قومی کمیشن برائے انسانی حقوق ، این سی ایچ آر نے پاکستان سے بے قاعدہ ہجرت پر رپورٹ جاری کردی

اسلام آباد؛ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے سیکٹر کے مخصوص پروگراموں اور مقامی ترقیاتی اقدامات کے ذریعے نقل مکانی کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے پر زور دیا ہے۔

اس حوالے سے بروز منگل این سی ایچ آر کی جانب سے انٹرنیشنل آرگنائزیشن آن مائیگریشن (IOM) اور وزارت خارجہ ڈنمارک کے اشتراک سے شروع کی گئے ایک مطالعے بعنوان ”خطرناک سفر: پاکستان سے غیر قانونی نقل مکانی “ میں مختلف سفارشات پیش کی گئی ۔ جس کیلئے ایک تقریب بھی منعقد کی گئی اس موقع پر وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ مہمان خصوصی تھے۔

رپورٹ میں اسمگلنگ کے شکار علاقوں میں آگاہی کے لیے وقف یونٹس، آگاہی مہم، اضلاع کے اندر خصوصی تحقیقاتی یونٹس، انسانی سرمائے کی ترقی اور مالیاتی فوائد کو بڑھانے کے لیے تربیتی نظام میں سرمایہ کاری اور اسٹیک ہولڈرز کے درمیان بہتر کوآرڈینیشن اور ڈیٹا شیئرنگ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان ذمہ داریوں کے بارے میں وضاحت، باقاعدہ نقل مکانی کے لیے اچھی طرح سے طے شدہ راستوں کے قیام، اداروں کے مابین روابط ، غربت کے خاتمے ، کمزور کمیونٹیز کے درمیان خواندگی کو فروغ دینے، محفوظ، منظم اور باقاعدہ نقل مکانی کے امکانات کو بڑھانے اور متنوع مہارتوں کو ایڈجسٹ کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے این سی ایچ آر کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے کہا کہ کمیشن کا مقصد اس رپورٹ کے ذریعے پاکستان سے شروع ہونے والی غیر قانونی نقل مکانی کے منظر نامے کا جائزہ لینا ہے۔ اس رپورٹ میں انسانی اسمگلنگ اور تارکین وطن کی اسمگلنگ کے درمیان فرق پر روشنی ڈالی گئی جبکہ نقل مکانی کے محرکات ، پالیسی اور قانون سازی میں خلاء اور اس سے منسلک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں بھی بتایا گیا ۔

اس موقع پر وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے این سی ایچ آر کی کاوشوں کو سراہا اور کہا کہ بے قاعدہ ہجرت ایک سنگین عالمی مسئلہ ہے اور یہ بنیادی طور پر یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ایسا ماحول فراہم کرے جہاں وہ اپنے ملک میں اپنا مستقبل دیکھ سکیں لیکن یہ ماحول تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشترکہ کوششوں سے ہی پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے مطالعے صحیح سمت میں رہنمائی کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔

چیف آف مشن آئی اور میو ساتو ( IOM Mio Sato )نے اس مطالعے کہ حوالے سے کہا کہ بے قاعدہ ہجرت موجودہ وقت کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ دنیا بھر میں 281 ملین بین الاقوامی تارکین وطن ہیں جو کہ دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 3.6 فیصد حصہ ہیں ۔ تنازعات، تشدد، سیاسی عدم استحکام کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی اور دیگر آفات کی وجہ سے بھی اس رجحان میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ انہوں نے ہر سطح پر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تعاون کرنے کی اہمیت پر زور دیا ۔

رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان سے ہجرت کا بنیادی سبب معاشی مواقع ، ملازمت کی دستیابی، تعلیم تک رسائی، سماجی نیٹ ورک کی جانب سے ہجر ت کیلئے اثر انداز ہونے جیسے عوامل ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ خاص طور پر شہری علاقوں میں ملک چھوڑنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی حکام نے بے قاعدہ ہجرت کی پیمائش میں پیچیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے دبئی کے راستے مصر یا لیبیا سے یورپ جانے والے ایک نئے راستے کو دریافت کیا ہے ۔2023 کی پہلی ششماہی میں تقریباً 13,000 پاکستان چھوڑ کر لیبیا یا مصر چلے گئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان مہاجرین میں سے تقریباً 10,000 واپس نہیں آئے ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2022 میں پاکستان مہاجرین کے حوالے سے یورپ کے ٹاپ ٹین ممالک میں بھی شامل نہیں تھا۔ تاہم، 2023 کے وسط تک یہ دسواں سب سے نمایاں ملک بن گیاہے اور دسمبرتک مہاجرین کی آمد کی تعداد 8778 تک پہنچ جائے گی ۔ یہ اضافہ سیاسی اور معاشی بے یقینی، دہشت گردحملوں، مہنگائی ، تعلیم اور ملازمت کے مواقع میں کمی جیسے عوامل کی عکاسی کرتا ہے۔ مزید برآں، 2023 میں تباہ کن سیلاب نے معاشی امکانات کو مزید خراب کر دیاہے جبکہ شرح نمو 2.8 فیصد تک گرنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

اس رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ بے قاعدہ نقل مکانی سے نمٹنے کی کوششوں کے لیے ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس کیلئے سرکاری ایجنسیوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کر نا ہوگا ۔ ہجرت کا سبب بننے والے بنیادی عوامل کو حل کرنے اور تارکین وطن کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے، پالیسی ساز غیر قانونی نقل مکانی سے متاثرہ افراد اور کمیونٹیز کے لیے زیادہ محفوظ اور خوشحال مستقبل بنانے کے لیے کام کر سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے