منٹو پر ممانعت نہیں؛اللہ تیرا شکر ہے

جب تک ایک بے جان کمرے پر دسترس تھی ( یہ کہانی پھر سہی ) جس پر عمر بھر کی بچت صرف کر کے اسے ” کیف کام ” بنایا تھا. میں سماجی ترقی کی انڈسٹری کے نوجوانوں کی انٹلیکچوئل آبیاری کے لئے کچھ تقاریب کا اہتمام کرتی تھی. ان کا زیادہ تر تعلق فنون لطیفہ (فائن آرٹس ) جو جمالیاتی حس کے اظہار کا ذریعہ ہے یعنی شاعری،موسیقی، مصوری، رقص اور سنگتراشی سے تھا . لیکن سماج سے جڑی حقیقتوں بشمول سیاست کے عدسے سے بھی پرکھے جانےوالےمکالمےہوتےتھے.

کیف کام کو عہد حاضر کی کئی نامور شخصیات نے اپنی آمد سے عزت عطا کی ( بہت طویل فہرست ہے یاداشت کی بنیاد پر اور کالم کی پیمائش کو ملحوظ خاطر رکھ کر چند ہی نام لکھ رہی ہوں ) جیسے کہ محترم افتخار عارف، محترم حمید شاہد ، محترم محبوب ظفر، محترم ڈاکٹر کامران اقبال، محترم شمعون ہاشمی ، محترم توثیق حیدر ، محترم حالی صاحب ، مرحوم ائی ا ے رحمن صاحب ، ڈاکٹر طارق بنوری ، محترم سلیم ملک، محترم خواجہ نجم الحسن، محترم راجہ مصدق ، محترم محمّد حسن معراج، محترم اعزاز سید،محترم نعیم مرزا ، محترم رضا رومی ،محترم حسن عبّاس رضا ،محترم لطیف شیخ ، ڈاکٹر عمر خالد بٹ ،محترمہ عنبرین عجائب ، محترمہ طاہرہ عبدللہ ، محترمہ کشور ناہید ، محترمہ نرگس ہاشمی ، محترمہ ڈاکٹر شمیم زیدی ، محترمہ فرخندہ شاہین ……کیف کام نے بہت سی خاص ہستیوں کی سالگرہ بھی منائی، جن میں رومی ، میر ، غالب ، انشا ، جون ایلیا ، پروین شاکر، رؤف خالد،سٹیو جابز ، ڈاکٹر مایا انجیلو اور منٹو کی "سالگرہ ” نے خوب رش کھینچا اور چھوٹے سے کمرے میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی تھی.

سچ ہے کچھ روحیں اس دنیا میں نہ ہونے کہ باوجود بھی کرآوڈ پللر ہوتی ہیں . اس کو -ورکنگ سپیس کی جدت طرازی کو سراہا بھی گیا اور بہت سوں نے کاپی بھی کیا . میں نے تہیہ کیا تھا کہ ڈونرز کے فنڈز کے بغیر اس کو تعمیر کروں گی تاکہ سوشل انٹرا اپرنیرشپ کی اصلی روح کو سمجھا اور دیکھا جائے . اللہ نے مدد کی ، ایسا ہی ہوا. "اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پر بجلیاں ” کے اصول کے تحت میں بھی زندگی میں ایک بار پھر ایک تلخ اور کربناک تجربے سے گزری. اللہ نے پھر ہمّت دی. اب سب کچھ ڈیجیٹل سپیس میں ہے . تاہم اب تقریبات کا اہتمام نہیں کرتی بلکہ کچھ زیادہ توجہ لکھنے پر ہے کہ جتنا وقت باقی ہے، اس میں رہی سہی جان بچا کر جتنا لکھ سکوں لکھ ہی لوں.

آئی بی سی کی ایڈیٹر رابعہ سید صاحبہ کا شکریہ جو مجھ کو باقاعدگی سے چھاپ رہی ہیں اور ان کے ادارے تک رسائی دینے کے لیے میرے ایک کلاس فیلو محترم تہمید جان کا بھی شکریہ. آج کے کالم میں بہت سا تشکر ہے.عنوان سے بھی ظاہر ہے . لیکن اس سے پہلے کہ کسی قاری کو یہ غلط فہمی ہو کہ میں "بابی ” بن رہی ہوں سیدھی بات کر ہی لی جائے .

بات ہے منٹو صاحب کی ، ان پر دو سوانحی فلمیں بن چکی ہیں:

ایک 2015 کی پاکستانی فلم جس کی ہدایت کاری سرمد کھوسٹ نے کی تھی اور دوسری 2018 کی انڈین فلم ، جس کی ہدایت کاری نند یتا داس نے کی تھی۔ منٹو کی لافانی شہرت ان کی کرشماتی سچی شناخت ہے، جس کو اردو ادب کا شناسا قاری اور ان سے انگریزی اور دیگر زبانوں میں تراجم سے ملاقات کرنے والوں کو عشق ہے .

ان کے ادبی سرمائے اور ان سے پیوستہ” سکینڈل” کا خلاصہ کچھ یوں ہے :

22 مختصر کہانیوں کے مجموعے، ایک ناول، ریڈیو ڈراموں کی پانچ سیریز، مضامین کے تین مجموعے اور ذاتی خاکوں کے دو مجموعے ،فحاشی کے الزام میں چھ بار قائم کردہ مقدمات ؛ تین بار 1947 سے پہلے برطانوی ہندوستان میں، اور تین بار آزادی کے بعد پاکستان میں، لیکن کبھی سزا نہیں ہوئی۔ انہیں بیسویں صدی کے بہترین اردو مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے. یہ سعادت حسن منٹوتھے بلکہ ہیں. بیالیس سال کی عمر میں 18 جنوری 1955 کو کائنات کے سب سے بڑے لاثانی تخلیق کار یعنی اللہ پاک سے جا ملے . گیارہ مئی کو اس فانی دنیا میں کچھ شہکار سونپنے کے لئے آئے تھے . یہ دونوں تاریخیں آئیں اور گزر گئیں. سماجی میڈیا کے پلیٹ فورمس پر کچھ باذوق صارفین نے انھیں خراج تحسین پیش کیا اور بس. کم از کم میری نالج میں نہیں ہے کہ منٹو کے لیے کوئی بڑی تقریب منعقد ہوئی ہو .یہ سوچ کر اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ کتنا اچھا ہوا کہ کوئی کانفرنس ،سیمینار ، ادبی مکالمہ وغیرہ نہیں ہوا، کوئی ادبی کیلنڈر نہیں چھاپا گیا ،کوئی مونومنٹ نہیں بنا اور کوئی منٹو میلہ نہیں سجایا گیا.

جب جب بھانت بھانت کے ادبی فیسٹیولس اور میلوں کی کارپوریٹ شناخت اور فلمی ساخت کو دیکھتی ہوں، تب تب اللہ کا شکر ادا کرنے کو بہت دل کرتا ہے کہ منٹو سمیت میرے چند پسندیدہ قد آور ادیبوں کے ساتھ (مثال کے طور پر حبیب جالب ) یہ "سلوک ” نہیں ہوا .

کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ میں بھی کچھ مرد ادیبوں اور اینٹرٹینرز کی طرح فرضی "روحانی ‘ رومانوی اور مزاحیہ ” گوئی کروں . فیض صاحب یا عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی طرف سے اپنے اپنے نام پر ہونے والے تماشوں پر کچھ عرض کروں . یہ ارادہ ابھی ٹال دیا ہے کہ جتنے "پنگے” اب تک لے چکی ہوں، اسی کی قیمت ادا کر رہی ہوں .

فیض کی شاعرانہ عظمت اور ان کی ذاتی شرافت اور محتاط طبیعت کو میری سند کی ضرورت نہیں . ہاں میں ایک عام قاری کی حیثیت سے ضرور حیران اور پریشان رہی ہوں کہ انھوں نے 1971 اور پاکستانی بہاری کمیونٹی کے قتل عام پر کچھ نہیں لکھا شائد انکی محبوبہ "ہندوستان ” اور ان کی "منکوحہ ” پاکستان دونوں کے ہی مفاد اسی میں ہوں اور کرنل صاحب کسی ایک کی بھی ناراضگی افورڈ نہ کر سکتے ہوں ؟ منٹو سے ڈر نہیں لگتا شائد اس لیے بھی کہ وہ "اشرافیہ ” میں نہیں شمار ہوتے تھے . انکل سام/ چچا سام کو ورنہ ایسے خطوط تو عاصمہ سے لے کر ملالہ تک بڑے سے بڑے ایکٹوسٹ نہیں لکھ سکے .

منٹو اب تک بنا ریاستی سرپرستی اور خاندانی بالا دستی کے ایک مقبول نام ہیں . پنٹرسٹ پر ان کے قول کندہ ہیں بلکہ عورتوں کی قمیضوں اور مرد و زن کے مشترکہ پٹکوں ،چادروں اور اوڑھنیوں تک پر آویزاں ہیں . پتا نہیں رویالٹی انکی بیٹیوں تک جاتی بھی ہے کہ نہیں ؟ سمجھ نہیں آتی منٹو پہنا زیادہ جارہے یا پڑھا ؟ اس پر بھی الله کا شکر ہے کہ دونوں صورتوں میں بھی منٹو قائم ہے اور اس کے خلاف اب کوئی فحاشی کا مقد مہ نہیں ہے یا اس کو انڈیا میں پاکستانی ایجنٹ یا پاکستان میں بھارت نواز لا بی کا روح رواں نہیں گردانا گیا .

"زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں، اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے… مجھ میں جو برائیاں ہیں، وہ اس عہد کی برائیاں ہیں… میری تحریر میں کوئی نقص نہیں۔ جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، دراصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔” سعادت حسن منٹو

صد شکر کہ منٹو کو سمجھا بلکل نہیں جا رہا شائد یہی وجہ ہو کہ منٹو کے حرف برانڈ بن کر مارکیٹ میں ہیں مگر منٹو پر کوئی ممانعت نہیں ہے .شکر ہے شکر الله تیرا شکر ہے کہ منٹو اب تک انڈیا اور پاکستان میں بین نہیں ہیں .

"ہندوستان آزاد ہوگیا تھا ،ـ پاکستان عالم وجود میں آتے ہی آزاد ہو گیا تھا ـلیکن انسان ان دونوں مملکتوں میں غلام تھاـ ،تعصب کا غلام…. مذہبی جنونیت کا غلام، حیوانیت و بربریت کا غلام۔” سعادت حسن منٹو

ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے بھی ایک آواز بن رہی ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے