اس شدید گرمی میں ہماری نظر صرف اس بات پر ہے کہ بارش نہ ہو اور ہم گندم کی فصل جلدی جلدی کاٹ لیں تاکہ جو قرض ہمارے سر پر ہیں وہ جلدی جلدی اتار سکیں اور گھر میں بھر پیٹ روٹی کھا سکیں۔
ادھیڑ عمر نظیراں بی بی اپنی بہوؤں اور بیٹیوں کو ساتھ لگائے درانتی والا ہاتھ جلد ی جلدی چلا رہی ہیں ۔ مٹھی میں آنے والی فصل کو سائیڈ پر رکھ کر فوری دوسری مٹھی تیار ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ سنہرے خوشوں سے لدی گندم کی بالیوں کا ڈھیر لگتا جاتا ہے۔ جن کے گٹھے بنائے جایئں گے اور اس میں بھی خواتین معاون ہوں گی۔ اس کے بعد اسے چھڑائی کا کام بھی کرنا ہے اس سے نکلے بھوسے کو کارآمد رکھنے کیلئے الگ کرکے محفوظ کرنا ہے اور اس محنت کے بعد یہ سب زمیندار کے حوالے کرکے اپنی اجرت کا انتظار کرنا ہے ۔
گندم کی کٹائی کا سیزن اپنے عروج پر ہے ۔ کھیتوں میں نظر دوڑائیں تو تاحد نگاہ گندم کی کھڑی فصل سونے کی چادر کی طرح پھیلی نظر آتی ہے۔
زمینداروں کیلئے یہ انتہائی خوشی کا وقت ہے کہ فصل پک کر تیار ہے لیکن اصل معاملہ اب شروع ہوتا ہے ۔ اس کھڑی فصل کو سونے کی طرح ہی سنھبالنا پڑتا ہے ۔ تاکہ یہ موسم کی ستم ظریفی کا شکار ہو کر کوڑیوں کے بھاؤ نہ ہوجائے۔ اس لئے زمیندار اس موسم میں خواتین اور مرد مزدوروں سے گندم کی کٹائی کرواتے ہیں ۔ اس کیلئے صرف مرد نہیں بلکہ خواتین کا امتحان ہوتاہے کہ انہوں نے نہ صرف گھر کا کام کرنا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ گندم کی کٹائی اور اسے سنھبالنے کا مشکل کام بھی انجام دینا ہے ۔ اپریل کی اس کڑکتی دھوپ میں تاحد نگاہ پھیلی فصل کو مردوں کے شانہ بشانہ جلد از جلد کاٹتی خواتین پسینے میں شرابور ہیں تو ساتھ بچوں کا خیال بھی رکھتی ہیں۔ اور یہ گاؤں میں بسنے والے اکثریتی گھرانوں کی کہانی ہے ۔
نظیراں بی بی کا کہنا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ اس موسم میں گھر میں بیٹھنا کیسا ہے ہم بس اتنا جانتے ہیں کہ یہاں کھیتوں میں بھی کام کرنا ہے بچے بھی سنھبالنے ہیں گھر کا کام بھی کرنا ہے اور ہانڈی روٹی کرکے کھیتوں تک لا کر سب کو کھلانا پلانا بھی ہے۔ اگر ہم کام نہیں کریں گی تو ان کا پورا سال گزارا کرنا مشکل ہوجائے گا اسلئے میری بہو بیٹیاں بھی ساتھ ہاتھ بٹا رہی ہیں تاکہ انہیں جو اجرت ملے اس سے جو گندم پچھلے برس ادھار لی تھی۔ اس حساب کو چکتا کیا جائے اور اس سال کیلئے گندم لی جائے ان کے مطابق گندم ہوگی توکم از کم روٹی تو ملے گی بھلے چٹنی یا اچار کے ساتھ ہی ہو نظیراں مائی کا کہنا ہے اتنی محنت کے بعد بھی انہیں اجرت اس حساب سے نہیں ملتی کہ ان کا آسانی سے گزارا ہو سکے جب کہ زمیندار اور سرکار اپنے حساب کا ریٹ طے کرتے ہیں۔
ان کے ساتھ ہی دیگر اور خواتین بھی ہیں جن کی کہانی بھی ایسی ہی ہے ۔ 40 سالہ کوثر اپنے چھوٹے بچوں کیساتھ کام کررہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا چھوٹا بیٹا بیمار ہے جسے انہوں نے درخت تلے چارپائی پر لٹایا ہے اور ساتھ ان کی چھوٹی بیٹی اس کی دیکھ بھال کیلئے موجود ہے۔ وہ خود بھی کھانے کے وقفے میں اس کے پاس بیٹھ جاتی ہیں ۔ کوثر کا کہنا ہے ہم میاں بیوی اس کھیٹ میں اسلئے مزدوری کررہے ہیں تاکہ ان بچوں کیلئے روٹی اور دوائی کا بندوبست کرسکیں کیونکہ گھر میں دانے سال ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتے ہیں ایسے میں واحد حل یہی نظر آتا ہے کہ اس موسم میں جتنی محنت ہو سکے کرلیں لیکن اس کے ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہاتھوں کا کام اب مشینیں کررہی ہیں جس سے ان کا روزگار بھی متاثر ہوا ہے۔ مشینوں سے کام جلدی نپٹ جاتا ہے اسلئے زمیندار انہیں ترجیح دے رہے ہیں ۔
زمیندار اشرف علی اپنی زمین پر کٹائی کروا رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ بیساکھ کا مہینہ گو کہ خوشی کا ہے ۔لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور ہر طرف میلے جیسا سماں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں گندم کا سرکاری ریٹ بہت اچھا نہیں ملتا ۔ جس سے ہمیں نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے کہ مزدوروں کو بھی اجرت دیں ۔ سرکاری ریٹ بھی کم ملے تو ہم کہاں جایئں گے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کے دیہاتوں میں بسنے والے آدھ سے زائد خاندانوں کے پاس زمین نہیں ہے ۔ جس سے وہ دوسروں کے کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ ایسے میں ان میں ایک بڑی تعداد خواتین کی بھی ہوتی ہے جنہیں پہلے کم اجرت سے پریشانی تھی تو اب جدید مشینری نے ان کا زریعہ روزگار محدود کردیا ہے۔