امن کا رقص اور مئی کا مہینہ

آج کی سطریں امن کے نام. ہمارے دور میں امن کے نرخ بڑھ چکے ہیں شائد اسی وجہ سے نوبل پیس پرائز پانے والے کو ستم رسیدہ انسانوں کی فکر لاحق نہیں ہوتی. پھر جو مزہ گلیمر کی دنیا میں ہے وہ بے گھر,بے سائبان یافاقه زدہ کی آواز بننے میں کہاں ہے؟ کم از کم نوبل انعام ملنے کے بعد . اس غیرمنصفانہ دنیا اور اس کے سفاکانہ سوانگ میں محبّت کے چھوٹے چھوٹے پھول اور جگنو اس کو رہنے کے قابل بناتے ہیں اور کسی حد تک مہذب بھی، محبّت بھی ایک طاقت ہے ، سچ بھی ایک طاقت ہے. امریکی طالب علموں کا فلسطین کے حق میں احتجاج سات ماه سے زائد جاری نسل کشی اور اسرائیل کی بربریت سے لکھتی ہوئی المناک داستانوں کے خلاف نا صرف ایک امید ہے بلکہ اس بات کی گواہی بھی ہے کہ انسانیت ہی سب سے بڑا رشتہ ہے.

میں فلسطین پر یا اپنی پاکستانی بہاری کمیونٹی اور خاص طور پر محصورین پر آج بات نہیں کروں گی کیونکہ جن منافقتوں اور مصلحتوں کو سمجھ چکی ہوں ان پر اتنا گریہ کرنے کو دل کرتا ہے کہ کچھ لکھنا دشوار لگتا ہے . کچھ دھیان بٹانے کا بھی ارادہ ہے، کچھ مختلف سے مضمون پر بھی بات کرنے کا شوق ہے .

پاکستان میں رقص جس کو جوش صاحب اعضاء کی شاعری کہتے تھے، کلچر کا حصّہ ہمیشہ سے رہا ہے . یہ اور بات کے پولیٹیکل اسلام اور اشرافیہ کی اس میں بھی حقداری کے اقدامات نے اس کو عام پاکستانی کے لئیے شجر ممنوعہ نہ سہی مگر اس کے "جائز ” ہونے کو معمہ ضرور بنا دیا ہے.

ہمارے یہاں رقص کے نام ہیں جیسے کہ بھنگڑا ، لیوا ، چاپ،اتن، لڈی یا جھومر . آج میں جھمر یا جھومر (جو صندل/ ساندل بار کے علاقے میں گھمبر کہلاتا ہے اور مقبول ہے ) پر بات کروں گی . یہ ایک آہستہ اور زیادہ تال میں ہونے والا رقص ہے۔ "جھمر” کا لفظ”جھم یا جھوم” سے آیا ہے، مطلب ہے ہلنا یعنی دھنوں پر جھومنا۔ جھومر” یا "پسّا” زیورات کی دنیا کا ایک مَشْہُور زیور بھی ہے .یہ رقص شادی بیاہ کے موقعوں پر کیا جاتا ہے اور فصل کٹائی پر بھی .

ساندل بارکا نام شائد بہت سوں کے لئیے اجنبی ہو. روایت ہے کہ یہ نام پنجاب کے مشہور ہیرو دلا بھٹی کے دادا کا تھا ۔ تقریباً اس بار کا تمام علاقہ جھنگ ضلع کا حصہ ہوتا تھا، لیکن آج کل یہ فیصل آباد، جھنگ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ ضلعوں کے درمیان منقسم ہے۔ یہ ایک وسیع علاقہ تھا، جس میں کئی پنجابی قبائل ایک ہی ثقافت اور زبان کو ساتھ لیے ہوئے تھے۔ آج کل اس بار میں جھنگ، تندلیانوالہ، جڑانوالہ اور پیر محل آتا ہے۔ پنڈی بھٹیاں، چنیوٹ ضلع کے کچھ حصے بھی اس میں شامل ہیں۔ پاکستان کے صوبے پنجاب کی شہرہ آفاق لوک کہانی ہیر رانجھا کا تعلق جھنگ سے ہے . فیصل آباد کبھی لائل پور تھا ،یہ بات تو کافی زیادہ لوگ جانتے ہیں اور کئی دانشوروں کو فیصل آباد نام سے اختلاف ہی نہیں بلکہ نفرت ہے. آج تک سمجھنے سے قاصر ہوں کہ انگریز جس نے 1904 میں تحصیل جھنگ کے زیر انتظام اس علاقے کو لائل پور ڈسٹرکٹ بنا دیا ،اس کے اس فیصلے یا اور کئی فیصلوں سے اختلاف کیوں نہیں کیا ؟ شائد طاقت اور مفادات ہی صحیح اور غلط سے لے کر محبت اور نفرت کا تعین کرتے ہیں.

ایک تحقیق کے مطابق جھمر اصل میں بلوچی قبائلی ناچ تھا، جو تجارتی لوگوں کے ذریعے بھارت منتقل ہوا۔ یہ پنجابی عوامی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے۔ جھومر ناچ جو انڈین پنجاب کے شہر ہریانہ میں بھی مقبول لوک ناچ ہے۔ اسے عام طور پر ‘ہریانوی گدّا’ کے طور پر جانا جاتا ہے . بلوچستان اور ملتان سے شروع ہوا جھومر ناچ عموماً نوجوان شادی شدہ لڑکیاں ادا کیا کرتی تھیں.مزاج اور مختلف مواقع کے مطابق، جھومر رقص کی مختلف اقسام ہیں:ستلُج جھومر،بیاس جھومر،چناب جھومر،مُلتانی جھومر ،جھومر تاری. یہ چھوٹاناگپور کی انڈو آریان نسل کے لوک ناچ سے بھی موسوم ہے ۔ وہاں اسے عموماً فصل کٹائی کے موسم میں ادا کیا جاتا ہے۔ غور کریں اور نقشے بھی دیکھ لیں یہ رقص کہاں کہاں سے ہوتا ہوا کہاں کہاں تک پہنچا ؟

ہم میں سے اکثر بیک وقت جنگی جنون میں بھی مبتلا رہتے ہیں اور آرٹ کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، کا بھی منتر پڑھتے ہیں . امیر لوگ اور امر بیک وقت وطن پرست اور جمالیاتی ذوق کے چیمپئن بن جاتے ہیں . ہمارے ایک امر جنرل ضیاء کی اس وقت کے بالی ووڈ کے ٹاپ سٹار شترو سہناجن کا تعلق بہار سے ہے، بہت دوستی تھی اور وہ آرام سے پاکستان آیا کرتے تھے اور ان کے مہمان ہوتے تھے . بہت اچھا رشتہ استوار کیا تھا. بس یہ سہولت عام عوام کو بھی ہوتی . خاص طور پر تقسیم شدہ خاندانوں کو جن کے لئیے ویزا حاصل کرنا ایک کرشمہ ساز کام تھا. کاش ہم انسان صرف انسان بن کر سوچیں اور مختلف نسل، قومیتوں اور عقائد میں خوبصورتی کو تلاش کریں . ہمارے ماتھے کا جھومر امن ہونا چاہییے اور اس امن کو پائیدار اور حقیقی ہونا چاہیے . یہ تبھی ممکن ہے جب ہم جنگ کی ہولناکی کو بخوبی جان سکیں اور تعلیم اور ترقی کی اہمیت کو تسلیم کر سکیں . اور مل کر رقص کریں نہ کریں یہ ذاتی چوائس ہو .

مئی کا مہینہ ہے -انڈیا اور پاکستان دونوں کو 1998 سے ایٹمی کلب کا حصّہ بننا مبارک ہو . دونوں ممالک کو اپنے اپنے ملکوں کے بچوں کی طرف توجہ دینی چاہیے اور نیوکلیئر ٹیکنالوجی کو انسانیت کی فلاح کے لئیے بروے کار لانا چاہیے. کاش جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنائی جا ئے .

دنیا میں ‘ ہمارے خطّے میں اور پھر ہمارے ملک میں جو تعصب ہے، دوسری قومیتوں اور کمیونٹی کے خلاف جو سٹیریو ٹائپنگ ہے اور ان کی بنیاد پر جنم لینے والے جو فتنے اور فسادات ہیں. ان کا کوئی معجزاتی اور فوری حل تو ممکن نہیں سوائے اس کہ کے کہ ہمدلی کو اپنا کر ایک دوسرے کو سمجھا جائے نا کہ الجھا جائے.

افسوس صد افسوس ! وطن عزیز میں بھی کینہ، تلخی، بیر اور تقسیم کی سیاست کی آبیاری پوری شد و مد سے کی جاتی ہے .گالم گلوچ ، توہین اور تذلیل کرنے کی استعداد کو کمال ہنر گردانا جانا جاتا ہے اور ان گنوں کے مالکوں کو مایہ ناز صحافی ‘ ٹویٹر/ایکس انفلوعنصر ،شاعر، نثر نگار اور نجانے کن کن مراتب سے نوازا جا رہا ہے. ایسے ماحول میں سائنس، آرٹ ، ادب اور ٹھوس حقائق پر مبنی حالات حاضرہ کے مضامین پر تبصرہ اور تجزیہ ،کالم یا پوڈکاسٹ کی صورت میں— چند سنجیدہ مزاج لوگوں یا آپ کے بہت ہی مخلص مداحین کے علاوہ کسی کو نہیں بھاتا . پھر بھی چند ہمّت ور یا کامیابی کے اس معیار سے بے نیاز اپنی بات اپنے ڈھنگ سے کر رہے ہیں . الله ایسے تمام دیوانوں کو استقامت دے. مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا .

ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے بھی ایک آواز بن رہی ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے