حسیب اقبال سماجی ہیرو

انسان اللہ تعالی کی مخلوقات پر اس کا نمائندہ اور جانشین ہے، جو الہی صورت میں خلق ہوا ہے اور وہ حق کی سرزمین پر تصرف کرتا ہے۔انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر دنیا میں موجود تمام مخلوقات پر فضیلت دی گئی ہے۔اللہ تعالی نے اس دنیا میں اچھے برے ہر طرح کے انسان بھیجے ہیں لیکن اس نفسا نفسی کے دور میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو حساس اور ہمدرد دل کے مالک ہیں۔ جو انسانی حقوق کے علمبردار ہیں۔

انسانی حقوق آزادی اور حقوق کا وہ نظریہ ہے، جس کے تمام مسلم اور انسانِ ایمان یکساں طور پر حقدار ہیں۔اس نظریہ میں وہ تمام اجزاء شامل ہیں جس کے تحت کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسان یکساں طور پر بنیادی احتیاجات اور سہولیات کے لحاظ سے حقوق کے حق دار ہیں۔

پاکستان میں ایسی بہت ساری تنظیمیں ہیں، جو انسانی حقوق کے لیۓ دن رات انتھک محنت اور جدوجہد کرہی ہیں. ان تنظیموں کے علاوہ بہت سارے ایسے لوگ بھی ہیں، جو انفرادی طور پر انسانی حقوق اور خدمت خلق کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔جن میں بہالپور کے ایک نوجوان سوشل ایکٹیوسٹ حسیب اقبال صاحب بھی شامل ہیں۔

خدمت خلق سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کرنا، اس میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ جانور بھی شامل ہیں۔ خدمت خلق میں بنیادی بات یہ ہے کہ خدمت محض خدمت کے جذبہ سے ہو اس میں کوئی ذاتی غرض نہ ہو۔ شہرت، دکھلاوا ،اور نام و نمود شامل نہ ہو، داد تحسین، لوگوں کی واہ واہ مقصود نہ ہو۔

حسیب اقبال صاحب کا شمار بھی ایسے ہی خدمت خلق کے مالک انسانوں میں ہوتا ہے. آپ نہ صرف بہاولپور اور پاکستان کے دیگر شہروں میں انسانی حقوق کے لیۓ کام کر رہے ہیں بلکہ بیرون ملک بھی جاکر آپ نے انسانی حقوق کے لیے اپنی آواز بلند کی ہے۔

حسیب اقبال صاحب ایک رحم دل رکھنے والے سوشل ایکٹوسٹ ہیں، جو اپنی نرم زبان و لہجے اور اعلی اخلاق حسن سلوک کے مالک ہیں۔آپ بہت محنتی اور مشکل حالات کا بہادری سے لڑنے والے سوشل ایکٹویسٹ ہیں۔

انھوں نے بین المذاہب ہم آہنگی پہ بھی کام کیا ہے اور اس کے لیۓ آواز بھی اٹھائی ہے۔ جبکہ بین المذاہب ہم آہنگی پہ آواز اٹھانا بہت مشکل کام ہے، کیوں کہ ایسا کرنے پہ مختلف رویوں کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔لیکن حسیب صاحب نے بہادری کے ساتھ ثابت قدم رہتے ہوئے اپنے طے کیے ہوئے راستے پر سفر کرتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول کی منازل طے کی ہیں اور انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھانے کے مشن کو کامیابی سے طے کر کے اپنی منزل کی طرف گامزن ہیں۔اس سفر میں ان کے بہت سے قریبی دوست احباب نے بھی ان کی بڑی حوصلہ افزائی کی اور مشکل حالات میں ساتھ دیا اور ان کے جب بھی قدم ڈگمگائے ان کا سہارا بن کے سنبھالا اور ہمت بندھائی۔

حسیب صاحب اپنے بلند حوصلے اور ہمت کی وجہ سے ہی یہ سنگ میل طے کرسکے۔انھوں نے آٹھ ممالک کا سفر کیا بے، شمار ایوارڈز اپنے نام کے ساتھ منسوب کروائے۔جن میں ہیومن رائٹس 2022 کا ایوارڈ قابل ذکر ہے۔آپ نے بہت سارے ممالک میں جا کر انسانی حقوق کے بارے میں کام کیا ہے لیکن وہ اپنے افریقہ کے سفر کے بارے میں ایک دل سوز واقعہ اکثر سناتے ہیں کہ میں نے صحیح معنوں میں غربت افریقہ کے ممالک میں دیکھی ہے۔

وہاں میں نے ایک خاتون اور اس کے بچوں کو دیکھا کہ اس خاتون کے پاس ایک مرغی کا ٹکڑا تھا جو اس نے اپنے آٹھ معصوم بچوں میں بھی تقسیم کیا اور خود بھی اسی میں سے کھا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔جب کہ میں اپنے ملک میں بہت سی جگہ رزق کی بربادی ہوتے دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے اور وہ لوگ یاد آتے ہیں جو غربت سے بھی نیچے کی لکیر میں اپنی زندگی کے دن بسر کر رہے ہیں اور ہم لوگ اتنے ناشکرے ہیں کہ اللہ کی حاصل کردہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتے ہیں۔بلکہ رزق ضائع کرکے نعمتوں کا ضیاع کرتے ہیں۔

حسیب اقبال صاحب انسانی حقوق کے لیے کام اپنا ایمان سمجھ کر کرتے ہیں اور اپنے نوجوانوں کو بھی کہتے ہیں کہ آئیں مل کر امن، انسانی حقوق اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کام کریں. لوگوں میں محبتیں بانٹیں اور نفرتوں کو نکال باہر کریں تاکہ اللہ تعالی اس کے رسولُ اللّٰهﷺ کی خوشنودی حاصل کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے