خواتین کی تولیدی صحت کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کوئی نہ کوئی، کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا ہے۔ لیکن حقیقی زندگی میں اس کا اثر یا تو کم ہوتا ہے یا سرے سے نظر ہی نہیں آتا ۔اس میں صرف گاؤں دیہات نہیں بلکہ شہر بھی شامل ہیں. خاص کر خواتین کی صحت کے معاملے میں ماہواری کی بات کی جائے تو مرد تو درکناراکثر خواتین بھی اس پر بات کرنا مناسب نہیں سمجھتیں بلکہ اپنی روایات اور صدیوں سے چلتی آرہی معلومات کو ہی حرف آخر مانتی ہیں۔
ماہانہ ایام، ماہواری، پیریڈز یا جو بھی علاقائی نام ہوں ،خواتین بہرحال ان سے واقف ہیں اور ان دنوں میں مختلف تکالیف اورجذباتی بدلاؤ سے نبرد آزما بھی ہیں، ڈاکٹر ماہین گذشتہ 20 سال سے خواتین کے امراض کا علاج کررہی ہیں. ان کا کہنا ہے کہ روز ایسی بچیاں ان کے کلینک میں آتی ہیں جو اپنی ماہواری کے حوالے سے مختلف پچیدگیوں کا شکار ہوتی ہیں اور مائیں انہیں گھریلو نسخوں سے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتی ہیں. جب معاملہ بگڑ جائے تو ان کے پاس لایا جاتا ہے لیکن اکثر بچیاں اول تو شرم کے مارے گھر میں بات نہیں کرتیں اور اگر انہیں کچھ بتانا بھی پڑے تو جھجھک کے باعث کھل کا اپنی تکلیف کا اظہار نہیں کر پاتیں ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے پاس آنے والی بچیوں میں اکثر ہارمونز ڈسٹربنس یا پی- سی- او -ایس یعنی پولی سسٹک اووریز سنڈروم کا شکار ہوتی ہیں۔جس کی وجہ سے انہیں بالوں کے جھڑنے اور جسم پر زیادہ بالوں، موٹاپے یا دیگر بیماریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ جو نہ صرف انہیں ذہنی و جسمانی پریشانی میں مبتلا کرتا ہے بلکہ ان کی خود اعتمادی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ لیکن شدید علامات ظاہر ہونے پر ہی انہیں کلینک لایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر رجا کے مطابق آج کل کے جدید دور میں ادویات کے ساتھ ساتھ متوازن خوراک بہت ضروری ہے. جس میں کیمیکل اور مصنوعی کھادوں کا استعمال کم کیا گیا ہو، جس سے بچیاں کئی امراض سے محفوظ ہو سکیں گی۔
نجی کالج میں لیکچرار زیب النسا کا کہنا ہے کہ ہم بچیوں کو اس حوالے سے بنیادی چیزوں خاص کر صفائی ستھرائی اور مسائل کا سمجھاتے ہیں لیکن یہ اب بھی ممنوعہ موضوع ہے. جس پر زیادہ کھل کر بات نہیں کی جاتی، خاص کر گھروں میں جہاں بڑی بوڑھی خواتین کے سامنے اس موضوع کو چھیڑنا ایک انتہائی معیوب عمل مانا جاتا ہے۔ جس کے باعث بچیاں اپنے مسائل کو نہ صرف خود تک محدود رکھتی ہیں بلکہ کئی بار تکالیف بھی نہیں بتا پاتیں ۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ بچیوں کو بنیادی معلومات، صفائی ستھرائی کی تاکید کرتی ہیں اور سینٹری پیڈز یا سینٹری نیپکن کے استعمال کا مشورہ دیتی ہیں لیکن کئی دفعہ انہیں گھر سے اجازت نہیں ملتی یا مہنگائی کے دور میں وہ اس ضرورت کو پورا نہیں کر پاتیں اور روایتی پرانے کپڑے ہی کارآمد بناتی ہیں۔ اس کے لئے ماؤں کو چاہیئے کہ بچیوں کو اعتماد میں لیکر انہیں نہ صرف نئی تبدیلیوں سے روشناس کروایئں بلکہ اپنی بھرپور مدد اور حوصلے کی یقین دہانی بھی کروایئں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا ماننا ہے کہ ایسا رویہ عموما بہت کم ہے زیادہ تر بچیاں سوشل میڈیا ، یا ساتھی لڑکیوں سے ہی نئی چیزیں سیکھتی ہیں ۔ جس سے کئی بار صرف مفروضوں کو بھی حقیقت مان لیتی ہیں۔
یونیورسٹی کی طالبہ رمشا پی سی او ایس کا شکار ہیں اورایک عرصہ سے ڈاکٹر سے دوائی کھارہی ہیں لیکن اب اس کے ساتھ وہ اپنی خوراک کو متوازن کرکے بڑھتے وزن پر قابو پارہی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں اگر کوئی مسئلہ ہو تو پہلے گھریلو ٹوٹکوں پر عمل کیا جاتا ہے اور خاطر خواہ نتائج برآمد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ اگر ڈاکٹر کے پاس جایئں تو وہ ادویات کا بڑا پلندہ ہمراہ کردیتی ہیں جو اس کے علاج کے ساتھ دوسری کئی بیماریوں کو بھی خوش آمدید کہتا ہے جبکہ دنیا میں مختلف تحقیقات اور علاج اپنائے جارہے ہیں. جو ہمارے تک پہنچنے بہت ضروری ہیں ورنہ مایئں گھریلو علاج اور ڈاکٹر روایتی دواؤں سے ہی چلتے رہیں گے اور بیماری وہیں کھڑی رہے گی۔
اس حوالے سے سب کی رائے اپنی جگہ لیکن ہم ابھی بھی نئی نسل کو اس بارے میں عمر کے پہلے حصے میں بنیادی شعور مہیا نہیں کر پاتے، جس سے نوعمر بچیاں جسم میں آتی نئی تبدیلیوں کو جان نہیں پاتی ہیں اورجلد گھبرا جاتی ہیں کیونکہ خواتین کے ماہواری کے نظام اور اس سے جڑی مختلف روایات گھروں میں معمول کا حصہ ہیں جنہیں جدید سائنسی دور بھی اس تیزی سے نہیں بدل سکا .جتنی رفتار سے زمانے نے ترقی کی منازل طے کی ہیں ۔