کم عمر مسیحی دلہنیں اور انگریز دور کا قانون

"یہ انگریز دور میں بنایا گیا قانون ہے، جس کے تحت بچیوں کی شادی کم عمری میں کی جا سکتی ہے لیکن کیتھولک فرقہ شناختی کارڈ کو دیکھ کر ہی شادی کی رسومات طے کرتا ہے البتہ دیگر فرقوں میں یہ رسم ابھی تک چل رہی ہے”۔

یہ بات سونیا پطرس نے مسیحی عائلی قوانین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہی جو کہ فیصل آباد میں عوام (ایسوسی ایشن آف ویمن فار اویئرنیس اینڈ موٹیویشن) میں پروگرام کوآرڈینیٹر کے طور پر کا م کررہی ہیں.

برصغیر پاک و ہند میں شادی کا بندھن بندھ جانا نہ صرف دو افراد بلکہ خاندانوں کا ملن مانا جاتا ہے، جس کی وجہ سے لڑکا اور لڑکی کی شادی کا فیصلہ اکثر خاندان کے بڑے ہی کرتے ہیں بلکہ شادی شدہ جوڑوں کی زندگی اورفیصلوں میں بھی زیادہ ترفیملی کے معززین ہی شامل پائے جاتے ہیں. ایسے میں ذہنی مطابقت نہ ہونا، آپسی محبت کے بغیر صرف سمجھوتے پر زندگی گزارنا بھی شامل ہے، جس کا زیادہ تر شکار خواتین ہی بنتی ہیں، جو خاندانوں کی نام نہاد عزت کا پاس رکھتے ہوئے اپنی شادی شدہ زندگی گزارتی ہیں .

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی 42 سالہ کومل لاہور میں نجی کمپنی میں ملازمت کرتی ہیں. اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ وہ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھیں، پڑھنے لکھنے کی شوقین تھیں لیکن گھر کے بڑوں کے کہنے پر والدین نے ان کی محض 14 سال کی عمر میں چرچ لے جاکر شادی کردی تھی جبکہ اس عمر میں اور بھی کئی بچوں اور بچیوں کی شادیاں ہوئیں. ان کا مزید کہنا تھا کہ گزرے سالوں میں ان کی اپنے شوہر سے ذہنی مطابقت نہ ہو سکی، جس کے باعث ہم دونوں نےعلیحدگی اختیار کرلی. وہ بیرون ملک چلے گئے اور میں اب محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کو ماں باپ دونوں بن کر پال رہی ہوں. کومل کے مطابق اگر ان کی شادی کچھ سالوں بعد ہوتی تو شاید یہ شادی دیرپا اور خوشگوار ہوتی تو وہ بھی بغیر کسی دقت کے اپنے گھر میں سکون سے رہ رہی ہوتیں. ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں خاص کر مذہبی رہنماؤں اور حکومت کو اقدامات اٹھانے چاہیئیں تاکہ خواتین خودمختار بھی ہوں اور شادی شدہ زندگی کو بھی بھرپور گزار سکیں ۔

پنجاب بیورو آف اسٹیٹکس 2023 کی رپورٹ کے مطابق ضلع فیصل آباد میں 2 لاکھ 64 ہزار 677 مسیحی آباد ہیں ۔ جن کے عقیدے مختلف فرقہ جات سے جڑے ہوئے ہیں ۔ مسیحی کمیونٹی کے مطابق پروٹیسٹنٹ و دیگر فرقوں میں اس قانون کو اب بھی ثانوی حیثیت حاصل ہے. جس کے مطابق لڑکی کی 13 سال کی عمر میں شادی کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ شادی صرف چرچ کی حدود میں کی جائے گی اورسورج ڈھلنے سے پہلے نکاح کیاجائے گا۔

پنجاب کے قانون کے مطابق شادی کے وقت لڑکی کی عمر 16 سال اور لڑکے کی 18 سال مقرر ہے۔ جبکہ دیگر صوبوں میں لڑکے اور لڑکی دونوں کی عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے۔ لیکن عمر کے معاملے میں مسیحی کمیونٹی کے فرقہ جات میں اختلاف پایاجاتا ہے۔ جس کے باعث انہیں کئی بار دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ریلوے روڈ پر واقع کیتھولک چرچ بشپ ہاؤس میں فادر کی خدمات سرانجام دینے والے خالد فاروق آسی نے چرچ کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ دو چیزیں کبھی نہیں بدل سکتیں، یہ اٹل ہیں، جسے خدا نے جوڑا ،اسے انسان جدا نہ کرے، یہ بائبل کا فیصلہ ہے.یہ عہد نہ ٹوٹنے والا بندھن ہے. دوسرا یہ کہ عمر اتنی ہی رہے گی کیونکہ یہ کینن لاء ہے. کینن لاء کیتھولک چرچ کے قواعد و ضوابط کا قانون ہے، جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہے، حالات و واقعات کے مطابق کچھ بھی تبدیل ہوسکتا ہے لیکن اس میں بدلاؤ نہیں آسکتا ۔ ان بچوں کے والدین و سربراہ اگر راضی ہیں تو قاعدے سے ان کی شادی کردی جائے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میڈیااور موجودہ حالات نے بچوں کو وقت سے پہلے بالغ کردیا ہے، اب اگر تبدیلی آتی ہے تو اوپر سے آنی چاہیئے جو پاپائے اعظم اور مجلس فیصلہ کرے گی۔ دوسری بات یہ کہ اس میں مذہب و کلچر کی ویلیو بھی دیکھی جاتی ہے جیسے کئی علاقوں میں پیدا ہوتے ہی شادی کردی جاتی ہے، رخصتی بعد میں ہوتی ہے۔

بطور انسانی حقوق کے دفاع کار ان کا کہنا تھا کہ جس طرح 18 سال کی عمر میں شناختی کارڈ بنتا ہے، کم عمر ہو تو نہ کوئی ڈرایئونگ کرنے دے گا نہ نوکری ملے گی، تو جب ان چھوٹے معاملوں میں ایساہے تو جہاں زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ ہورہا ہے، وہاں کیوں نہیں ؟ میں اس کی حمایت میں نہیں ہوں کہ 18 سال سے کم عمر ہو۔ ہم کسی کو کہیں بھی کیا لوگ شاد ی کروالیتے ہیں، بعد میں پتا چلتا ہے کہ وہ کم عمر ہے، دیکھنے میں بڑی لگتی ہے۔

مسیحی ایڈووکیٹ شاہد انور کا بطور وکیل کہنا ہے کہ یہ ڈیڑھ سو سا ل پرانا قانون ہے، تب حالات و واقعات لوگوں کے زندگی گزارنے کا طریقہ اور تھا اتنی دیر کوئی چیز پڑی رہے تو خراب ہوجاتی ہے تو یہ بھی بوسیدہ قانون ہے. اسے تبدیل ہوجانا چاہیئے اور اس میں جو عمر کا تعلق ہے تو اس میں 13 سال لکھا ہوا ہے لیکن والدین اور سرپرست کی مرضی شامل ہو۔ شادی سے پہلے جس چرچ کے قریب بچہ یا بچی رہتا ہے وہاں دوران عبادت پکاریں دی جاتی ہیں. جو تعداد میں 3 ہوتی ہیں اور ہر ماہ ایک پکار ہوتی ہے تاکہ اگر کوئی مسئلہ یا رکاوٹ ہو تو وہ دور کی جاسکے لیکن اگر کوئی جوڑا بھاگ کر شادی کرتا ہے ، کورٹ میرج کرتا ہے تو ہمارے نکاح خؤاں چند پیسوں کے لالچ میں کم عمر بچوں کا نکاح بھی کروادیتے ہیں . ہم نے لاء آف لینڈ کو بھی دیکھنا ہے، ریاستی قوانین کو بھی دیکھنا ہے. اسلئے کم عمری کی شادیوں پر چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے. یہ نکاح خؤاں کو اس وقت خود دیکھنا چاہیئے، ان کا سکول یا کوئی سرٹیفکیٹ کوئی شناختی چیز دیکھیں کہ ان کی عمر کیا ہے کہ یہ میجر ہیں، مائنر نہیں لیکن یہ چیزیں تب قابو ہوں گی، جب ان پر مؤثر قانون سازی ہوگی. ہمارے ہاں تو صوبوں میں طے کی گئی عمر میں فرق ہے. پنجاب میں لڑکی کی عمر 16 اور لڑکے کی 18 سال ہے. باقی صوبوں میں دونوں کی 18 سال ہے تو قانون میں اتحاد و اتفاق ہونا چاہیئے .

پروٹسٹنٹ فرقہ سے تعلق رکھنے والی سماجی ورکر کنول وکٹر بھی کلیسا کے زیر اہتمام سماجی کاموں میں حصہ لیتی ہیں. ان کا کہنا ہے ،مسیحی عائلی قانون کے مطابق بچی بالغ و سمجھدار ہوتو اس کی شادی کردی جائےلیکن تب اور اب کے دور میں بہت فرق ہے. میرے شوہر پاسٹر ہیں، وہ ایسے نکاح کیلئے منع کردیتے ہیں، جن کا شناختی کارڈ نہ بنا ہو لیکن دوسرے کئی پاسٹر ایسی شادی کروادیتے ہیں. کئی کم پڑھے لکھے افراد لاعلمی میں یا پیسوں کے لالچ میں کم عمری کی شادی کردیتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیئے. ہم چاہتے ہیں لڑکی و لڑکا کی عمر 18 سال ہو شناختی کارڈ بنا ہو تو اس کی شادی کی جائے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے