صوبہ ہزارہ کی ضرورت کیوں ہے؟

ہزارہ ڈویژن پاکستان کے شمال میں واقع ایک خوبصورت و دلکش علاقہ ہے۔ یہاں کے باسی اپنی روایتی مہمان نوازی ، امن اور بھائی چارے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ہزارہ انتظامی طور پر خیبر پختونخواہ کا حصّہ ہے۔ مگر یہاں کے باسی پچھلی تین دہائیوں سے اپنے لیے الگ صوبے کی تحریک چلا رہے ہیں۔ 1987ء میں ملک آصف ایڈوکیٹ نے الگ صوبے کے قیام کے لیئے ” ہزارہ قومی محاز” کے نام سے جدوجہد کا آغاز کیا۔

یہ جدوجہد دھیمے دھیمے چلتی رہی۔ مگر اس میں اچانک 2010ء میں اس وقت تیزی آگئی، جب صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے صوبہ خیبر پختونخواہ رکھا گیا۔” خیبر کا لفظ ہزارہ کے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیئے لگایا گیا تھا ۔ مگر اس نام کے بعد بھی ہزارہ میں اس کے خلاف شدید ردِ عمل آیا ۔ اسی جدوجہد کے دوران ایبٹ آباد میں دس لوگوں نے صوبہ ہزارہ کے قیام کے لیئے اپنی جانیں نچھاور کیں ۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہزارہ ڈویژن والوں نے ” خیبر ” نام کے لولی پوپ کو تسلیم نہ کیا ۔ اور اپنی نظریں اپنے حقیقی مقصد یعنی صوبہ ہزارہ کے قیام پر لگائی رکھیں ۔ صوبہ ہزارہ کی جدوجہد پہلے سردار حیدر زمان کی قیادت میں کی گئی۔ آج کل اس تحریک کے سربرا ہ نامور سیاستدان و مدبر جناب سردار یوسف ہے،ہزارہ صوبہ کے قیام کے لیے قومی اسمبلی میں قرارداد بھی پیش کی جا چکی ہے اور اس تحریک کے قائدین پارلیمان کے اندرو باہر دونوں جگہوں پر اپنے لیے الگ صوبے کے قیام کے لئے کوشاں ہیں۔ آگر ہم منظرِغائر جائزہ لیں کہ ہزارہ کو الگ صوبہ کیوں بنایا جائے تو درج زیل حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں ۔

1ـ. تاریخی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ہزارہ کا علاقہ خیبر پختونخواہ کا حصہ نہیں ہے۔ موریہ سلطنت کے دور میں ہزارہ گند ھارہ تہذیب ( جس کا مرکز ٹیکسلا تھا ) کے ساتھ ملحق تھا ۔ اشوکہ یہاں کا گورنر تھا ۔ آج بھی مانسہرہ کے پہاڑوں میں اشوک کے 14 مضامین جو کے ” صحیح قانون ” کے نام سے جانے جاتے تھے، موجود ہیں ۔ دوسری صدی میں”راجو رسالو "نے ہزارہ کے علاقے کو کنٹرول کیا۔ اس کا تعلق سیالکوٹ سے تھا ۔ مغل عہد میں اکبر بادشاہ کشمیر جانے کے لیے مانسہرہ کا راستہ استعمال کرتا تھا۔

1901ء میں انگریز حکمرانوں نے صوبہ سرحد کو پنجاب سے الگ کر کے مکمل صوبےکا درجہ دیا۔ تو ہزارہ کے علاقے پہلے پنجاب کا ہی حصّہ رہے۔ مگر بعدمیں نئے گورنر صوبہ سرحد نے شکایت کی کہ یہاں گرمی بہت ہے۔ کوئی ٹھنڈے علاقے بھی نئے صوبہ کے پاس ہونے چاہیں، جہاں موسم گرما میں دارالحکومت بنایا جائے ۔ تو ہزارہ کو خیبر پختونخواہ میں شامل کیا گیا اور نتھیا گلی میں گورنر ہاؤس بنایا گیا۔

2. ـ ہزارہ اور باقی پشتون علاقوں میں جہاں تہذیب وثقافت میں نمایاں فرق ہے۔ وہاں دونوں کی سیاسی حرکیات میں بڑا بعد ہے۔ تاریخی طور پر اگر اس چیز کا جائزہ لیا جائے تو دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔ تحریک آزادی میں ہزارہ ڈویژن ہمیشہ سے آل انڈیا مسلم لیگ کا مرکز رہاہے۔ 1936ء میں آل انڈیا مسلم لیگ ہزارہ کی بنیاد نور الدین قریشی کے گھر میں رکھی گئی۔ نواب فرید خان تنولی کی قائد اعظمؒ کے ساتھ مسلسل مسلم لیگ ہزارہ کے حوالے سے خط وکتابت جاری رہی۔ آج بھی یہ خط و کتابت "نیشنل آرکائیو” میں موجود ہے۔ دوسری طرف پشتون عالقوں میں خدائی خدمت گار کا زور تھا۔ مسلم لیگ اور خدائی خدمت گارآپس میں مقابل ہی رہے۔ ہزارہ نے اپنا وزن مسلم لیگ کے پلڑے میں ڈالے رکھا۔ مثلاً 1940ء کی قرارداد لاہور میں سردار اورنگزیب نے صوبہ سرحد کی نمائندگی کی، جن کا تعلق ہزارہ سے تھا۔ خدائی خدمت گار نے اس قرارداد کی کانگریس کے ساتھ مل کر مخالفت کی۔ 1946ء کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ نے صرف ہزارہ ڈویژن سے ہی کامیابی حاصل کی۔ پشتون علاقوں میں کانگریس وخدائی خدمتگاروں نے مل کر انتخاب لڑا۔ 1947ء کے ریفرنڈم کے موقع پر بھی یہ ہزارہ ہی تھا ،جس نے قیام پاکستان کے لیے نہ صرف کھل کر ووٹ دیا بلکہ اس جدوجہد میں "فرنٹ لائن سپاہی” کا کردار ادا کیا ۔ پشتون علاقوں میں تو مسلم لیگ کو طنزیہ طور پر پر "موٹر لیگ” کہا جاتا تھا۔

3۔ ان تاریخی حقائق کے ساتھ ساتھ کچھ زمینی حقائق بھی موجود ہیں۔ جوکہ چیخ چیخ کے اعلان کر رہے ہیں کہ ہزارہ الگ ہے اور اس کی الگ حیثیت کو تسلیم کیا جائے۔ مثال کے طور پر خیبر پختون خواہ کا ملکی G.D.P میں حصہ ٪10.00 فیصد ہے۔ اور اس میں سے ٪04 فیصد حصہ ہزارہ ڈویژن کا ہے ۔ صوبہ خیبر پختون خواہ میں کل 7 ڈویژن ہیں۔ اس طرح اکیلے ہزارہ کا حصہ ٪4فیصد اور بقیہ 6 ڈویژن ملکہ ملکی G.D.Pمیں حصہ ٪6فیصد حصہ دے رہے ہیں۔ اسی طرح صوبہ خیبر پختونخواہ کی مختلف سیاسی جماعتیں و حکومتیں بجلی کی جس رائلٹی کا مطالبہ وفاقی حکومت سے کرتی ہیں، اس بجلی کی پیداوار میں سب سے اہم حصہ یعنی ٪65فیصد ہزارہ ڈویژن کا ہے۔ تربیلا ڈیم میں ہر ی پور ہزارہ 3500میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ پٹن دریائے کنہار وغیرہ بھی بجلی کی پیداوار کے اہم ذرائع ہیں۔ سیاحت سے حاصل شدہ آمدنی و معدنیات کے ذخائر اس سے الگ ہیں۔ مزید بر آں ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ہزاروں پاکستانی باہر سے پیسہ بھیج کر ملکی ذرمبادلہ سے بڑا اضافہ کر رہے ہیں۔ ہزارہ کو اگر الگ صوبہ بنا دیا جائے تو یہ پاکستان کا سب سے خوشحال صوبہ ہو گا۔

4۔ ہزارہ ڈویژن کے رہنے والوں کے لیے ایک اہم مسئلہ ان کے قومی سطح پر شناخت کا ہوتا ہے، مثال کے طور پر صوبہ سندھ کے رہنے والے سندھی ، پنجابی کے رہنے والے پنجابی ، بلوچستان کے رہنے والے اور خیبر پختونخواہ کے رہنے والے پختون۔ مگر ہزارہ ڈویژن کے رہنے والے کو نہ تو قومی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے اور نہ ہی ان کے صوبے میں ۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں اُن کو پنجابیاں کا نام دیا جاتا ہے۔ جبکہ پنجاب میں وہ خیبر پختونخواہ کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اسی طرح وُہ شناخت کے بحران میں مبتلا ہیں۔ مزید برآں ان کے کلچر وزبان کی نمائندگی کا بھی موقع موجود نہیں ہے۔ہمارے قومی تہواروں اور دنوں میں بھی یہ علاقہ برُی طرح نظر انداز کیا جاتاہے۔ اگر ملازمتوں کا جائزہ لیا جائے تو صوبائی پبلک سروس کمیشن میں ہزارہ کو زون ۰۵ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اور آبادی وتعلیم کے لحاظ سے یہاں کی سیٹیں کم ہیں۔ مزید برآں اگر ہزارہ سے تعلق رکھنے والا کوئی امیدوار P.M.S یا کسی اور سروس کے امتحان کو پاس کر کے انٹرویو بورڈ میں پہنچ جائے توپشتو نہ ہونے کیوجہ سے وہاں پہ بھی وہ تعصب کا شکار ہو جاتاہے۔ملازمتوں میں ہزارہ ڈویژن میں واقع سرکاری دفاتر و ہسپتالوں میں چپڑاسی یا کلاس فور کے ملازمین پشتون یا اٹک تک کے ملازمین لگائے جاتے ہیں۔ ان کے حالات میں بھی اگر ہزارہ والے اپنے لیے الگ صوبہ کا مطالبہ نہ کریں تو پھر کیا کریں؟

5۔ بہت سارے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ہزارہ کو الگ صوبہ کیوں بنایاجائے؟ تو عرض ہے کہ آئینی انداز میں ریاست کےسامنے مطالبات کریں۔ ہزارہ کے لوگ یہی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف اگر ہم آج کی جدید دنیا پر نظر دوڑائیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ وہی ممالک دنیا میں مستحکم و خوشحال ہیں، جہاں لوگوں کو اُن کے جائز حقوق ملےہیں۔ دُنیا کے ہر ملک کے نئے وقت کے ساتھ انتظامی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے انتظامی یونٹس بنائے ہیں۔ ان انتظامی یونٹس کے بننے سے اِن ممالک میں اتحاد و یک جہتی بڑھی ہے۔ اور قوم مزید مضبوط ہوتی ہے۔ اگر انتظامی یونٹس کا جائزہ ہ لیں تو کچھ ممالک کی تصویر درج ذیل میں سامنے آئی ہے۔

ایران میں 1950میں صوبے 12 اور 2023 میں 26 صوبے
انڈیا میں 1950میں صوبے 14 اور 2023 میں 29 صوبے
امریکہ میں 1950میں صوبے 54 اور 2023 میں 54 صوبے
چائنہ میں 1950میں صوبے 24 اور 2023 میں 34 صوبے
ترکی میں 1950میں صوبے 81 اور 2023 میں 81 صوبے
پاکستان میں 1950میں صوبے 04 اور 2023 میں 04 صوبے

آج پاکستان کے اندر اتنے ہی انتظامی یونٹس موجود ہیں، جتنے تقسیم وقت تھے۔ ہمیں اپنے اس تصور پر غور کر کے مختلف قوموں کو ان کا حق دینا ہوگا۔ اگر ہزارہ ڈویرن کی بات کی جائے تو ہزارہ میں آبادی 06.5 ملین ہے اور علاقہ 18013 کلو میڑ ہے، اتنی بڑی آبادی و علاقے کو اگر الگ انتظامی یونٹ بنا دیا جائےتو اس سے ملک و قوم کے ساتھ ساتھ متعلقہ علاقہ و لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی مدنظر رکھناہوگا کہ کالاپٹن سے ایک شخص کواپنے صوبائی دارلحکومت پشاور تک پہنچانے کے لئے 02 دن کا وقت سرکار ہے۔

اس گلوبل دور میں اگر کسی ریاست کے باسی کو اتنی مشکلات صرف صوبائی دارالحکومت تک پہنچانے میں لگے گی تو وہاں کیسے ترقی کا اتحاد بیدار ہوگا؟ ماضی کی طرف اگر ہم دیکھیں تو 1905میں انگریز و ئرائے لدڈکرزن نے اسی آمدورفت کی مشکل کو دیکھ کہ صوبہ بنگال کو سو صوبوں یعنی مشرق بنگال اور مغربی بنگال میں تقسیم کر دیا تھااور اپنے اقتدار کو مضبوط کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی ریاست کے لئے وفادار یاں بھی بڑھ گئیں تھیں کیونکہ اس تقسیم سے ان کے حقوق محفوظ ہوگئے تھے۔ آج بھی ہمیں پاکستان میں عام آدمی کے مسائل کو سر فہرست رکھنا ہوگا۔ ریاست کومضبوط مستحکم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کی شرکت امورحکومت میں بہتر او ر حسن انداز میں بڑھائی جائے۔ اس کے لئے انتظامی یونٹ کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل سے ہم ملک میں یک جہتی کو فروغ دے کر اسے مستحکم و خوشحال ملک بنا سکتے ہیں اور صحیح معنوں میں زندہ قوم کی طرح دنیا کے سامنے آسکتے ہیں، جو علاقے معاشی، معاشرتی بوجھ اٹھاسکیں اور ریاست پاکستان کی خوشحالی میں اپنا حصہ ڈال سکیں، الگ انتظامی یونٹس بنا دینا چاہیے۔

ہزارہ ڈویژن یہ سب کچھ کر سکتا ہےاور اس کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ریاست کو بہبود ،دینے کی باری آئی ہزارہ وال سب سے پہلے اپنے پیارے ملک کی خدمت کے لیے آگے بڑھے۔اب وقت ہے کہ ان کو انکا جائز حق الگ صوبہ دیا جائے، اس طرح ہم پاکستان کو ایک مضبوط اسلامی جمہوری وفلاحی ریاست بنا سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے