ایک خطرناک مرض فیسٹولا مگر اس پر آگاہی کیوں نہیں دی جاتی

’میرے لیے فیسٹولا کو جھیلنے کی تکلیف کا ذکر آسان نہیں رہا ،اس اذیت میں زندگی گزرتی ہے کہ آپ کے اپنے بھی آپ سے دور رہتے ہیں۔ سوشل بائیکاٹ تو ہوتا ہی ہے اور قصوروار نہ ہوتے ہوئے بھی میں خود کو مجرم محسوس کرتی تھی۔ ڈاکٹر نے آپریشن کیا ہے مگر ہر وقت ڈر رہتا ہےکہ کہیں دوبارہ سے مرض کا شکار نہ ہو جاؤں۔‘

یہ کہنا ہے، پنجاب کے ایک دراز علاقے سے اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں آنے والی 20 سالہ فیسٹولا سے متاثرہ لڑکی صائمہ(فرضی نام )ہے۔ صائمہ تقریبا ساڑھے تین سال سے اس مرض کو جھیل رہی ہیں۔ ان کی شادی 16 سال کی عمر میں ہوئی تھی جو اگرچہ صوبے میں رائج قانون کے مطابق تھی لیکن دھان پان سی صائمہ جب شادی کے کچھ ہی عرصے بعد حاملہ ہوئیں اور اسی کمزوری کی حالت میں بچے کی پیدائش کے مرحلے سے گزریں تو زچگی کے دوران غیر معمولی تاخیر اور مسلسل دباؤ نے ان کے مثانے کی نالیوں میں سوراخ کر دیا اور یوں پیشاب کے رسنے اور اس پر قابو نہ پانے سے ان کی زندگی دشوار ترین بن گئی۔

شادی سے پہلے وہ ساتویں جماعت تک ہی پڑھ سکی تھیں پھر غربت سے لڑتے گھر والوں نے انھیں شادی کے بندھن میں باندھ دیا۔ اس عرصے میں ان کا ایک حمل ضائع ہو گیا اور دوسرے حمل میں لیبر کے درد کے دوران ان کو مسائل کا سامنا رہا۔

’گھر والے کہتے تھے، بچہ جلدی پیدا کرو، پہلا بچہ حمل کے پانچویں مہینے میں ضائع ہوا۔ اس وقت تو میں خود 17 سال کی بچی تھی۔ جو مسائل تھے اس کو شرم کے باعث کسی سے کہہ نہیں سکتی تھی۔‘

فیسٹولا ایک ایسا مرض ہے ،جس پر بات کرنا اکثر ممنوع (ٹیبو) سمجھا جاتا ہے اور اسی لیے اس کی آگاہی کا فقدان ہمیں نظر آتا ہے۔ مرض کی ابتدا میں متاثرہ مریضہ شرم و جھجھک کے باعث اکثر خاموش رہتی ہیں اور یوں تکلیف اور اذیت بڑھتی جاتی ہے۔

ماہرین کے مطابق دورانِ زچگی بچے کی پیدائش میں تاخیر کے دوران پیشاب اور پاخانے کی نالیوں پر دباؤ آتا ہے، جس سے دونوں یا ایک میں سوراخ ہوجاتا ہے، جس کو فسٹیولا کہا جاتا ہے۔

نو عمری کی شادیوں اور زچگی کے دوران "غیر تربیت یافتہ عملے” کو فسٹیولا کی ایک بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے۔تاہم اس کی دیگر وجوہات بھی ہیں، جن و سمجھنا اور جاننا بہت ضروری ہے۔

فیسٹولا کی وجوہات کیا ہیں؟

اسی حوالے سے ہم نے بات کی ایس ڈی پی آئی کی سینیئر پبلک ہیلتھ ایکسپرٹ ڈاکٹر رضیہ صفدر سے جنھوں نے فیسٹولا کی وجوہات، علاج اور آگاہی کی اہمیت سے آگاہ کیا۔

ڈاکٹر رضیہ نے بتایا کہ "فیسٹولا میں انسانی جسم کے دو انتہائی اہم اعضا یعنی مثانہ اور عورت کی برتھ کینال ( بچے کی ڈلیوری جس جگہ سے ہوتی ہے) کے درمیان ایک ابنارمل راستہ بن جانے کی بیماری کو کہتے ہیں” اور اس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔

ان کے مطابق ’ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عورت جب زچگی کے وقت لیبر کے درد میں بہت دیر تک رہتی ہے یعنی اس کا درد زہ 12 سے 14 گھنٹے تک طویل ہو جاتا ہے۔اس وقت جبکہ بچے کا سائز بڑا ہوتا ہے اور ماں بننے والی خاتون کی ڈلیوری کینال چھوٹی ہوتی ہے یا بچے کی پوزیشن درست نہیں ہوتی ۔‘

ذاکٹر رضیہ نے کم عمری میں ماں بننے والی بچیوں کے فیسٹولا بننے کے خطرات پر بھی روشنی ڈالی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’کم عمری کی شادی کی صورت میں بچی کی ہڈیاں ابھی درست نہیں بنی ہوتیں اور جب وہ حاملہ ہو اور بچہ پیدا ہونے لگے تو پیدائش کے وقت بچہ پھنس جاتا ہے اور ایسے میں مثانے پر زور پڑنے سے بھی فیسٹولہ بن جاتا ہے۔‘

ڈاکٹر رضیہ نے بتایا کہ ’مثانہ برتھ ٹریک کے بالکل سامنے ہوتا ہے اور مثانہ بہت نازک اعضا میں شمار ہوتا ہے اور دوران زچگی اس کو بار بار خالی کرنا ہوتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو اس پر پڑنے والے دباؤ کے باعث خون کی نالیاں اپنا کام نہیں کرتیں اور مریض کو اسکیمیا (خون اور آکسیجن نہ پہنچنے کے باعث اس اعضا کے ٹشوز ضائع ہو جانا ) کے باعث مثانہ کی دیوار کو نقصان پہنچتا ہے اور بچے کی پیدائش کے سات آٹھ دن کے درمیان وہاں ایک راستہ بن جاتا ہے۔ ‘

اس طرح اگر خاتون کی ڈلیوری بڑے آپریشن کے ذریعے ایمرجنسی میں کروائی جائی جائے تو اس میں بچہ پھنسا ہوا ہوتا ہے اور مشکل ڈلیوری ہوتی ہے۔ اور اس میں بچہ دانی اور مثانے کے درمیان جو نارمل تعلق ہوتا ہے، وہ ڈسٹرب ہو جاتے ہیں اور اگر اس دوران کوئی نا تجربہ کار ڈاکٹر یا ٹیکنیشن اس کیس کو ہینڈل کرے تو مثانہ اور بچہ دانی کے درمیان زخم ہونے سے فیسٹولا بن جاتا ہے۔

فیسٹولا کی وجوہات عام طور پر 80 سے 90 فیصد دوران زچگی ہوتا ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ عورت جب ڈلیوری کے دوران درد میں ہوتی ہے اور بچے دیر تک پھنسا رہتا ہے تو اس دوران بچے کا سر حاملہ عورت کے مثانے کو نقصان پہنچاتا ہے۔

ذاکٹر رضیہ نے مزید بتایا کہ ’دوران زچگی اگر نارمل راستے سے ڈلیوری ہو اور اس میں اوزاروں کا استعمال کیا جائے اور اس میں ناتجربہ کار ڈاکٹر یا دائی اس اوزار کا درست استعمال نہ کر پائے اور اس دوران زخم بن جائے تو اس سے بھی فیسٹولا بننے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ‘

’نارمل ڈلیوری کے درمیان بھی نا تجربے کار سٹاف یا ڈاکٹر کی صورت میں بھی برتھ ٹریک اور مثانے کے درمیان میں ابنارمل راستہ بن جاتا ہے، اس کی وجہ سے پیشاب غلط راستے سے آنا شروع ہو جاتا ہے۔ ‘

ان کے مطابق اگر سروائیکل یا بچہ دانی کا کینسر یا اس ایریا کا کینسر ہو تو اس کی سرجری میں مثانہ زخمی ہونے کے چانسز ہوتے ہیں اور اگر اس میں ریڈیو تھراپی ہو تو مثانے کو پروٹیکٹ نہ کیا جائے تو بھی فیسٹولا بن جاتا ہے۔

دور دراز علاقوں کی خواتین جن کو ہسپتال لے جانے کی سہولت قریب نہیں ہوتی یا گھر پر ڈلیوری کروانے پر مجبور ہوتی ہیں تو ان میں ذیادہ خطرات ہوتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’کچھ دور دراز کے علاقوں پر اب بھی یہ پریکٹس ہے کہ جس خاتون کے ہاں بچہ نہ ہو رہا ہو ،اس میں دیسی دوائیاں استعمال کرنے کے دوران مثلا کسی قسم کا کیمیکل یا درختوں سے نکالے جانے والی جڑی بوٹیاں استعمال کرنے کے باعث بھی فیسٹولا بن جاتا ہے۔ ‘

ڈاکٹر رضیہ نے بتایا کہ کوئی بھی پیٹ کی سرجری جس میں بچہ دانی نکلوانے کا آپریشن بھی شامل ہے اس دوران مثانے پر ہونے والے زخم یا انجری سے بھی فیسٹولا بن جانے کا امکان ہوتا ہے.

فیسٹولا کے اثرات اور علاج

ماہرین کے مطابق فیسٹولا کا واحد علاج سرجری ہی ہوتا ہے تاہم یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ بیماری کتنی پیچیدہ ہو چکی ہے۔

ڈاکٹر رضیہ کہتی ہیں کہ اس کی روک تھام کے لیے سب سے اہم بات ہے کہ بچے کی پیدائش سے قبل کے تمام چیک اپ لازمی کروائیں تاکہ زچگی کے عمل کے بارے میں پہلے سے آگاہی ہو۔ اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھیں بلکہ جن کو فیسٹولا ہو جائے، ان کے علاج کے لیے کوالیفائیڈ ڈاکٹر سے مدد لیں۔

’جو خواتین اس بیماری سے متاثر ہو جاتی ہیں ان کے لیے روز مرہ زندگی میں یہ بہت تکلیف دہ صورت حال بن جاتی ہے کیونکہ اس میں جسم سے نکلنے والے فاضل مادوں پر کنٹرول نہیں رہتا اور اس میں نہ صرف ہائجین کے مسائل ہوتے ہیں بلکہ گردوں کا انفیکشن بھی ہو سکتا ہے۔ ‘

’ عورت کے اندر سے فاسد مادوں کے اخراج سے آنے والی بو کے باعث اس پر بہت منفی نفسیاتی اثرات سامنے آتے ہیں۔ اس کا علاج صرف سرجری ہے تاہم اگر ڈلیوری کے فوری بعد پتہ چل جائے کہ زخم آ گیا ہے تو پیشاب کی نالی میں مخصوص عرصے تک کیتھیڈر ڈال کر اس کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر اس کا علاج آپریشن کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے