مجھے نہیں معلوم – شاباش شروتی کمار

"بہت سی باتیں تھیں جو مجھے نہیں معلوم تھیں۔ جب وقت آیا، میں نے اپنے والدین سے پوچھا کہ کالجوں میں درخواست کیسے دیں۔ انہوں نے بھی کہا "مجھے نہیں معلوم۔”الفاظ "مجھے نہیں معلوم، مجھے بے بس محسوس کراتے تھے۔ جیسے کہ کوئی جواب نہیں ہے اور اس لیے کوئی راستہ بھی نہیں۔ جیسے کہ میں نے شکست تسلیم کر لی ہو۔نیبراسکا سے ہارورڈ تک، میں نے خود کو اس نہ جاننے کے احساس کی نئی تعریف کرتے ہوئے پایا۔

میں نے اس بات میں ایک نئی طاقت دریافت کی کہ میں کتنا کچھ نہیں جانتی تھی۔” یہ وہ سادہ سے جملے ہیں جو ایک جنوبی ایشیائی سٹوڈنٹ لیڈر نے دنیا کی طاقتور ترین یونیورسٹی ہارورڈ سے گریجویٹ ہوتے ہوئے ادا کئے’. یہ ہیں ذہانت ، انسانیت اور عجز کی مجسم شروتی کمار جو امریکا میں نیبراسکا کے میدانوں میں مویشیوں کے فارموں اور مکئی کے کھیتوں کے ساتھ ساتھ بڑی ہوئی۔ ایک تارکین وطن خاندان کی سب سے بڑی بیٹی اور اپنے خاندان کی پہلی فرد تھی جو امریکہ میں کالج گئی۔

ہارورڈ یونیورسٹی کی تیس مئی کی اختتامی تقریب میں شروتی کمار، جو ہارورڈ کی سینئر تھیں اور جنہیں انگریزی میں تقریر کرنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا، ایک غضب کا کارنامہ انجام دے دیا . انھوں نے تحریری متن سے ہٹ کر نے اپنے گاون کی آستین میں چھپے ہوئے ایک کاغذ سے "متنازعہ بیانات” یعنی فلسطین کے حق میں الفاظ نکالے. انھوں نے کھل کر یونیورسٹی کی قیادت کو اس فیصلے پر تنقید کا نشانہ بنایا جس میں درجن سے زائد طلباء کو جو ایک اسرائیل مخالف احتجاج میں شامل تھے، ان کی ڈگریاں دینے سے انکار کیا گیا تھا۔

انٹرنیٹ پر موجود جرائد اور ویب سائٹس پر موجود مواد اور موڈ کے مطابق یہ ڈرامائی اندازتھا اور نہایت حیران کن کہ ایک آئیوی لیگ سکول کو تنقید کا نشانہ اس قدر موثر تقریر کے توسط سے کرنا . ان کے خطاب کے بعد 1000 سے زائد طلباء نے واک آؤٹ بھی کیا۔

امریکا سمیت دنیا کے بیشتر ،سیکولر ، مذہبی اور کافر ممالک کی بہترین درسگاہوں کے طالب علم مظلوم فلسطنیوں کے حق میں پیش پیش ہیں اور کفایہ یا فلسطینی جھنڈے کے ساتھ ڈگری وصول کرہے ہیں.

شائد اب تک کے متن سے یہ گمان ہو کہ آج کا کالم فلسطین میں نسل کشی ، بربادی ، بھوک ، بے گھری اور ناقابل بیان مظالم کے حوالوں کا ماتم ہے یا سیاست کی عیاریوں اور انسانی حقوق کے کئی رول ماڈلز کی اصلیت بے نقاب ہونے یا گہری خاموشی یا نپے تلے الفاظ میں تبصرے پر نوحہ ہے . ایسا ہرگز نہیں ہے . میں نے انسانی حقوق کے زمرے میں سارے پچیدہ مسائل پر الیٹ کی اجارہ داری قبول کر لی ہے اور ایک بے بس مسلمان کی طرح میرا بس الله پاک سے مدد مانگنے تک ہی سمٹ رہا ہے.میرے اندر فلسطین کے لئے کچھ مزید لکھنے کا حوصلہ ہی نہیں رہا اور کھوکھلے ایکٹی وسم کا ہنر تو مجھے کبھی آیا ہی نہیں .

آج کی تحریر میں ایک دکھ بھرا تجسس بھی ہے اور ایک سوال ہے اور میں چاہوں گی کہ قارئین اس کا جواب تلاش کرنے میں میری مدد کریں .

میں نے پاکستانی معاشرے میں اکثریت کو عجز اور انکسار سے عاری پایا ہے .کیا آپ کو بھی کوللیک ٹیو لی ایسا مشاہدہ یا تجربہ ہوا ہے ؟ مس کمار اور بہت سے دیگر چمکتے ستاروں کی تقریر کو میں نے جب جب سنا اور ان کی بے حساب کامیابیاں دیکھیں تو میں نے ان کے جیسوں کی تلاش پاکستان میں یا پاکستانی تارکین وطن میں بھی کی . مجھے بہت کم ہی جوڑ کے لوگ ملے . ہمارے یہاں نرم خوئی،شرافت اور تمیز کو کمزوری سمجھا جاتا ہے . گھر سے لے کر سیاست کے ایوانوں تک "تگڑا ” اور "بگڑا” ہونا ضروری ہے . اعتماد ‘ عزت نفس اور جواب دینے کی صلاحیت اشد ضروری ہیں. مگر تھوڑا سا انکسار اپنے اندر اتارنا ضروری ہے اور دکھاوے سے گریز بھی .

انگریزی کی ایک کہاوت کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے کہ "جب پیسہ بولتا ہے، تو کوئی گرامر نہیں دیکھتا.” شائد یہ ہمارا قومی مزاج بھی ہے . ہماری مزاحمت یا تو مذہب کے نام پر ہوتی ہے یا موسیقی کی مرہون منّت . کچھ آپٹکس کے لیے ہوتا ہے. کتنا کچھ مخفی اجنڈے کے تحت ہوتا ہے اس سے بھی سب باخبر ہیں. ہم سوچ سمجھ کر وار کرتے ہیں .

جب کسی کے پاس دولت یا مالی طاقت ہو تو ہم لوگ اس کی غلطیاں یا خامیاں،نظرانداز کر دیتے ہیں۔ پیسہ عالمی طور پر اپنی بات منوانے کی طاقت رکھتا ہے. لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم پرلے درجے کے منافق اور ڈھونگی بھی ہیں اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کر یا کلچر کی آڑ میں انسانیت سوز حرکتیں کرتے ہیں .ہم مجموئی طور پر ذہنی صحت کی تنزلی کا شکار ہورہے ہیں اور اس کا ثبوت کئی معاملات میں ہمارا جنونی پن ہے. ہم دنیا میں جاری جنگوں یا فلسطین کے لیے کیا احتجاج کریں جب کہ ہمارے اپنے شر سے ہمارے وہ ہم وطن بھی محفوظ نہیں جو عہدے ،عقیدے یا لہجے میں کسی بھی جگہ کے زور والوں سے مختلف ہوں.

ہمیں اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم جان سکیں کہ ہم کیا کیا نہیں جانتے.

ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے بھی ایک آواز بن رہی ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے