں، ان کی عبادت کی جاتی ہے، اور ان کا خیال رکھا جاتا ہے۔سوامی نارائن مندر، جسے لائٹ ہاؤس مندر بھی کہا جاتا ہے. طرح طرح کے لوگوں کو اپنی آغوش میں بسائے ہوئے کراچی کے صدر کو دیکھ کر مجھے قائدِ اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کی تقریر یاد آگئی، جس میں انہوں نے برابری سے لے کر قانون کی بالادستی اور مذہب کی آزادی کے متعلق ہر چیز پر بات کی تھی۔ لیکن آج ان کی اس تقریر سے جو چیز مجھے سب سے زیادہ یاد آئی، وہ یہ تھیں:

"آپ دیکھیں گے کہ کچھ عرصے میں ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلم مسلم نہیں رہیں گے۔ مذہبی تناظر میں یہ بات نہیں کی گئی تھی، کیوں کہ مذہب ہر کسی فرد کا ذاتی معاملہ ہے، بلکہ یہ سیاسی تناظر میں کہا گیا تھا کہ، بحیثیت ریاست کے شہری سب ایک ہوجائیں گے۔”

یعنی کراچی کا گنجان آباد علاقہ صدر بین المزاہب ہم آہنگی کا مثالی نمونہ ہےکونکہ اس علاقے کا ہر مذہبی گروہ اپنی روز مرہ کی زندگی اور اپنی عبادات بغیر کسی کشیدگی کے انجام دیتا ہے۔ انھیں اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ یہ پارسی ہوں، یا سکھ، ہندو، عیسائی، یا مسلم۔ عقیدہ سیاسی نہیں بلکہ ایک ذاتی ترجیح ہے ،جسے یہ سب لوگ سمجھتے ہیں اور اس کی تعظیم کرتے ہیں۔ یہ سب لوگ ریاست کے شہری ہیں، اور منفرد اور خوبصورت پاکستانی ہیں۔ ان تمام لوگوں میں اس شعور کو اجاگر کرنے کے لئے ان کے مذہبی تعلیمی ادارے اپنا اہم کردار ادا کرتے کر رہے ہیں. جس کی وجہ سے لوگوں میں انسانیت اور مساوات کی اخلاقی اقدار قائم و دائم ہیں۔

اللہ پاک ہمارے ملک کے ہر کونے میں اسی طرح امن و آشتی کے پھول کھلائے رکھے اور ہمارے ہر مذہب و مسلک کے علماء کو انکے فرائض خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کرنے کی اسی طرح توفیق دے تاکہ ملک امن و سکون اور سلامتی کے ساتھ تعمیر وترقی کی جانب اپنا سفر رواں دواں رکھ سکے۔
آمین ثم آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے