1987 کا سال تھا اور اسلام آباد سمیت سارے پاکستان میں جنید جمشید اور ان کے میوزک بینڈ وائٹل سائنز کا چرچا تھا. نوجوان نسل ان خوش شکل نوجوانوں کی دھنوں اور گانوں کی گرویدہ ہو چکی تھی. مغربی طرز کی بیٹس ، رومانوی کلام اور شعیب منصور جیسے جینیس کی سر پرستی میں محدود وسائل کے باوجود پی ٹی وی اور وہ بھی ضیاء کے دور میں ان کے گانے تازہ ہوا کا وہ جھونکا تھا، جو مڈل کلاس کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے لئیے بھی کتھارسس کا جواز بن رہا تھا .
ایسے سمے میں ایک ایسا ملی نغمہ پی ٹی وی کی سکرین پر ووکلسٹ’ جنید جمشید اور بینڈ کے دوسرے ممبرز ،( جن میں اس وقت روحیل حیات ‘ شہزاد حسن اور نصرت حسین ‘ عامر زکی اور رضوان حق بھی شامل تھے) پر جگمگاتا ہوا ،اس طرح آیا کہ ہم سب کو ہمیشہ کے لئیے سحرزدہ کر دیا .
اس گانے کو پاکستان کا غیر سرکاری قومی ترانہ اس کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے قرار دیا گیا. موسم بدلا، رت بدلی ،جنید جمشید منبر کے ہوگئے. الله نے ان کا دل بدل دیا ، بینڈ ٹوٹ گیا ،پی ٹی وی کی اجارہ داری ختم ہوئی، چینلز کا سیلاب آیا ، سنسر کے قوانین بدلے ، ٹیکنالوجی کہیں سے کہیں پہنچ گئی مگر دل دل پاکستان اور اس کے فینز کا رشتہ نہ بدلا. بلکہ اس گانے سے محبّت کرنے والوں میں دنیا بھر میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا اور اس گانے کو کئی ایوارڈز اور اعزازات بھی ملے .
اس بھرے میلے میں اس تمام ہنگامے میں اس لازوال نغمے کا تخلیق کار کہیں گم ہو گیا . وہ تھے نثار ناسک ..ایک بہت اچھے شاعر تھے اور ایک معصوم انسان ،جو پی آر کے رموز سے واقف نہ تھے . 76 سال کی عمر میں تنگدستی، بیماری اور گمنامی مگر خوداری کی زندگی گزار کر 2019 میں پنڈی میں منوں مٹی تلے جا سسوئے.
ایسی زمین اور آسماں
ان کے سوا جانا کہاں
بڑھتی رہے یہ روشنی
چلتا رہے یہ کارواں
دل، دل پاکستان، جاں، جاں پاکستان
دل، دل پاکستان
گھر اپنا تو سب کو جی جان سے پیارا لگتا ہے
تارہ لگتا ہے
ہم کو بھی اپنے ہر ارمان سے پیارا لگتا ہے
سنا ہے کہ ان کو صدارتی انعام کے لئے کبھی نام زد کیا گیا تھا مگر کسی کرم فرما ، نے ان کو ایوارڈ سے محروم ہی رکھا . "کوئی چھپا ہوا خنجر میری تلاش میں ہے” نثار ناسک جیسے ” سازشوں میں گھرا ،اک یتیم شہزادہ” اس جیسے ایوارڈ کے لئے اہم ہوتا ہے نا کہ ایوارڈ اس کے لئیے . لیکن اس طرح کے ایوارڈز کے لئے جو آپا دھاپی ہوتی ہے اور جو معیار مقرر کیا جاتا ہے، اس سے اس کی اوقات کا پتا ضرور چل جاتا ہے اور کچھ لوگ بھی پہچانے جاتے ہیں.
کاش 23 مارچ کو اس وطن عزیز کا مزید مذاق نا بنایا جائے اور یا تو اس دن عطا کئے جانے والے سول ایوارڈز کا سلسلہ ختم کر دیا جائے یا دل پر پتھر رکھ کر ہی سہی ایمانداری سے ایوارڈ یافتگان کا انتخاب کیا جائے اور ایوارڈ کے لئیے پیمانے کو بھی دوبارہ پرکھا جائے. مگر یہ تمام سنجیدہ کام ہیں . کون کرے گا ؟
———————
ڈاکٹر رخشندہ پروین ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹرا پرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالت حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز کے خلاف آگاہی کے حوالے سے ان کا کام نمایاں رہا ہے . گزشتہ دس سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے آواز بن رہی ہیں.