حیات و آبحار کے باہمی تعلق کے بارے میں

پانی زمین پر زندگی کی بنیاد ہے۔ یہ انسانی بقا، ارتقاء، زراعت اور ماحولیاتی نظام سمیت زندگی کے پورے ڈھانچے کے لیے سب سے ضروری آئٹم ہے۔ ہم ہر چیز کا تصور کر سکتے ہیں لیکن پانی کے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں کر سکتے۔ زندگی کے اٹھان، سماج کے برتاؤ، معاش کے چلاؤ اور صنعت و حرفت کے بڑھاؤ میں پانی کو جو اہمیت حاصل ہے شاید کسی اور چیز کو نہیں۔ قدرت کا عجیب نظام اور انتظام ہے جو چیز جتنی زیادہ ضروری ہوتی ہے وہ اتنی ہی زیادہ پائی جاتی ہے اور جو کم اندازے میں چاہیے وہ اتنی ہی مقدار میں موجود ہوتی ہے اور جو آسانی سے رسائی میں ضروری ہے وہ آسانی سے دستیاب ہے اور جو مشکل سے ہاتھ آنی چاہیے وہ آسانی سے کبھی ہاتھ نہیں آ رہی۔ پانی اول الذکر عناصر میں سے ایک چیز نہیں، جوہر ہے۔

پانی کے بڑے وسائل میں میٹھے پانی کے ذرائع، جیسے دریا، جھیلیں اور زیر زمین پانی ان کے علاؤہ نمکین پانی کے ذرائع جیسے سمندر اور ابحار شامل ہیں۔ یہ آبی ذخائر پینے کا پانی مہیا کرتے ہیں، خوراک کی پیداوار کو ممکن بناتے ہیں، حیاتیاتی تنوع کو سہارا دیتے ہیں اور نقل و حمل اور تجارت و معیشت میں بنیادی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ پوری انسانی تاریخ میں، تہذیبوں نے پانی کے ذرائع کے قریب ترقی کی ہے، کیونکہ ان ذرائع نے زراعت، صنعت اور تجارت کی ترقی کو ممکن بنایا ہے۔ میں ہمیشہ دوستوں سے، محفلوں میں ایک بات دہراتا رہتا ہوں کہ انسانی تہذیبوں اور آبادیوں نے ہمیشہ پانی کے کناروں اور منڈیوں کے آس پاس ترقی کی ہیں آپ تمام بڑے شہروں کا جغرافیہ چیک کریں آپ کو وہ پانیوں اور منڈیوں کے قرب و جوار میں نظر آئیں گے۔

انسانی نفسیات میں یہ ایک علت ہے کہ جو چیز وہ زیادہ مقدار میں پاتا ہے تو اس کی قدر و قیمت میں غفلت کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے اور یوں اسے ضائع کرنے کے بعد طرح طرح کی مشکلات میں مبتلا ہوتا ہے۔ انسان نے یہی نفسیاتی غفلت پانی کے بارے میں بھی برتا ہے اور آج حضرت انسان، پانی کے وسیع ترین ذرائع سامنے دیکھنے کے باوجود، صاف پانی تک رسائی دنیا بھر میں بہت سی کمیونٹیز کے لیے ایک اہم چیلنج بنی ہوئی ہے، جو پانی کے پائیدار انتظام اور آبی وسائل کے تحفظ کو ایک سنگین مسئلہ بنایا ہے۔ پانی کی بنیاد پر ممالک کے درمیان تو کیا براعظموں کے درمیان لڑائیاں چھڑ گئی ہیں اور وہ ختم ہونے پر نہیں آ رہی۔ خود پاکستان کے اندر مختلف صوبوں میں پانی کی تقسیم پر اختلافات اور شکایات موجود ہیں جو ہر کچھ عرصے کے بعد سر اٹھا رہی ہیں۔ یاد رکھیں پانی کی دستیابی اور معیار کو یقینی بنانا انسانی بہبود، معاشی ترقی اور ہماری زمین کی مجموعی صحت و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔

آئیے انسانی تہذیب و تمدن، معاشرت و سیاست اور صنعت و معیشت کے ارتقائی عمل میں پانی کی اہمیت پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

دنیا کے بڑے سمندروں نے انسانی تہذیب و تمدن، معاشرت و سیاست اور صنعت و معیشت کے ارتقا میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ معلوم تاریخ کے آغاز سے، انسانوں کو، ان کی ضروریات نے سمندروں کی طرف کھینچا ہیں، کیونکہ انہیں نقل و حمل، تلاش و جستجو، تجارت و معیشت اور وسائل و معدنیات کے لیے سمندروں کی ضرورت تھی۔

بحر اوقیانوس، خاص طور پر، دنیا کی طاقتور ترین قوموں کی ترقی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس کے دونوں کناروں پر یورپ اور امریکا واقع ہیں۔ ٹرانس اٹلانٹک غلاموں کی تجارت، جو 16ویں صدی سے 19ویں صدی تک چلتی رہی، نے افریقہ اور امریکہ دونوں کی معیشتوں اور معاشروں پر گہرا اثر ڈالا۔ بحر اوقیانوس کے تجارتی راستوں کا کنٹرول نوآبادیاتی توسیع اور سلطنتوں کی تشکیل کا ایک اہم محرک تھا، جس میں یورپی طاقتیں سمندروں پر تسلط کے لیے کوشاں رہیں۔

اس طرح بحر الکاہل نے عالمی سیاسیات اور معاشیات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک بڑے اقتصادی پاور ہاؤس کے طور پر ایشیا کے لیے، بحر الکاہل عروج پانے کا بہت بڑا ذریعہ ثابت ہوا۔ چین، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک بحر الکاہل سے اپنی جغرافیائی قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے برآمد کنندگان اور مینوفیکچررز بننے میں کامیاب رہے ہیں، جس سے اقتصادی ترقی و توسیع کو موقع ملا ہے۔

اس طرح بحر ہند صدیوں سے تجارتی اور ثقافتی تبادلے کا ایک اہم مرکز رہا ہے۔ عرصہ دراز سے مسالوں کی تجارت، جس نے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا کو باہم جوڑ دیا، یہ چیز سلطنتوں کی توسیع، مذاہب کی ترویج اور ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے پیچھے ایک طاقتور محرک تھی۔ آج بھی، بحر ہند ایک اہم اسٹریٹجک مقام بنی ہوئی ہے، مختلف ممالک اس کے جہاز رانی کے راستوں پر کنٹرول اور اس کے قدرتی وسائل تک رسائی کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔

اپنی اقتصادی، تجارتی اور سیاسی اہمیت سے ہٹ کر، دنیا کے بڑے سمندروں نے انسانی معاشروں اور ثقافتوں کی ترقی پر بھی بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔ ساحلی اقوام کو اکثر سمندروں سے ان کی قربت کی وجہ سے مختلف ذرائع دستیاب رہے ہیں، مثلاً ماہی گیری، سمندری تجارت اور جہاز سازی وغیرہ ان کے طرز زندگی میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔ سمندروں نے فن، ادب اور افسانوی ادب کو بھی متاثر کیا ہے، سمندروں نے انسانی تخیل کو اپنی گرفت میں لے کر قدرتی دنیا کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ کو بڑھاوا دیا ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتے ہوئے ماحولیاتی دباؤ کے پیش نظر، سمندر انسانیت کے مستقبل کے لیے اور بھی اہم ہو گئے ہیں۔ سمندروں کی صحت اور سلامتی 21ویں صدی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہماری صلاحیت، عقل مندی اور انصاف پسندی کے لیے ایک اہم موقع ثابت ہوگا، یہ چیلنجز سمندری راستوں کی تحفظ سے لے کر اور سطح سمندر میں اضافے سے گزر کر زوال پذیر حیاتیاتی تنوع تک دراز ہیں۔ اس طرح، آنے والے برسوں میں ہمارے سمندری وسائل کا محتاط نظم و نسق اور ذمہ داری انتہائی اہمیت کی حامل ہوگی۔ گزشتہ کچھ عرصے سے مختلف ممالک اور طاقتوں نے سمندری خطوں میں ایک دوسرے کا نشانہ لیا ہے جو کہ انسانی سلامتی کے تناظر میں حد درجہ تشویشناک امر ہے۔ لمحہ موجود میں ہم کئی سنگین چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں، انسانوں کو چاہیے کہ ان اہم وسائل کے پائیدار اور ذمہ دارانہ انتظام و انصرام کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے انصاف، ادراک اور اعتدال سے مطابقت رکھنے والے طرزِ عمل کو فروغ دیں کیونکہ یہ انسانوں اور سمندروں دونوں کی تحفظ اور سلامتی کے لیے حد درجہ ضروری ہے۔

آئیے دنیا کے بڑے سمندروں پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

یاد رکھیں دنیا کے بڑے سمندر کم و بیش 139 ملین مربع میل پر محیط ہیں اور یہ احاطہ زمین کی سطح کا تقریباً 71 فیصد بنتا ہے۔ پانی کے یہ وسیع پیمانے پر موجودگی کرہ ارض کی آب و ہوا کو منظم کرنے، سمندری ماحولیاتی نظام کو متوازن رکھنے اور عالمی تجارت اور نقل و حمل کی سہولت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ان پانچ بڑے سمندروں میں بحر الکاہل، بحر اوقیانوس، بحر ہند، بحر منجمد شمالی اور بحر منجمد جنوبی شامل ہیں۔

بحرالکاہل دنیا کے سمندروں میں سب سے بڑا سمندر ہے، جو 63 ملین مربع میل پر محیط ہے۔ یہ آمریکہ کے مغربی ساحل سے ایشیا اور آسٹریلیا تک پھیلا ہوا ہے۔ بحرالکاہل اپنی گہری کھائیوں کے لیے جانا جاتا ہے، ان میں ماریانا ٹرینچ جو تقریباً سات میل کی گہرائی تک پہنچتی ہے، جو اسے زمین کا سب سے گہرا مقام بناتی ہے، بھی شامل ہے۔ بحر الکاہل کے بڑے ذیلی سمندروں میں مشرقی بحیرہ چین، جنوبی بحیرہ چین، بحیرہ جاپان اور مشرقی سمندر شامل ہیں۔ بحرالکاہل دنیا کی سب سے بڑی مچھلی، وہیل شارک سے لے کر مشہور بحر الکاہل کے مرجان کی چٹانوں تک متنوع سمندری حیات و سامان کا گھر ہے۔

بحر اوقیانوس تقریباً 31 ملین مربع میل پر محیط ہے اور اس کی سرحدات مغرب میں امریکہ اور مشرق میں یورپ اور افریقہ سے ملتی ہے۔ یہ شمال میں آرکٹک اوقیانوس اور جنوب میں جنوبی اوقیانوس سے جڑتا ہے۔ گلف سٹریم، ایک طاقتور گرم سمندری دھارا، شمالی امریکہ کے مشرقی ساحل کے ساتھ شمال کی طرف بہتا ہے۔ بحر اوقیانوس کے سمندری فرش میں زیر آب پہاڑی سلسلے، گہری کھائیاں اور وسیع معدنیاتی ذخائر شامل ہیں۔ بحر اوقیانوس کے اہم ذیلی سمندروں میں بحیرہ روم، کیریبین اور نارویجن سمندر شامل ہیں۔ بحر اوقیانوس سمندری حیات کے وسیع تنوع اپنے دائروں میں رکھتی ہے۔

بحر ہند، جو تقریباً 27 ملین مربع میل پر محیط ہے، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا سے گھیرے ہوئے ہے۔ یہ جنوب میں جنوبی بحر اور مشرق میں بحر الکاہل سے جڑتا ہے۔ بحر ہند انڈونیشین تھرو فلو کے لیے قابل ذکر ہے، ایک بڑا سمندری دھارا ہے جو بحر الکاہل سے بحر ہند تک گرم پانی کو منتقل کرتا ہے۔ بحر ہند کے اہم ذیلی سمندروں میں بحیرہ احمر، خلیج فارس اور بحیرہ عرب شامل ہیں۔ بحر ہند نے ساحلی اور سمندری ماحولیاتی نظام کے تنوع کو برقرار رکھی ہوئی ہے یعنی مینگروو کے جنگلات سے لے کر مرجان کی چٹانوں تک، جو ایشیائی ہاتھیوں اور بنگالی ٹائیگرز جیسی مشہور انواع کا گھر ہے۔

آرکٹک اوقیانوس، جس کا سائز تقریباً 5.4 ملین مربع میل ہے، دنیا کے بڑے سمندروں میں سب سے چھوٹا سمندر ہے۔ یہ تقریباً مکمل طور پر زمین سے گھرا ہوا ہے، جس کے مغرب میں شمالی امریکہ، مشرق میں یورپ اور جنوب میں ایشیا ہے۔ آرکٹک اوقیانوس سال کا بیشتر حصہ سمندری برف سے ڈھکا رہتا ہے، حالانکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ برف کا احاطہ تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ اس کے اہم ذیلی سمندروں میں بیرنٹس، کارا، لیپٹیو اور بیفورٹ سمندر شامل ہیں۔ قطبی ریچھ، والروسز اور ہجرت کرنے والے مختلف نسل کے پرندوں سمیت انتہائی سردی کے لیے موزوں مخلوقات کو موافق ماحولیاتی نظام دستیاب رکھتا ہے۔

جنوبی بحر، تقریباً 7.8 ملین مربع میل پر محیط ہے، انٹارکٹیکا کو گھیرے ہوئے ہے اور بحر اوقیانوس، بحر ہند اور بحر الکاہل سے جڑتا ہے۔ جنوبی بحر اس کے سخت ماحول کے لیے جانا جاتا ہے، بشمول تیز ہوائیں، بڑی لہریں، اور کم درجہ حرارت۔ اس میں بحیرہ راس شامل ہے، جو زمین پر سب سے قدیم سمندری ماحولیاتی نظام میں سے ایک ہے، نیز شہنشاہ پینگوئن اور انٹارکٹک بلیو وہیل جیسی مشہور انواع بھی اس میں پائے جاتے ہیں۔

یاد رکھیں دنیا کے بڑے سمندر زمین کی آب و ہوا کو کنٹرول کرتے ہیں، سمندری زندگی کے وسیع تنوع کو برقرار رکھتے ہیں اور عالمی نقل و حمل اور تجارت کو آسان بناتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سمندروں کو آلودگی، ضرورت سے زیادہ ماہی گیری اور موسمیاتی تبدیلیوں سے بڑھتے ہوئے خطرات سے بچانے میں انسان من حیث النوع اپنا کردار ادا کرے۔ دنیا کے سمندروں کی حفاظت اور پائیدار انتظام کرنا کرہ ارض اور خود انسانیت کی صحت اور سلامتی کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ سمندروں کی تحفظ کے سلسلے میں اعتدال پسند طرزِ عمل، سائنسی تحقیق، بین الاقوامی تعاون اور ٹھوس تحفظ کی کوششیں ان بے پناہ اور انمول قدرتی وسائل کی طویل المدتی کارآمدگی کو یقینی بنانے میں مددگار عوامل ہوں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے