گھر، دفتر اور قبر : مظلومہ مقتولہ ماریہ اور منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ

صنفی تشدد کے مختلف زاویوں پر مختلف طریقوں سے کام کرتے کوئی تین دہائیوں سے زائد عرصہ ہو گیا اور اب بھی ایسا لگتا ہے کہ صرف دھیان بڑھا ‘کچھ معاملات پر کچھ خاموشی ٹوٹی کچھ قوانین نیم دلی کے ساتھ ہی سہی مگر بن گئے- کچھ کشادگی پالیسی میں لائی گئی. کچھ میدان جن میں بچیوں کا داخلہ ہونا، نا ممکن تھا ،وہاں "اجازت ہے” کا بورڈ لگ گیا. فضا کا حبس کچھ کم ہوا مگر گندی نیت اور اعمال کے گٹر بھی ابلنا دکھائی دینے لگے .

بچی ،لڑکی ، عورت اور پھر بوڑھی عورت اور اکیلی عورت اور طلاق شدہ عورت اور خُلع یافتہ عورت اور شوہر کے ہاتھوں ٹھکرائی ہوئی عورت اور طرح طرح کی مجبوریوں اور کمینگی کا شکار ہونے والی عورت کی حیثیت اور اوقات نہ بدلی . صنفی مساوات کی فہرست میں ہماری عالمی رینکنگ دیکھ لیں .

کروڑوں ڈالرز کے فنڈز پاکستان کو مہیا کئے گئے، لا تعداد ادارے این جی اوز ، سٹارٹ اپس ، کنسلٹنسی فرمز ، چیمبرز ، کنسورشیمسز اور دیگر اشکال میں یو این ، تکنیکی اور مالی امداد کرنے والے عالمی اداروں کے ساتھ اور حکومتوں کے ساتھ کام کرتے ہیں . اس دوران کچھ حاضر دماغ ، کچھ خوش نصیب (جن میں مراعات یافتہ یا کچھ مخصوص علاقوں کی خواتین / لڑکیاں بھی شامل ہیں)کو اچھے فیلّوشیپس، عہدے ، پریس ، میڈیا پبلسٹی یا طاقتور لوگوں کے ساتھ میٹنگز کرنے ، افطار ڈنرس اور نیٹ ورکنگ کی محافل میں شامل ہونے کا موقع مل جاتا ہے . دنیا داری سے واقف ان سب سے بخوبی فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں. جو صرف کام اور پڑھائی میں ہی منہمک رہتے ہیں، وہ میری اور آپ کی طرح حیران ہی ہوتے رہتے ہیں اور کسی گنتی میں نہیں آتے . لیکن مقصد سے محبّت کبھی ختم نہیں ہوتی اور نہ ہی ہونی چاہیے.

خیر خواہ کے بارہا منتنبہ کرنے کے باوجود ذہن رکتا نہیں ہے . لہٰذا اب بھی سوچ رہی ہوں، وہ باتیں جن پر کڑھنا بے سود ہے . اس لئے کہ جن کو اس طرف متوجہ ہونا چاہیے وہ سودا بیچ رہے ہیں. خواتین سے متعلقہ تمام کمیشنز ، عہدے اور مرتبے اشرافیہ کے قریب ترین لوگوں یا اشرافیہ کے ہی پاس ہیں اور اس میں دہری شہریت کے حامل بھی ہیں. اس بات پر بھی اب کوئی صحافی یا لکھاری یا قانون د ان، نہ ہی حیران نہ ہی متفکر . مفادات کا ٹکراؤ اب کوئی قابل گرفت بات ہی نہیں ہے. حقوق نسواں پر بھی خاص انداز کے افراد کو سیاست ‘ریاستی مشینری اور میڈیا میں جگہ دی جاتی ہے. بحث کی سمت محض عورت مارچ تک سمٹ گئی ہے اور بات ختم … اشرافیہ سے میرا کوئی ذاتی عناد نہیں ہے . مشکل یہ ہے کہ اشرافیہ کو عام آدمی اور عام عورت کی مشکلات کا اندازہ نہیں ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ سٹیٹس کو تبدیل ہو. المیہ یہ بھی ہے کہ غریب یا متوسط طبقات سے اگر کوئی کسی بھی طور اشرافیہ کے سرکل میں داخل بھی ہو جائے تو وہ بھی سب بھول بھال جاتے ہیں.

جب اس طرح کا ماحول ہو گا تو کس کو فکر ہو گی کہ ایک بچی ماریہ نامی ایک مظلومہ پنجاب کے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے چک نمبر” 477 جیم بے” میں کئی سالوں تک سگے باپ اور سگے بھائی سے ریپ ہوتی رہی . جب اکیس بیس سال کی عمر میں حاملہ ہوئی تو باپ نے اپنی موجودگی میں بیٹے سے اس کا گلہ گھٹوا کر قتل کرو ا دیا . 17/18 مارچ کی شب اس کو خاموشی سے دفنا دیا گیا. دوسرے بھائی نے یہ منظر فلم کر لیا اور پولیس میں رپورٹ کروادی . 27 مارچ 2024 سے تا حال سوشل میڈیا پر یہ خبر اور اس کے حوالے سے تبصرے جاری ہیں تاوقتکہ کوئی اور تازہ سانحہ یا کارنامہ اس واردات کو باسی اور بیزار نہ بنا دیں گے . اگر قاتلوں کو سزا ہو گی بھی تو کافی دیر لگے گی اور پھانسی پر ڈونرز اور ان کے خوشامدی آکٹی وسٹس برا ، مان جائیں گے .

نہ یہ پہلا کیس ہے نہ آخری . کتنی رپورٹس تو خود میں نے لکھی ہیں. سب بے سود. مائنڈ سیٹ کا یہ حال ہے کہ صنفی تشدد کے موجود ہونے کو ہی مغربی سازش تصور کیا جاتا ہے . عورت کے گھر سے نکلنے کو اور اس کے کپڑوں کو ایسے تشدد کا سبب مانا جاتا ہے . ایسے میں انسیسٹ(INCEST) جس کا پاکستانی زبانوں میں کوئی متبادل لفظ تک نہیں ہے، اس کے رائج ہونے کو ہمارا اخلاقی رعونت کا قیدی معاشرہ ماننے سے ہی انکاری ہے . بھلا ہو کافروں کی ایجاد کردہ ٹیکنالوجی کا کہ اب ایک موبائل فون سے ہی ایسی "اقدار ” کو فلم بند کیا جاسکتا ہے .

جو ، اب بھی مصر ہیں کہ جنسی تشدد جس میں انسیسٹ بھی شامل ہوتا ہے، ہمارے پاکستان میں نہیں ہوتا تو ان کو چاہیے کہ سندھ اور بلوچستان کے "کاری ” قبرستانوں کا پتا کروائیں، ‘پختون خواہ اور گلگت بلتستان میں ذہنی اذیتوں اور غیرت کو بنیاد بنا کر تشدد کے رپورٹ شدہ کیسز کا جائزہ لیں یا عورت فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر موجود تحقیقی رپورٹس پڑھیں اور اگر ایسا مشکل یا بورنگ لگے تو محترمہ تہمینہ دررانی / تہمینہ شہباز شریف کا ناول بلاسفمی جس کا اردو ترجمہ “ کفر” بھی بازار میں دستیاب ہے، وہ پڑھ لیں اس میں ایک کردار ہے،” میسنی کا” جو اپنے باپ کی ……

آگے مجھ سے لکھا نہیں جا رہا حالانکہ میں ایک ڈاکٹر ہوں، مضبوط دل رکھتی ہوں، بہت کچھ پڑھا، سنا اور دیکھا ہے مگر اب بھی کچھ جرائم ،انسانی کرتوت مجھ پر لرزہ طاری کر دیتے ہیں. میرے ایک خیر طلب کی رائے کے مطابق میری تحریر میں اکثر تسلسل نہیں رہتا . میری کیا مجال کہ ان سے اختلاف کر سکوں. جو تسلسل تھا ہی نہیں، اس سے دست بردار ہوتی ہوں اور اصلی زندگی سے نکل کر فکشن کی بات کرتی ہوں.

منٹو صاحب نے 1954 میں اپنے ایک افسانے میں ایک ایسا کردار تخلیق کیا تھا، جو بہت سوں کو رلاتا رہا ہے، اس فسانے میں طنز کی کاٹ تھی اور ایک پاگل خانے کو معاشرے کا آئینہ بنایا تھا. ہم سب اس افسانے کو ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نام سے پہچانتے ہیں اور سراہتے ہیں. منٹو صاحب ایک جادوئی افسانہ نگار تھے اور کمال فن حاصل کر چکے، تب بھی اپنے کتبے پر ایک روایت کے مطابق یہ لکھوایا تھا کہ وہ ابھی متجسس ہے کہ کون بڑا کہانی کار ہے، خدا یا منٹو ؟

پیاری بیٹی ماریہ اب اللہ کے پاس ہے شائد اس نے کبھی منٹو کو نہیں پڑھا ہوگا، شائد اس کو معلوم بھی نہ ہو کہ اس کا ٹوبہ ٹیک سنگھ کسی منٹو کا شہکار افسانہ ہے لیکن ایسا کیوں لگتا ہے کہ جب اس بیٹی کو اس کا ریپسٹ بھائی، اس کے ریپسٹ باپ کی موجودگی میں تکیے سے گلا دبا کر قتل کر رہا تھا اور اس کی سانس گھٹ رہی تھی اور اس کے بدن میں ایک فٹس (foetus) بھی قتل ہو رہا تھا اور جب اس اس بچی کی گلے کی ہڈی ٹوٹ رہی تھی اور اس مکروہ باپ نے اس مکروہ بیٹے کو پانی کی بوتل تھماتے یہ کہا ہو گا کہ پانی پی لے تو تھک گیا ہو گا تو کہیں سے منٹو صاحب نے یہ سب کچھ دیکھ لیا ہوگا ،سن لیا ہوگا . پھر انھوں نے اپنے کرشماتی الفاظ میں مالک کل کائنات سے عرض کی ہو گی کہ خدا تجھ سے بڑا کہانی کار کون ؟ ?مگر کیا یہ جتلانے کے لیے ماریہ بیٹی کو مارنا ضروری تھا؟ مگر یہ تو مجھ جیسی کی خام خیالی ہے. منٹو نے بھلا کیوں کر ایسا مکالمہ کیا ہوگا ؟ وہ تو پہلے ہی سارے راز جانتے تھے اور کبھی کبھی انسان کی شرمناک اور وحشتناک خصلت کہانیوں سے عریاں کر دیتے تھے . یقین نہیں آتا تو آج ہی ان کا افسانہ "کھول دو ” بھی پڑھ لیں.

ہماری عورت نہ پیدا ہونے سے پہلے محفوظ نہ ہی بعد میں. گھر، دفتر اور قبر تک میں عورت محفوظ نہیں . سوال یہ ہے کہ اس گھمبیر مسئلے کا حل کیا ہے ؟ تقدیر کی سفاکی سے لڑا نہیں جا سکتا اور کسی بھی آنے والی بدقسمتی کو روکا نہیں جاسکتا لیکن انسان الله کی دی ہوئی عقل کے تحت تدبیر اختیار کر سکتا ہے .

ریاست کو یقینی بنانا ہو گا کہ سو فی صد بچے تعلیم حاصل کریں اور اس تعلیم میں صحت اور جنسی استحصال کے حوالے سے بھی بات ہو. جس بچے ،لڑکے ،لڑکی ، ٹرانس فرد یا گھریلو عورت کو کسی بھی محرم یا نا محرم رشتے سے تکلیف، ڈر یا الجھن کا احساس ہو ،وہ فوراً کسی مدد کے مرکز یا فون کی ہیلپ لائن سے رابطہ کر سکے . قانون کی برتری کا یقین ہو اور قانون سب کے لیے برابر ہو. انصاف ہوتا ہوا نظر آئے . ایسا کبھی نہیں ہوگا . میں مایوسی نہیں پھیلانا چاہتی لیکن میں نے خود اپنی پروفیشنل زندگی میں اتنا کچھ دیکھا اور سہا ہے کہ مجھے کچھ اچھے کی امید نہیں رہی . پھر بھی میری اللہ سے دعا ہے کہ میں غلط ثابت ہوں اور ارباب اقتدار کو توفیق ہو کہ وہ تعلیم کو عام کر سکیں ، تولیدی صحت اور جنسی صحت کے حوالے سے معلومات کو عام کر سکیں ، تشدد سے بچنے کے لیے یا اس کو رپورٹ کرنے کے لیے جگہ جگہ متاثرین کی مدد کے مراکز قائم کر سکیں اور پولیس پر عوام کا اعتماد قائم ہو. ایک چھوٹی بچی ، ٹرانس فرد یا ایک اکیلی عورت بھی تسلی اور تحفظ کے احساس کے ساتھ تھانے میں رپٹ لکھوانے پہنچ سکے .

میری باتیں یا تجاویز شائد آپ کو دیوانے کا خواب یا بڑ بڑ لگ رہی ہوں گی لیکن میں کوئی نئی بات نہیں کر رہی . انگریزی مضامین میں اور مرے جیسے کئی "دیوانوں ” نے یہ سب کچھ پہلے بھی کہا ہے اور جب تک ہمّت رہے گی ، کہتے رہیں گے’ لکھتے رہیں گے، چاہے بڑے اخبارات اور چننلز ہم سے دور ہی رہیں.

ڈاکٹر رخشندہ پروین:

ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹرا پرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالت حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال ١٩٩٩ کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے بھی ایک آواز بن رہی ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے