20 سال سے انصاف کی منتظر ماں نے اپنا گھر چھوڑ دیا

"سکول سے گھر پہنچنے پر رشتہ داروں نے میری بیٹی کو بے گناہ شک کی بنیاد پر قتل کردیا”

یہ کہنا ہے رخسانہ کا….. رخسانہ نے کہا کہ ” اس واقعہ کے بعد اپنا گھر بار چھوڑ دیا اور کسی اور علاقے میں گھر بسا لیا کیونکہ اس گھر میں اسکی بیٹی کی نشانیاں تھیں جو اسے جینے نہیں دے رہی تھیں۔”

پولیس کرائم ڈپپارٹمنٹ کے مطابق ایک واقعہ میں دن چار بجے کے قریب نادیہ (فرضی نام )کو ایک ٹیکسی ڈرائیور نے گلگت کے مضافات علاقہ بسین سے پک کیا ، شام آذان کے بعد کسی ٹیکسی میں گھر پہچنے پر نادیہ اور ٹیکسی ڈرائیور کو بھی رشتہ داروں نے قتل کردیا۔

تفصیلات کے مطابق پولیس رپورٹ میں خاتون اور ڈرائیور کو شک کی بنا پر قتل کردیا کیونکہ خاتون کافی ٹائم غائب تھی ،اس نے گھر آنے میں دیر کردی تو گھر والے پریشان ہو گے کہ بیٹی کہاں چلی گئی اور گھر والوں کو شک ہوگیا کہ ہماری بیٹی یا بہن کے کسی کے ساتھ شاید کسی سےغلط تعلقات ہیں اور انتظار میں بیٹھے کہ کس کے ساتھ واپس گھر آتی ہے اور رشتہ داروں اور ہمسایوں کے گھروں میں بھی تلاش کیا ، مگر لڑکی گھر نہیں آئی۔

شام آذان کے بعد گلگت ہسپتال سے لڑکی ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر گھر کے قریب پہنچی اور ٹیکسی ڈرائیور کو پیسے دینے لگی تھی کہ گھات لگائے بیٹھے رشتہ داروں نے ٹیکسی ڈرائیور کو پکڑ لیا . گھر لے گئے مارا پیٹا اور رات گئے لڑکی اور ٹیکسی ڈرائیور کو قتل کر دیا حالانکہ ٹیکسی ڈرائیور وہ نہیں تھا ، جس کے ساتھ لڑکی صبح گاڑی میں بیٹھ کر گئی تھی. پولیس نے مجرموں کو گرفتار کرلیا ، جس کا کیس ایک سال گزرنے کے بعد بھی اب تک سزا نہیں ملی ۔

یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ گلگت میں غیرت کے نام پر پانچ سالوں میں 84 قتل ہوئے، جن میں سے 60 خواتین غیرت کے نام پہ قتل ہوئیں…

دوسرے واقعے میں سکارکوئی سے تعلق رکھنے والی خاتون (آمنہ)فرضی نام کو جو شادی کرکے "پڑی” میں رہتی تھی . ایک دکاندار کے ساتھ تعلقات کے شک کی بنا پر گھر والوں نے دکاندار کو پنڈی جاتے ہوئے راستے سے پکڑ کر گھر لے گئے ،لڑکی اور دکاندار کو بے دردی سے قتل کردیا ، جس کے مجرموں کو بھی اب تک سزا نہیں ہوئی. پولیس رپورٹ

کرائم ڈیپارٹمنٹ گلگت کے اعدادوشمار کے مطابق گلگت بلتستان 60 خواتین غیرت کے نام پہ قتل ہوئی ہیں. جن میں سے 2019 میں بارہ اور 2020 میں نو اور 2021 میں گیاراں اور 2022 میں تیرہ اور 2023 میں پندرہ غیرت کی بھینت چڑ گئی ۔پولیس کے مطابق کچھ اضلاع میں غیرت کے نام پہ قتل ہوتے ہیں مگر رپورٹ نہیں ہوتے اور یہ کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔

ایڈوکیٹ امتیاز حسین کے مطابق گلگت بلتستان میں غیرت کے نام پہ قتل کی سب سے اہم وجہ جہالت ہے کیونکہ قانون اور اسلام میں بھی کہیں نہیں کہ اگر کسی عورت اور مرد کے غلط تعلقات ہیں تو قانون ہاتھ میں لے کر قتل کرنا جرم ہے ،اسلام اور قانون میں بھی ہر جرم کی سزا ہے اگر کوئی خاتون کے کسی مرد کے ساتھ تعلقات ہیں تو قانونا اس خاتون کو خلا لینے کا ہے، نہ کہ رشتہ دار 2 دو جانوں کا قتل کریں اور خود بھی جیل چلے جائیں۔

غیرت کے نام پہ قتل اکثر اپنے ہی کرتے ہیں، ایسے واقعات میں سزا نہ ملنے کی ایک وجہ خاندان والے صلح صفائی کرتے کیونکہ جتنے بھی کیسز غیرت کے نام پر قتل ہوئے، ان میں زیادہ تر گھر والوں نے معاف کردیا ،صلح صفائی کے بعد قتل کا کیس ختم ہوتا ہے۔اور کسی ایک کیس میں سزا ہوئی۔اگر پولیس ان وقعات کی صحیح تحقیقات کرے تو سزا دلوانے میں آسانی ہوتی ہے مگر یہاں گواہ نہ ملنے کی وجہ سے مجرم بری ہوجاتے ہیں اور ایسے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے۔

ہیومن رائٹس کے مطابق گلگت بلتستان میں پسند کی شادی کی وجہ سے زیادہ غیرت کے نام پہ قتل ہوتی ہیں. اگر خاتون پسند کی شادی کرتی ہے یا شادی کیلیے گھر والے راضی نہیں ہوتے تو اکثر واقعات میں لڑکا اور لڑکی بھاگ کر شادی کرتے ہیں، تو گلگت بلتستان میں اکثر لوگ لڑکا لڑکی دونوں کو قتل کرتے ہیں یا پھر کچھ کیسز میں لڑکی کا قتل ہوتا ہے اور کچھ میں لڑکے کو ماردیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ گلگت بلتستان میں اس طرح کے واقعات زیادہ تر چلاس ،داریل اور گلگت سے زیادہ ملتے ہیں کہ اپنی پسند کی شادی پر قتل کردیا جاتا ہے۔ والدین کو چاہیئے کہ اگر انکے بچے راضی ہیں تو شادی کی اجازت دینی چاہیئے. ماں باپ اپنی پسند کی ضد میں آجاتے ہیں تو کہیں مذہب، کہیں ذات، کہیں برابری کا عنصر نظر نہیں آتا ہے تو والدین رشتہ دار ،رکاوٹ بن جاتے ہیں۔اسلام میں بھی لڑکی اور لڑکے کی باہم رضا مندی شامل ہے ۔

پولیس کرائم ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ پولیس اپنا تمام کام کرکے دیتی ہے، تمام تر تحقیقات کے بعد عدالت میں دیتے ہیں مگر مجرموں کو کئی سال گزرنے کے بعد بھی سزا نہیں ملتی۔ایسے کیسز میں سزا نہیں ملتی اور وقت پر لاواحقین کو انصاف بھی نہیں ملتا ہے۔

رخسانہ خاتون گلگت کی رہائشی ہیں نے بتایا کہ "رشتہ داروں نے میری بیٹی کو شک کی بنا پر قتل کیا حالانکہ وہ بہت چھوٹی تھی، انصاف کے لئے عمر بھر چکر کاٹنے کے بعد اب اس وجہ سے صلح کی ہے کہ میری بیٹی تو نہیں رہی مگر جرگے اور عدالتوں کے چکر کے خرچے میں برداشت نہیں کرسکتی، اللہ ہی انصاف دے گا۔

رخسانہ نے مزید بتایا کہ گلگت بلتستان میں انصاف ملنا بھی ناممکن ہے، اس لیئے میں اپنے رشتہ داروں سے دور آ کر کسی اور گاؤں میں آباد ہوئی ہوں تاکہ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت پر توجہ دے سکوں۔اور دوسری بیٹی کی رشتہ داری میں ہی شادی کردی ہے۔

رخسانہ کہتی ہیں کہ گلگت بلتستان میں پڑھے لکھے لوگوں کی کمی ہے، جہالت اور تعلیم اور شعور کی کمی انسان کی وجہ سے قتل شک کی بنا پر ہوتا ہے اور تعلیم یافتہ علاقوں میں ایسے واقعات کم ہی رونما ہوتے ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے