کیا ہم ترک بنیں گے؟

اب افسوس یہ نہیں ہوتا کہ پاکستان میں تقریباً ہر چیز میں دھوکہ اور ملاوٹ ہوتی ہے، پینے کا صاف پانی نہیں ہے، صفائی اور نکاس کا کوئی نظام نہیں ہے، میرٹ نہیں ہے، انصاف نہیں ہے، ہر طرف جھوٹ مکاری اور فریب ہے، چمچہ گیری عروج پہ ہے، رشوت خوری جائز بنا دی گئی ہے، مہنگائی آسمانوں کو ہر سات دن بعد چھوتی رہتی ہے، کوئی گھر کوئی انسان کوئی گاڑی موٹر سائیکل موبائیل بٹوہ محفوظ نہیں ہے، کسی کی عزت اور عصمت محفوظ نہیں ہے۔۔ اب ان باتوں پہ افسوس نہیں ہوتا کیونکہ ان تمام باتوں کی وجہ ہم عوام خود ہیں! کیسے اسکی وضاحت آگے چل کر دیتا ہوں۔

پٹرول کی قیمت بڑھ جائے تو اسی رات پٹرول پمپ پہ لمبی قطار میں کھڑے ہوکر بڑی “عقلمندی” کا مظاہرہ کرتے ہوئے گاڑی اور موٹر سائیکل کی ٹنکی فُل کرواکے موٹر سائیکل کے ۲۰۰ روپے اور گاڑی کے ۱۵۰۰ روپے کی بچت کر لیتے ہیں، بجلی کی قیمتیں ہر آئے دن مہنگی ہوتی رہتی ہیں اور ہم عوام بڑی “بہادری” کیساتھ بل دیکھ کر حکومت کو برا بھلا کہہ کر بل ادا کرنے نکل پڑتے ہیں، ہمارا بطور قوم یہی رویہ گیس کی قیمتوں اور کھانے پینےکی اشیاء کی قیمتوں میں ہر آئے دج اضافے کے متعلق بھی ہوتا ہے۔۔

حال ہی میں ۸ فروری کو ایک کمال بلکہ ایک “چمتکار” ہوا کہ یہ قوم جوک در جوک نکلی اور پچھلے ۲ برس کے ظلم، جبر، بربریت اور مہنگائی کے خلاف ووٹ دیا۔۔ لیکن یہ کیا؟ فارم 45 کے نتائج تبدیل کرکے فارم 47 کے بل بوتے پہ اپنی مرضی کی حکومت مسلط کر دی!

عوام نے سوچا کہ ہمارا کام تھا ووٹ ڈالنا اس سے زیادہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اس لئے دوبارہ اپنی زندگی اور روز گار کے تگ و دوڑ میں جڑ گئے، اور یہ رویہ باعث حیرت نہیں ہے، ہماری کوئی چیز چوری ہوجائے یا چھن جائے ہمارے ساتھ کوئی ناانصافی ہوجائے تب بھی ہم ایک تو قسمت سمجھ کر صبر کرلیتے ہیں اور دوسرا قصور نظام کو دیتے ہیں جہاں انصاف اور وہ بھی فوری انصاف ملنا تقریبا ً ناممکن ہے۔

برسوں سے اس قوم کو یہ ذہن میں ڈال دیا گیا ہے کہ اس ملک میں جو بھی ہوگا وہ ایک خاص طاقت کی مرضی سے ہوگا اور اقتدار میں کسی کو لانا اور نکالنا انکی منشاء کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، آپ کہیں بھی بحث کر کے دیکھ لیں آپکو اسی طاقت کے بارے میں یہی سننے کو ملے گا کہ انکی مرضی کے بغیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی پتا بھی اپنی جگہ سے ہل سکے۔

ہزاروں سال سے برصغیر کی قوم کا مزاج رہا ہے کہ سوائے چند قبیلوں کے کسی نے بھی اپنے حق کیلئے لڑائی نہیں کی، ہمیشہ یہاں باہر سے آئے ہوئے لشکروں نے لوٹ مار بھی کی اور صدیوں تک حکومت بھی کی۔ آخری لڑائی اس برصغیر کی قوم نے 1857 میں انگریزوں کے خلاف لڑی اور وہ لڑائی اپنوں میں موجود غداروں کی وجہ سے ہار گئی۔۔!

اب ایسی کیا چیز ہے جو کسی قوم کو باوقار بناتی ہے؟ اپنے ووٹ کی عزت کراتی ہے؟ ناچیز کے مطابق اس سلسلے کی سب سے روشن اور عالیشان مثال ترکی میں 15 اور 16 جولائی 2016 کی شب جب فوج نے ترک صدر رجب طیب اردگان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی اور اس سازش کو ترکی کی غیرت مند عوام نے پاش پاش کردیا!

ترک فوج نے جب سرکاری ٹی وی TRT پہ قبضہ کرلیا تو CNN ترکی میں کام کرنے والی ایک خاتون صحافی کے ذریعے اپنی قوم کو ویڈیو پیغام دیا کہ اپنے ملک کے آئین کو بچائیں اور اس سازش کے خلاف سڑکوں پہ نکل آئیں۔

ترک عوام لاکھوں کی تعداد میں نکلی ٹینکوں اور آگے لیٹی اور کئی ترکوں نے جمہوریت، اپنے مینڈیٹ اور اپنے ملک کی عزت اور وقار کی خاطر سینوں پہ گولیاں کھا کر اپنے آپ کو ایک باکمال قوم ثابت کیا اور تختہ الٹنے کی سازش کو ناکام بنا دیا۔۔

ترک چاہتے تو وہ بھی خاموش رہ سکتے تھے لیکن انہوں نے ایک باوقار قوم کی طرح اپنے اوپر کسی غیر جمہوری اور غیر آئینی طاقت کو قابض نہیں ہونے دیا اور پوری دنیا سے تسلیم کروایا کہ یہ قوم مزاحمت والی ہے اور اپنا حق لینے اور بچانے کیلئے جان کی پرواہ نہیں کرتی۔۔۔! واہ اسے کہتے ہیں قوم، آپ ترکی جائیں تو آپکو ہر عام و خاص جگہ ترکی کا قومی پرچم نظر آئے گا۔

ہماری قوم اپنا حق لینا نہیں بلکہ رونا جانتی ہے اور مختلف بہانے دیتی رہتی ہے، اسلئے مزے میں رہیں اور اس “جمہوریت” کو انجوائے کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے