سیاسی طبقے نے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ ملک میں ”جمہوریت‘‘ کے فروغ کے لیے کی جانے والی اس کوشش سے سکولوں کو محفوظ رکھا جائے گا۔ اگر حکمران اشرافیہ اور اسمبلیوں میں ان کے اتحادی جمہوریت کی مضبوطی چاہتے ہیں تو وہ اس کا آغاز سیاسی جماعتوں سے کریں، وہاں جمہوریت کی زیادہ ضرورت ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ انہیں اپنی جماعتوں کے اندر جمہوریت راس نہیں آتی‘ اور نہ ہی وہ اس بات کا تعین کر پاتے ہیں کہ کس پارٹی کا عہدہ کس کے پاس ہو‘ یا ایوان میں عوام کی نمائندگی کے لیے ٹکٹ کسے دیا جائے۔ دراصل تمام اختیارات اور عہدے پارٹی کے مرکزی قائد کی مٹھی میں بند ہوتے ہیں۔ ریاستی ادارے بھی جمہوری اقدار کے مطابق نہیں چلائے جاتے۔ اس طرح جمہوری حکمران ہونے کے باوجود اُنہیں جمہوریت سے کوئی لگائو نہیں۔ وہ عوام کو سیاسی طور پر تقویت پاتے نہیں دیکھنا چاہتے۔
جمہوریت سے بدکنے والی سیاسی اشرافیہ اور بعض تنظیمیں تعلیمی اداروں میں جمہوریت اس لیے چاہتی ہیں کہ وہ ان اداروں پر اپنا کنٹرول قائم کر سکیں اور جب چاہیں شہر کو مفلوج کر دیں۔ جب کچھ عرصہ پہلے طلبہ یونینز پر پابندی لگی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیمیں سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی رکھتی تھیں‘ اور کالج انتخابات ”سیاسی‘‘ بنیادوں پر ہوتے تھے۔ طلبہ تنظیموں پر سرمایہ کاری کی جاتی، اُنہیں بھاری فنڈز مہیا کیے جاتے، ہتھیار فراہم کیے جاتے اور قانون کی گرفت میں آنے والے طلبہ رہنمائوں کو سزا سے بچایا جاتا۔ چونکہ طلبہ رہنما اپنے اپنے علاقوں میں ایک طاقتور شخصیت بن جاتے، اس لیے سیاسی جماعتیں اُن کی طاقت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتیں۔ طلبہ تنظیموں کو پی پی پی، جماعت اسلامی، پی ایم ایل اور بعض مذہبی اور لسانی جماعتوںکی حمایت حاصل ہوتی۔ سابق دور میں ان جماعتوں نے طلبہ کی طاقت کو بہت بے رحمی سے استعمال کرتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کو دبایا‘ اور اپنے نظریات کو پروان چڑھایا۔ بادی النظر میں طلبہ کو سیاسی راہوں پر گامزن کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا‘ لیکن جس طرح اور جن مقاصد کے لیے طلبہ کو سیاسی جماعتیں استعمال کرتی ہیں، وہ یقینا جمہوری اقدار کے منافی ہے۔ ان کے ذریعے جامعات کا ماحول گھٹن زدہ ہو گیا۔ طلبہ تنظیموں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ خیبر پختونخوا سے لے کر کراچی تک سیاسی جماعتیں اپنے طلبہ ونگ کے ذریعے مظاہرے کرتے ہوئے بتاتیں کہ وہ عوام، خاص طور پر نوجوان طبقے، میں کتنی مقبول ہیں۔
سیاسی جماعتوں نے طلبہ تنظیموں پر سرمایہ کاری سے کیا حاصل کیا؟ سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں طلبہ تنظیموں کی طاقت کا مظاہرہ ایوب خان کے خلاف دیکھنے میں آیا۔ میری نسل کے طلبہ کو احتجاجی مظاہروں کے وہ دن یاد ہوں گے۔ اُس وقت طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں کو سیاسی جماعتوں کی حمایت اور پشت پناہی حاصل نہیں تھی۔ وہ دراصل سیاسی مداخلت سے بڑی حد تک پاک تحریک تھی۔ اُن دنوں گلیوں اور سڑکوں پر مارچ کرنے والے طلبہ رہنما کسی سیاسی جماعت کے عزائم کی نمائندگی نہیں کرتے تھے‘ لیکن اتفاقی مطابقت ضرور پائی جاتی تھی۔ اُس تحریک کی شدت اور اثر انگیزی نے سیاسی جماعتوں کو طلبہ کی طرف متوجہ کر دیا۔ منشور کی مطابقت نے سیاسی جماعتوں کو مخصوص طلبہ تنظیموں کو اپنی چھتری تلے لینے پر مائل کیا۔
سیاسی جماعتوں کی مداخلت سے طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں میں جدت اور تخلیقی فکر ختم ہو گئی اور نوجوان نسل کے ہاتھ میں قلم اور کتاب کی بجائے ہتھیار دکھائی دینے لگے۔ اس کے بعد ووٹ کی بجائے ہتھیاروں کی طاقت سے کیمپس فتح کرنے کی تحریک دکھائی دی‘ اور سیاسی آقائوں کی شہ پر طلبہ تنظیمیں مورچہ بند ہو کر لڑتی دکھائی دیں۔ بہت سے نامی گرامی ڈان ان کی صفوں سے ابھرے، دہشت پھیلائی، سرمایہ کاری کرنے والوں کے سیاسی مقاصد پورے کیے، حریفوں کو ٹھکانے لگایا، لیکن ہم نے کسی کے خلاف قانون کو حرکت میں آتے نہ دیکھا، اور جب اُن کی ضرورت نہ رہی، یا وہ سیاسی جماعت کے لیے خطرہ بنتے دکھائی دیے تو کسی مبینہ پولیس مقابلے میں پار کر دیے گئے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا‘ ہمارے شہروں کی دیواریں بہت سے طلبہ ”شہدا‘‘ کے پیغامات سے سیاہ تھیں۔ ان طلبہ رہنمائوں کی طاقت کے سامنے عام طلبہ، حتیٰ کہ کالج انتظامیہ بھی بے بس تھی۔ کراچی، لاہور، پشاور اور دیگر بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں کے ”صدر‘‘ بے پناہ طاقت رکھتے تھے۔
مجھے یقین ہے کہ جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔ اسے گراس روٹ لیول سے ہی پروان چڑھانا چاہیے۔ تسلیم کہ طلبہ تنظیموں کے لیے ذریعے بھی جمہوریت کی آبیاری کی جا سکتی ہے، لیکن افسوس، ہمارا ماضی کا تجربہ بہت تلخ ہے۔ طلبہ تنظیموں کو سیاسی جماعتوں کے ونگ نہیں بننا چاہیے، لیکن اس کے سوا سیاسی اشرافیہ کا اور مقصد کیا ہے؟ کیا ہم ایک مرتبہ پھر اپنے کیمپسز کو میدان جنگ میں تبدیل ہوتے دیکھنے والے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ دنیا