کہانی محبت کی؛”پاکستانی” اور بنگالی مشہور شخصیات

ایک دوست نے ایک مَرتَبَہ میری پروفیشنل زندگی کا تجزیہ کرتے ہوئے تاسف کا اظہار کیا کہ میں اپنے تخلیقی اور جدّت پسند خیالات اور کئی مہارتوں کے باوجود کامیابیوں کی ان منزلوں پر نہیں پہنچ سکی جو فی زمانہ قابل رشک جانے جاتے ہیں جیسے سینیٹر بننا ، سرکاری ایوارڈز /اعلی ملازمت حاصل کرنا وغیرہ . پھر خود ہی اس کی وجوہات بیان کیں جن میں خرابی تقدیر سے جڑا نسلی و لسانی میک اپ تو تھا ہی اس کے علاوہ میری کمزوری یعنی نیٹ ورکنگ نا کرنے کا ہنر آنا یا مکھن کا جادو نا سیکھنا بھی شامل تھا . پھر یہ بھی فرمادیا کہ ایسی پروڈکٹ بیچو جو بہت منفرد ہو اور اس کی افادیت نظر آئے یا ایسے بیچو کہ کہ سب خریدنے پر مجبور ہو جائیں . اپنی کمیوں کا اعتراف ہے – جو حاصل ہوا ،وہ رب کریم کا کرم ہی ہے . ورنہ "ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے- بے سبب ہوا غالب دشمن آسمان اپنا .”

یہ کچھ آپ بیتی اس لئے بیان کی کہ آپ میں سے کچھ اس میں اپنی زندگی کی جھلک دیکھ سکیں. روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں ای میلز اور فون کالس موصول ہوتی ہیں. غیر اشرافیہ نوجوان اور ادھیڑ عمری کی جانب بڑھتی ہوئی خواتین سے ان کی ہنرمندی اور بیروزگاری کا قصہ سنتی ہوں. مارے ندامت کے کھل کر بتا نہیں سکتی کہ جس سے مدد یا مشوره مانگ رہے ہو وہ خود بھی حالات کی ماری ہوئی ہے. اللہ پردہ رکھتا ہے ، ہمّت دیتا ہے . خود بھی محنت اور حوصلے سے زندگی گزاری ہے اور یہی بات آگے کر تی ہوں. کچھ مان جاتے ہیں، کچھ جان جاتے ہیں .ایسے بھی ہیں جو صرف برا مان جاتے ہیں . میں سب کے لئے دعا گو ہوں . دل کا رنج بڑھتا جا تا ہے .

سفارش کلچر اور بدیانتی نے ملک کے ہر ڈیپارٹمینٹ کا ستیاناس کر دیا ہے. اس لئے تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ انسانی ترقی کی رینکنگ میں وطن ہمارا بہت تنزلی کا شکار ہے . سماجی انصاف کی بات بہت کم سننے میں آتی ہے . منصفوں اور وکیلوں کی حالت اور قابلیت دونوں ہی کوئی راز نہیں ہیں . میڈیا نے رینکنگ اور ریٹنگ کو عام الفاظ اور تصور بنا دیا ہے . اور حاصل تمنا بھی . انسانی حقوق ، غریبوں کے حقوق ، مستردشدہ لوگوں کے حقوق پر سوچنے اور سمجھنے سے کہیں زیادہ صحافیوں یا صحافی نما نمایاں افراد کے ٹی وی شو یا یو ٹیوب پر ولوگس پر بحث ہوتی ہے . برانڈنگ عاشقی کی طرح مشکل، صبر آزما اور وقت طلب ہے چنانچہ زور اور توجہ مارکیٹنگ پر رہتی ہے . جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے لہٰذا سارا دھیان بکاؤ دکھائی دینے پر ہے.

سنجیدہ گفتگو اور مکالمے سے گریز بلکہ بیزاری کا یہ عالم ہے کہ میری ہم عمر کیا بلکہ کہیں سینئر خواتین کا یہ حال ہوگیا ہے کہ دانشمندی کے موتی بھی ٹک ٹوک پر ناچ ناچ کر گا گا کر یا میلو ڈرامیٹک ہو کر بکھیر رہی ہیں. ” یہ عالم شوق کا دیکھا نا جائے. "مرد حضرات کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ ان کی دادگیری تو مسلم ہے ہی . خدارا، اس تجزیئے کو میری ٹیکنالوجی سے دشمنی نہ سمجھ لیں .

سوچتی ہوں کہ اگر انسانی زندگی کی ترقی کی طرح انسانی سانحات کی بھی رینکنگ یا ریٹنگ ہوتی تو پاکستان میں کن المیوں کو اس فہرست میں جگہ ملتی ؟ میری اپنی دانست میں کچھ سمجھوتے اور کچھ بے حسی کو اس فہرست میں جگہ ملنی چاہیے . مثال کے طور پر سماجی انصاف اور شہری حقوق کے حوالوں سے بچوں ، بچیوں اور خواجہ سرا کمیونٹی اور کئی اقلیتوں کے ساتھ جاری ظلم اور اس پر ریاست کی خاموشی یا نیم دلی سے کیے جانے والے ایکشن جن میں میڈیا پر دھوم مچاتے ہوئے بیانات بھی شامل ہیں . یہ سانحہ, المیہ, آفت نہیں تو کیا ہے کوئی ڈارک ناٹک ؟– کہ ان حساس موضوعات پر اکثر صحافت یا اکٹویسٹس کا لبادہ اوڑھے سنسنی پھیلانے والوں/ والیوں کو اجرت ،شہرت ، شہریت (غیرملکی ) یا مقبولیت مل جاتی ہے مگر مظلوم یا اس کا خاندان انصاف یا تحفظ سے محروم ہی رہتا ہے . سیاست اور فارن پالیسی کے عدسے سے دیکھیں تو ملک کا ٹوٹ جانا اور اس کو سانحہ بھی نا سمجھنا اور احساس زیاں کی عدم موجودگی سے بھرپور ایک نصاب اور ایک بھربھری فارن پالیسی کا ہونا ہے.

جو قارئین میرے کالم مستقل مزاجی سے پڑھتے ہیں اور سمجھ کر پڑھتے ہیں ان کو "خیرخواہ” سے واقفیت ہو چلی ہے . اور وہ ان کے ممکنہ درجات اور کمالات سے سے بھی آشنا ہوتے جارے ہیں. جن کو نہیں پتا وہ یہ سمجھ لیں کہ وہ میرا سینسر بورڈ ہیں . ان کے مطابق مجھ کو اس عید کے بعد اس تحریر کو سنگین بنانے کے بَجائے رنگین رکھنا چاہیے .

راقمہ کی خیر سے پی ٹی وی کی تربیت ہے . قبلہ بدلنے کی پراکٹس ہے. ویسے بھی صحافتی کہاوت ہے کہ کھال بچی گی تو کہانی سنا سکوں گی اور ڈاکٹری کہاوت ہے کہ جان ہے تو جہاں ہے.. قصّہ مختصر آپ سے گزارش ہے کہ میرے ساتھ مل کر مبارک دیں اس ستارے کو جس کو جھرنا سے شبنم پاکستان نے بنایا مگر وہ اب بنگلادیشی ہیں تب بھی پاکستان نے امسال ان کی پاکستانی فلم انڈسٹری میں خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کو ستارہ امتیاز دیا ہے . پاکستان کو فن اور آرٹ کے حوالے سے اکثر تنگ دل ناقدین دقیانوس گردانتے ہیں . کتنی عجیب بات ہے کہ اسی پاکستان میں کئی بنگالی فنکار جیسے مایہ ناز موسیقار آنجہانی رابن گھوش ، فلم اسٹار عبدالرحمان مرحوم ، گلوکارہ رونا لیلیٰ ، فردوسی بیگم اور مرحومہ شہناز بیگم نے مقبولیت حاصل کی اور ہماری محبّت بھی. 1971 کے بعد جب گلوکار عالمگیر یا نادرہ بیگم ( جن کو مننی بیگم کے نام سے پہچان ملی) جب اپنے بنگلہ دیش کے خراب معاشی حالات کی وجہ سے پاکستان آگئے تو پاکستانیوں نے ان کے ٹیلنٹ کی بھرپور پذیرائی کی. یہ تو صرف شو بز یا انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے چند نام ہیں. میدان سیاست سے بھی کئی نام ھیں جو پاکستان میں با عزت طور پر رہے اور کامیابی حاصل کی.

دوسری طرف محب وطن پاکستانیوں جن کو عرف عام میں بہاری کہا جاتا ہے، کی بے گور بے کفن لاشوں کو بنگالی بنا کر پیش کرنے والے ہیں. پاکستان مخالف پروپوگنڈا کرنے والوں کے جھوٹ کو تسلیم کرنے والے کئی پاکستانی چہروں کو حقوق کی پاسداری اور انسانیت کے نام پر بنگلہ دیش نے ایوارڈز دیئے . جو بنگالی ملک ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ڈٹے رہے ان کو بھی غدّار قرار دے کر پیرانہ سالی میں سولی پر لٹکایا گیا .اور پاکستان خاموش رہا یا کچھ نہ کر سکا یا کچھ خاص قوتوں نے متناسب رد عمل دینے سے روک دیا . ریاست کی فہم و فراست میں کیا جانوں ؟ صرف کچھ دلوں میں کشادگی کی کمی ہی نہیں بلکہ اور بھی مضمرات ہوں گے کہ پاکستان سے غیر مشروط محبّت کرنے والے بہاریوں کو جن کی نسل کشی بھی ہوئی ان کو بے سائبان چھوڑ دیا گیا ؟

پوری دنیا میں بنگلہ دیش پاکستان کو ناکردہ جرائم میں بھی ملوث کرنے میں کوشاں ہیں . ان حربوں کی نزاکت کو میں کیا جانوں ؟ مجھ کو صرف یہ معلوم ہے کہ لوگوں کی زبانی تاریخ اس تاریخ پر اولیت /فوقیت رکھتی ہے جو درباری لکھتے ہیں چاہے ان کا عہدہ کسی بھی بڑی یونیورسٹی میں پروفیسر کا ہو یا وہ فنڈڈ تھنک ٹینک کے بانی ہوں یا روح رواں یا وہ کسی بھی مملکت کے ٹھیکے دار ہوں. شائد پاکستان کے کے نصیب میں دکھ ہے اور خمیر میں محبّت شائد پاکستانوں کی ایک کثیر تعداد جو معصوم ہے اور امن پسند ہے. اس کے صدقے اللہ نے اس ملک کو چند لٹیروں اور بدنیت طاقتور افراد کے ہر دور میں اور ہر شعبے میں ہونے کے باوجود کسی صورت قائم رکھا ہوا ہے اور رکھے گا. محبّت ایک طاقت ہے مگراس کو حماقت کا مترادف نہیں ہونا چاہیے . مفاہمت ضروری ہے مگر عزت اور عدم مساوات کی قیمت پر نہیں . برٹند رسل نے کہا تھا کہ اگر امن وقار کے ساتھ نہیں تو پھر وہ امن نہیں کہلاتا . ملکوں کے مابین معاملات اور دو عاشقوں کے درمیان تعلق یکساں نہیں ہوتے . امن کا پیغام باہمی احترام پر مبنی ہونا چاہیے .

سوہنی دھرتی الله رکھے- قدم قدم آباد تجھے

ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے بھی ایک آواز بن رہی ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے