چمنستانِ تضادستان

انگریزی طنز نگار جوناتھن سوئفٹ (1745-1667) تاریخ دان کرنل جیمزٹاڈ (1835-1720) اورسعادت حسن منٹو (1955-1912) کی عالم بالا میںبہت گاڑھی چھنتی ہے۔ تینوں اکثر اکٹھے دیکھے جاتےہیں۔ سوئفٹ، گلیور ٹریولز میں بیان کی گئی بونوں اور لمبوں کی کہانیاں اور اس میں چھپے طنز کی تشریح کرتاہے جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم کرنل جیمز ٹاڈ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’چمنستانِ بہارستان راجستھان (Annals and Antiquities of Rajasthan) میں بیان کی گئی تاریخ کے حوالے دیتاہے۔ سعادت حسن منٹو اپنی تحریروں اور اپنے تجربات سے ہندوستان و پاکستان کے تضادات اور منافقانہ انسانی رویوں کی داستان سناتےہیں۔ اپنے اپنے شعبوں کے امام اکٹھے ہوتےہیں تو منٹو کہتےہیں کہ گلیور کو تضادستان بھی جانا چاہیے سوئفٹ جواب دیتے بونوں اور لمبوں کی کہانی کے بعد کیا تضادستانیوںکی کہانی کی گنجائش بھی ہے؟ کرنل جیمز ٹاڈ کہتے ہیںراجستھان کی تاریخ لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ماضی سے آگاہی ، شعور میں اضافہ کرتی ہے اور اس سے مستقبل کاتعین ہوتا ہے ۔بالآخر تینوں میں طے ہوا کہ گلیور کو تضادستان کے آج کے حالات کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ لوح محفوظ پر ان کے کارنامے بھی تحریر ہو جائیں۔

گلیور جونہی تضادستان آیا اسے ہرطرف لڑائی جھگڑے اور دنگا فساد نظر آیا، گھروں میں جھگڑے، میاں بیوی سے لڑ رہا ہے، ساس بہو سے لڑ رہی ہے، بھائی بھائی سے جائیداد پر جھگڑا کر رہا ہے، تاجر گاہکوں سے لڑتے ہیں، زمیندار مزارعوں سے شکوہ کناں ہیں ، عورتیں مردوں سے اور مرد عورتوں سے گلہ گزارہیں، عوام ریاست اور فوج کو برا بھلا کہتے ہیں، ریاست کو عوام سے شکوے ہیں، ووٹر، سیاستدانوں کو اچھا نہیں جانتے اور سیاستدان ووٹر کو بے شعور سمجھتا ہے، صحافی سیاست اور تعصب کا شکار ہیں ، سچ لکھتے ہیں تو لوگ ناراض ہوتے ہیں ان کی مرضی کا سچ لکھیں تو واہ واہ کرتے ہیں، ان سے اختلاف کریں تو گالیوں پر اُتر آتے ہیں ،اساتذہ جو کچھ پڑھاتے ہیں اس کا عملی زندگی میں کوئی عمل دخل نہیں ،تحقیق کے نام پر جو کام کیا جاتا ہے وہ الماریوں کی زینت بنتا ہے اس سے کوئی عملی فائدہ نہیں ہوتا۔

گلیور تضادستان میں یہ دیکھ کر حیران ہوگیا کہ یہاں کے سب سے بڑے جرائم جائیدادوں پر قبضہ اور لوگوں سے فراڈ ہے، متاثرہ فریق برسوں ایڑیاں رگڑتا ہے، عدالتیں رشوت لے کر لمبے سٹے آرڈر دے دیتی ہیں،کئی وکلا، پولیس اور قبضہ گروپس آپس میں مل کر لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ گلیورکو سب سے بڑی حیرانی یہ ہوئی کہ تضادستان میں سب سے امیر صنعت کار نہیں بلکہ پراپرٹی ڈیویلپر ہیں اور حد یہ ہے کہ یہاں پر سیاست میں بھی سب سے بااثر وکلا، سیاستدان، صحافی یا علماء نہیں بلکہ یہی پراپرٹی ڈیویلپرہیں۔بڑی بڑی حکومتی پالیسیاں اور پراجیکٹس انکے مشورے سے بنتےہیں اور پھر وہ ان سے منافع کماتے ہیں ۔معاشرے میں دانش، عقل اور سمجھ بوجھ نہیں دولت، طاقت اور اسلحے کی حکمرانی ہے جو جتنا امیر اور بدمعاش ہے اتنا ہی معاشرے میں بااثر ہے، شہروں میں قبضہ گروپوں اور بدمعاشوں نے علاقے بانٹ رکھے ہیں ہر بڑی ڈیل اور پراپرٹی میں ان کا حصہ ہوتا ہے۔ سیاستدانوں کے بدمعاشوں اور پراپرٹی ٹائیکونز سے خفیہ اور ظاہری رابطے ہیں دونوں ایک دوسرے کے کام میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔

گلیور کا مشاہدہ یہ ہے کہ تضادستان میں کسی نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ،سارے سیاستدان اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں جس سے پہلے وہ ڈنک کھاچکے ہوتےہیں ۔پہلے ایک پارٹی طاقتوروں سے مل کر مخالفوں کو لتاڑتی ہے پھر دوسری پارٹی کی طاقتوروں سے صلح صفائی اور ڈیل ہو جاتی ہے تو وہ دوسری جماعت کو نشانہ ستم بناتی ہے انتقام کا یہ دائرہ 75 سال سے چل رہا ہے اور ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔ دنیا بھر کی سیاسی جماعتوں نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ورکنگ تعلقات کے اصول بنا لئے ہیں تضادستان میں وہی 75 سال پرانے حالات ہیں۔

گلیور کیلئے حیرت کی بات تھی کہ تضادستان کی پڑھی لکھی حتیٰ کہ ڈاکٹری کی تربیت لینے والی خواتین بھی شادی کے بعد گھر بیٹھ جاتی ہیں اس ملک کی 51 فیصد خواتین گھروں میں بٹھا دی گئی ہیں جبکہ بنگلہ دیش اور سعودی عرب میں بھی عورتیں کام کر رہی ہیں، اپر مڈل کلاس کی خواتین اپنا علم بانٹنے کے بجائے بن سنور کر ٹی وی سیریل دیکھنے کوترجیح دیتی ہیں ،معاشرے کی اصلاح یا معاشرے کی ترقی میں حصہ داری کی مشکل میں نہیں پڑتیں۔ اس معاشرے کے مرد خواتین کو گھورتے ہیں وہ دفتر میں ہوں یا سٹرک پر ان کے بارے میں کھسر پھسر کرتے ہیں ،عورتوں کو آگے نہیں بڑھنے دیتے اسی لئے معاشرے میں عورت کا کام کرنا آج بھی قابل قبول نہیں ہے۔

گلیور نے نوٹ کیا کہ یہاں کے لوگ بہت ہی ناشکرے ہیں ہر کوئی جی بھر کر تین وقت کی روٹی کھاتا ہے مگر پھر بھی ہر وقت ناراض رہتا ہے، شکوے کرتا ہے، تاجر لاکھوں کماتا ہے اور کہتا ہے مندا چل رہا ہے، صنعت کار کروڑوں کا منافع حاصل کرتا ہے مگر کہتا ہے حکومتی پالیسیاں ٹھیک نہیں۔ ہر کوئی بجلی، پانی، سڑک اور امن و امان کے نظام سے فائدہ اٹھاتا ہے مگر کہتا ہے کہ ریاست ناکام ہے۔ کاریں ہیں، گھر میں دولت کی ریل پیل ہے پھر بھی اوپری طبقے کاٹیپ کا فقرہ ہے کہ’’ معاشرہ زوال کا شکار ہے ‘‘۔جو ملک ان کو شناخت اور آزادی دیتا ہے وہیں سے متمول لوگ باہر جا کر مقیم ہونے کے متمنی ہیں، جہاں جا کر دو نسلوں کے بعد وہ اپنی شناخت اپنی ثقافت حتیٰ کہ قریبی رشتے بھی کھو بیٹھتے ہیں یہاں کے لوگ عجیب ہیں جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹتے رہتے ہیں ،جس ریاست کا پھل اور اناج کھاتے ہیں اسی کو کوستے ہیں جو ریاست ان کو پالتی، پوستی اور تعلیم و تربیت دیتی ہے یہ اسی کے خلاف ہر وقت باتیں کرتے ہیں۔

گلیور اس نتیجے پر پہنچا کہ اس معاشرے میں ہر فرد بڑا ٹیلنٹڈہے مگر جب یہ اجتماعی کام کرتے ہیں تو ناکام ہوتے ہیں فرداً فرداً سب کامیاب ہو جاتے ہیں مگر جہاں اجتماعی سیاست ہو، شراکتی کاروبار ہو، سماجی تنظیم ہو یا کوئی بھی اجتماعی معاشرتی مسئلہ یہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے ان کا ہر اجتماعی ادارہ پارلیمان، عدلیہ، صحافت اور انتظامیہ سبھی ناکام ہو جاتے ہیں حالانکہ اس میں کام کرنے والے افراد انفرادی طور پر اچھے ہوتے ہیں مگر انہیں اجتماعی نظم و ضبط نہیں آتا۔

گلیور نے تجربے سے سیکھا کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ جذباتیت ہے یہاں عقل کی نہیں جذبات کی حکمرانی ہے، محبت ہے تو شدت کی اور نفرت ہے تو وہ بھی انتہا کی۔ دلیل اور منطق کو ماننے کی بجائے دل کی بات مانی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں اب کوئی بھی ایسے نہیں سوچتا جیسے تضادستانی سوچتے ہیں۔

گلیور نے جوناتھن سوئفٹ سےتضادستان کے بارے اپنےتجربات اور مشاہدات بیان کئے تو سوئفٹ، کرنل جیمزٹاڈ اور منٹونے مشترکہ ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا کہ سیاست دان عطار کے لونڈے سے دوالینا بند کریں، یونیورسٹیاں عملی تجربہ گاہ بنیں، خواتین کو عملی زندگی میں لایا جائے، ادارے اپنی آئینی حدوں میں رہیں، ناشکری کو ختم کرکے ترقی کو ہدف بنایا جائے، انتقام کی بجائے مفاہمت کا راستہ اپنایا جائے۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے