کشمیر کی آزادی اور خودمختاری کے لیے بے خوفی سے جدوجہد کرنے والا بہادر نوجوان رہنما

اشفاق مجید وانی کی محبت بھری یاد میں، ایک بہادر نوجوان رہنما جس نے کشمیر کی آزادی اور خودمختاری کے لیے بے خوفی سے جدوجہد کی۔ اس مقصد کے لیے ان کی قربانی اور لگن کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ غیر معمولی رہنما اشفاق مجید وانی کو خراج تحسین.

کشمیر کے حقوق اور وقار کے لیے جاری جدوجہد میں اشفاق مجید وانی کی قیادت کا اثر آج بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس کی وراثت ایک یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے کہ ایک شخص کا عزم اور قربانی لچک اور مزاحمت کے شعلے کو بھڑکا سکتی ہے جو تاریک ترین وقتوں میں بھی برقرار رہتی ہے۔

کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک دلیر اور بصیرت والے رہنما اشفاق مجید وانی نے خطے کی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ کشمیر کے لیے آزادی اور خودمختاری کے مقصد کے لیے ان کی غیر متزلزل لگن نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا۔اشفاق مجید وانی تم بھلائے بھی نہیں بھولتے۔ جب جب تیس مارچ کا دن قریب آتا ہے تو مجھے تمہارے ساتھ گذرے لمحات کی یادیں تازہ ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
قصے کہانیاں سننے اور سنانے کو جی چاہتا ہے ۔۔۔
میری اشفاق مجید وانی سے ان گنت ملاقاتیں رہی ہیں۔ اور اس دور کی ان کے اور ان کے ساتھیوں سے وابستہ سب ہی یادیں مجھے دیار غیر میں حد درجہ بے چین کر دیتی ہیں ۔ ہفتہ وار اخبار "چٹان ” کے ایڈیٹر طاہر محی الدین صاحب نے ایک اہم کہانی کی اشاعت کے ذریعے، چاروں نوجوانوں کے ناموں کے پہلے حروف پر مشتمل HAJY گروپ پر روشنی ڈالی، جس نے وادی کشمیر اور اس سے باہر کے لوگوں کے دل و دماغ کو موہ لیا۔

ہندوستانی اور پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے اختلافات کے بیج بونے اور گروپ کو ختم کرنے کی انتھک کوششوں کے باوجود، اشفاق مجید وانی کی قائدانہ صلاحیتوں اور غیر متزلزل عزم نے تنظیم کو 1988 سے اپنی شہادت کے روز تک برقرار رکھا۔ ان چاروں ہیروز کے آپسی اعتماد اور اتحاد کو کمزور کرنے کی سازشوں اور کوششوں کے باوجود اشفاق مجید وانی کی مضبوط قیادت اور اجتماعی قیادت کے جذبے نے سب کو ثابت قدم رکھا۔ ان کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کی ایک مذموم کوشش کا ذکر میں اپنے ایک آرٹیکل میں کر چکا ہوں۔

اشفاق کی شاندار قیادت میں 4 ہیروز کا گروپ، جن کا نام HAJY گروپ پڑا – (H) حمید شیخ ، (A) سے اشفاق (J) جاوید میر اور (Y) سے یاسین ملک ۔ اجتماعی قیادت یہ گروپ آخری وقت تک متحد اور لچکدار کھڑا رہا۔

اشفاق مجید وانی 5 ستمبر 1966 کو سرائے بالا سرینگر میں پیدا ہوئے ۔ سرینگر کے بہترین انگلش میڈیم سکول کا یہ ہونہار طالبعلم میڈیکل ڈاکٹر بننا چاہتا تھا.مگر اپنی چھوٹی عمر میں ہی سیاست کی ایک ایسی راہ اپنائی جو منفرد تھی اور کشمیریوں کے حالات زندگی میں تبدیلی لانے اور غلامی سے چھٹکارا پانے کی راہ تھی.اللہ کریم ان کی میراث آنے والی نسلوں کو آزادی اور انصاف کی جدوجہد جاری رکھنے کی ترغیب دے۔آمین

اللہ تعالی نے اشفاق مجید وانی کو بہت سی خوبیوں سے نواز رکھا تھا ، اشفاق مجید وانی میں تنظیم کو چلانے کی قائدانہ صلاحیتیں بدرجہ اُتم موجود تھیں۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ وہ ساتھیوں سے مشورہ کے ساتھ تنظیم و تحریک کے انتظامی فیصلوں کو تنظیم کے فیصلے بنانے کا ہنر جانتے تھے۔

اشفاق مجید وانی کی 30 مارچ 1990 کو شہادت کے بعد تنظیم کی ذمہ داری یاسین ملک کے نازک کندھوں پر آ گی ۔ مگر محض پانچ ماہ بعد ہی جے کے ایل ایف کو پھر ایک امتحان سے گذرنا پڑا، یاسین ملک گرفتاری سے بچنے کی کوشش میں شدید زخمی ہو گئے ، پولیس پارٹی انہیں مردہ سمجھ کر جائے واردات سے فرار ہو گی کہ مبادا یاسین ملک کے موت کی ذمہ دار پولیس کو نہ ٹھرا دیا جائے۔

انہیں نیم مردہ حالت میں ایک قریبی دوست کے گھر منتقل کیا گیا . جہاں ہمدرد ڈاکٹروں نے یاسین ملک کو ہوش میں لایا ، پولیس ان کی زندہ یا مردہ گرفتاری کے لئیے تلاش میں نکل چکی تھی، چنانچہ اگلے روز وہ اس گھر میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئی اور یاسین ملک کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا۔ جوں یاسین ملک کو تنظیم کی سربراہی کرنے کا موقع پانچ ماہ کا ملا مگر ان پر مقدمات کی بھرمار ۔۔۔

(اور یاسین ملک آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں اور ۔۔۔۔۔۔) …اشفاق مجید وانی کی شہادت کے بعد۔ جے کے ایل ایف بطور تنظیم بہت سے امتحانوں ، اندرونی بحرانوں سے گذری ہے اور آج بھی گذر رہی ہے۔

اشفاق مجید وانی کی تنظیم کے آج کے جملہ ذمہ داران و اکابرین کو اس بات کا ضرور جائزہ لینا چاہئے کہ تنظیم نے تحریک کے حوالہ سے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے؟

ہمیں کیا کیا نہیں کرنا چاہئے تھا اور اب کیا کیا کرنا چاہئے؟

اس پر باہم مشاورت ہونی چاہیئے۔آج قافلہ آزادی ایک بار پھر ایک بڑے امتحان و آزمائش سے گذر رہا ہے۔

ایک طرف پابندیاں گرفتاریاں، باہمی شکوک و شبہات، متعین منزل سے دایں بایں مڑنے یا موڑنے کا تاثر خطرناک علامتیں ہیں ۔

آر پار تحریک و تنظیم سے وابستہ رہے سابقون الاولون سے بات کرو تو وہ حالات پر گرفت پانے میں اپنی بے بسی کا اظہار کر دیتے ہیں اور وجوہات سمجھنا کم از کم میرے لئیے کچھ مشکل نہیں۔

بحر کیف پھر بھی 2019 میں جے کے ایل ایف کے سینئر دوستوں نے مل کر عبوری کونسل آف لیڈر شپ Interim Council of Leadership تشکیل دی ۔ جو تنظیم کے اندر دھڑے بندیاں ختم کرنے اور تنظیم میں نئی روح پھونکنے کا ارادہ رکھتی تھی اسے بھی مشکلات سے گذرنا پڑا ہے۔

میرے لئیے ہی نہیں پوری قوم کے لئیے ۳۰ مارچ کی تاریخ اہم تاریخ ہے ۔ دعا کیجئے اللہ تعالی اشفاق مجید وانی ، شبیر صدیقی شہید، ڈاکٹر عبدلاحد گورو شہید جلیل اندرابی شہید سمیت سب شہدا کے صدقے کشمیری قوم کے لئیے آزمائش کے لمحات آسان بنائے ۔ کشمیر مقبول بٹ کے فرمودات کے مطابق ایک آزاد جمہوری مملکت بنے۔ جیسا کہ ہم اشفاق مجید وانی اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں پر غور کرتے ہیں، آئیے ہم ان کی مصیبت کے وقت ان کی ہمت اور فیصلوں میں پختگی اور لچک کو یاد رکھیں۔

گہرے احترام اور خراج عقیدت کے ساتھ
راجہ مظفر

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے