میرا فلسفی ’دوست‘ کارل پوپر

مجھےاچھی طرح یاد تو نہیں کہ فلسفے کی لَت کیسے پڑی ، شاید علی عباس جلال پوری کی کوئی کتاب ہاتھ آ گئی تھی،شروع شروع میں زیادہ سمجھ تونہیں آئی البتہ چند بنیادی نوعیت کے تصورات ضرور ذہن میں بیٹھ گئے ، اُس کے بعد جب بھی کتابوں کی کسی دکان یا میلے میں جانا ہوتا تو دو چار فلسفے کی کتابیں ضرور خرید لاتا ۔اِس کا فائدہ یہ ہوا کہ وقت گزرنےکے ساتھ ساتھ اچھی خاصی کتابیں اکٹھی ہوگئیں ۔اب یہ حال ہے کہ گھر میں آنے جانےوالوں کی نظر جب اِن کتابوں پر پڑتی ہے تو وہ خاصے متاثر ہوجاتے ہیں اور میرے بارے میں اُن کی رائے کچھ بہتر ہوجاتی ہے، لفظ ’کچھ‘پر زور ہے تاہم یہ میرا حسنِ ظن بھی ہوسکتا ہے ۔

دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ فلسفے کی کتابوں کوپڑھنا بھی پڑا ،جن کی زبان مشکل تھی انہیں چُوم کر پرے رکھ دیا اور جس لکھاری نے ہم جیسے عامیوں کیلئے فلسفے کو آسان زبان میں لکھا تھا اسے گلے سے لگا لیا۔تیسرا اور اصل فائدہ یہ ہوا کہ سوچنے سمجھنے کا انداز یکسر بدل گیا ، جن باتوں کو میں پہلے بغیر کسی پڑتال کےتسلیم کر لیا کرتا تھا اور اُن کا دفاع کرنے کیلئے کرپان نکال لیا کرتا تھا ، فلسفہ پڑھنے کے بعد اُن باتوں کا کھوکھلا پن مجھ پر آشکار ہوگیا۔غالباً سنیکا نے کہاتھا کہ اگر آپ زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو کسی فلسفی کو اپنا دوست بنا لیں اور اُس کا طریقہ یہ ہے کہ اُس کی کتابیں پڑھنا شروع کردیں ۔یوں میری دوستی بہت سے فلسفیوں ہو گئی جن میں سے ایک کارل پوپر ہے ۔ پوپر سے میری دوستی کا اندازہ اِس بات سے لگالیں کہ میں پہلے بھی ایک آدھ مرتبہ اِن کے بارے میں لکھ چکا ہوں مگر دل نہیں بھرا۔آج اُن کی دو کتابوں کا ذکر ہوگا ، The Logic of Scientific Discoveryاور Conjectures and Refutations۔

دونوں کا موضوع ملتا جلتا ہے ۔یہ وہ کتابیں ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد بندے کے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں اور اسے پتا چلتا ہے کہ سائنس، فلسفے اور مابعدالطبیعات کی کیا حدود ہیں اور کسی بھی فلسفیانہ نظریے ، سائنسی حقیقت یا مابعدالطبیعات سے حاصل ہونے والے علم کی درستی کو پرکھنے کا کیا طریقہ ہے ۔دونوں کتابیں ضخیم ہیں، زبان کہیں آسان اور کہیں مشکل ہے اور کچھ جگہوں پر ریاضی کے تھیورم بھی استعمال کیے گئے ہیں جو سر کے اوپر سے گزر جاتے ہیںلیکن اگر آپ ہمت کرکے اِن کتابوں کا پچاس فیصد حصہ بھی پڑھ لیں گے تو امر ہوجائیں گے اورآپ کا زندگی کے بارے میں سوچنے کا انداز تبدیل ہوجائے گا۔

کارل پوپر کی اِن کتابوں کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ ہر وہ بات جسے رد کرنے کا کوئی طریقہ موجود ہو ، سائنس کہلائے گی جبکہ ایسی بات جسے کسی لٹمس ٹیسٹ سے گزارا ہی نہ جا سکے، مابعد الطبیعات کے دائرے میں آئے گی، یہ کارل پوپر کا مشہور زمانہ Falsification Principleہے۔مثلاً ایک ماہر حیوانیات پرندوں کا مشاہدہ کرنےکے بعد کہتا ہے کہ تمام پرندے اُڑ سکتے ہیں، کوّا چونکہ ایک پرندہ ہے لہٰذا وہ بھی اُڑ سکتا ہے ۔منطقی اعتبار سے بات درست ہے مگر پوپر کے نزدیک اِس کایہ مطلب نہیں کہ یہ آفاقی طور پر سچ بھی ہو، وہ کہتا ہے کہ ایک ذہین ماہر نباتیات ہر پل اپنے نظریے کو غلط ثابت کرنے کے درپے رہے گا، اسی لیے جب اسے پینگوئن جیسے پرندے کے بارے میں پتا چلے گا کہ وہ اُڑ نہیں سکتا تو بطور سائنسدان وہ مایوس ہونے کی بجائے علم کے اِس نئے ٹکڑے کو اپنے نظریے کو بہتر بنانے کیلئے استعمال کرے گااور یہ کہنے کی بجائےکہ تمام پرندے اڑ سکتے ہیں، اپنے نظریے میں تبدیلی کرکے کہے گا کہ تمام پرندوں کے پنکھ ہوتے ہیں اور پھروہ ایسے پرندے کی تلاش میں جُت جائے گا جن کے پنکھ نہ ہوں ۔یہی بات سائنسی نظریے کو غیر سائنسی نظریے سے ممتاز کرتی ہے ، جس بات کو رد کرنے کا کوئی طریقہ ہی دستیاب نہ ہو ، بقول پوپر، پھر وہ سائنس نہیں ما بعد الطبیعات کی حدود میں آئے گی ۔یہ وہ باریک سا فرق ہے جسے جاننا ضروری ہے کیونکہ سائنس پر اکثر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ یہ علم کا قابل اعتماد ذریعہ نہیں، جب بھی کوئی سائنس دان تھیوری پیش کرتا ہے تو اُس کی نوعیت عقلی سے زیادہ الہامی ہوتی ہے، کچھ تھیوریاں درست ثابت ہوئے بغیرہی اپنی موت آپ مر جاتی ہیں جبکہ کچھ وقتی طور پر درست ثابت ہوتی ہیں مگر پھر کوئی نئی تھیوری انہیں رد کرکے اُن کی جگہ لے لیتی ہے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔

سائنس پرکی جانے والی اِس تنقید سے کچھ لوگ یہ نتیجہ نکالتےہیں کہ چونکہ سائنس بھی حتمی علم نہیں اور جو اعتراض ما بعد الطبیعات پر کیا جاتا ہے بعینہ سائنس بھی اُس کی گرفت میں آجاتی ہے اِس لیے سائنس اور ما بعدالطبیعات ایک ہی صف میں کھڑے ہیں ۔یہی وہ غلط فہمی ہے جس کے کارل پوپر نے پرخچے اڑائے ہیں۔کارل پوپر کا کہنا ہے کہ سائنس کا مقصد مطلق سچائی کو بے نقاب کرنا نہیں کیونکہ یہ ناممکن ہے،سائنس کا مقصد فقط دستیاب شواہد اور ثبوتوں کی روشنی میں درست علم حاصل کرنااور اسے نئے تجربات اور falsification ٹیسٹ سے گزار کر ہر بار بہتر کرنا ہے۔

کارل پوپر نے اپنی کتابوں میں سائنس پر جو تنقید کی ہےاُسے بنیاد بنا کر بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سائنس کا دارومدار چونکہ عقل پر ہے اور یہ ثابت ہوچکا کہ سائنس ناقص اورناقابل اعتبار علم ہے ، اِس لیے کائنات کو سمجھنے کیلئے عقل سے ماورا ہی کوئی ذریعہ مستند اور قابل بھروسہ سمجھا جائے گا اور دلیل یہ ما بعد الطبیعات کے ذریعے حاصل ہونے والی علم کی حقانیت کو قبول کرنے کے لیے کافی ہے ۔ وہ لوگ یہ بات فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ جس falsification اصول کو بنیاد بنا کر پوپر سائنس کو غیر سائنس سے علیحدہ کرتا ہے اسی اصول کو اگر ما بعد الطبیعات پر لاگو کیا جائے تو علم کے غیر عقلی ذرائع ایک قدم بھی نہیں اٹھا پائیں گے۔پوپرنے اپنے اِس اصول کی پڑتال بھی سفاکی سے کی ہے اور فلسفے اور منطق کا کوئی پہلو نظر انداز نہیں کیا ۔ایک جگہ اُس نے لکھا ہے کہ کانٹ کے مطابق انسانی عقل میں یہ صلاحیت نہیں کہ دنیاکی حقیقت جان سکے ، سو انسان کے پاس ایک راستہ تو یہ ہے کہ کچھ جاننے کی کوشش ہی ترک کر دے اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ عقل کے ذرائع کے علاوہ کوئی طریقہ تلاش کرے ، چونکہ کوشش ترک کرنا سرے سے کوئی آپشن ہی نہیں لہٰذا ہمارے پاس سوائے اِس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم اِس کائنات کی حقیقت کو غیر عقلی یا ماورائے عقل طریقوں سے پانے کی کوشش کریں جیسے ہماری جبلت، شاعرانہ الہام، جذبات، وغیرہ۔ پوپر نے اس سوال کا بے حد دلچسپ جواب دیا ہے مگروہ جواب جاننے کیلئے پوپر کی کتابیں پڑھنی پڑیں گی۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ کسی نے نہیں پڑھنیں سو اِس کا جواب یہ بندہ عاجز آئندہ کسی کالم میں بتا دے گا!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے