انسان کی معراج

فلسفی ہزاروں سال سے یہ سوال پوچھتے آئے ہیں کہ انسان کی زندگی میں سب سے اہم چیز کیا ہے؟ جس کے بغیر انسان، انسانیت کی معراج نہیں پاسکتا۔ اور یہ سوال فلسفی کے علاؤہ ایک عام انسان سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ انسان کے اوپر موقعے اور حالات کی مناسبت سے ان سوالات کے جوابات آشکار ہوتے ہیں۔

اگر ہم کسی بھوکے شحض سے سوال کریں کہ اس کیلئے زندگی میں سب سے اہم چیز کیا ہے؟ تو وہ بلا جھجک جواب دے گا "روٹی“۔ ایک اور شخص ہے، جو سردی کی شدت سے مر رہا ہے مگر اس کا جواب پہلے والے شخص کے جواب سے جدا ہوگا۔ وہ کہے گا کہ مجھے ایک کمبل یا رضائی مل جائے اور یہ سخت سردی کی رات کٹ جائے۔ تیسرا شخص جس کے گھر میں مالی مسائل چل رہے ہیں، لوگوں کا مقروض ہے، تو اس کیلئے پیسا ہی زندگی کی سب سے ضروری چیز ہوگی۔ چوتھا شخص جسکے پاس زندگی کی ساری ضروریات اور آسائشیں موجود ہیں (جس کی تمنا گزرے ہوئے تینوں اشخاص کے دل میں ہے) مگر اس کے کوئی دوست یار، قربت دار نہیں ہیں یعنی اس کی زندگی میں معاشرتی دائرے کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے، تو اس شخص کیلئے زندگی کی ضروری چیز حلقہ یاراں کی محفل ہے۔ یہ ساری چیزیں جو ابھی بیان ہوئیں، اس کا تعلق انسان کے خاص ماحول سے ہے۔ انسان پر جس قسم کے حالات قابض ہوں گے، انسان کی سوچ اس حالات کی غمازی کرے گی اور ضروریات بھی وہ اسی حساب سے منتخب کرے گا۔ عام فہم انداز میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی سوچ، اور اس کی زندگی کی اہم ضرورت، اس کا تعین انسان خود نہیں بلکہ اس پے گزرے ہوئے حالات کرتے ہیں۔

اگر ہم انسان کی ان ساری ضروریات کو پورا کر دیں، تب بھی انسان میں کوئی نہ کوئی حسرت باقی رہے گی۔ فلسفی کہتے ہیں کہ انسان جسمانی بھوک سے مطمئن نہیں ہو سکتا۔ محبت، دیکھ بھال اور ہم نشیں بھی لازمی ہیں، مگر سب سے زیادہ ضروری چیز انسان کی زندگی میں انداز عقلی اور تجسّس بے اطمینانی ہے۔ انسان تجسّس پسند ہے۔ انسان میں تجسسیت فطری طور پہ موجود ہے۔ اس تجسس پسندیت کے چلتے ہوئے انسان اطمینان، ذہنی سکون، مقصد انساں اور مختلف عالم ارض کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ انسان تجسّس کی پیاس بجھانے کیلئے خود کے وجود کے متعلق، دنیا کے متعلق، خدا کے متعلق، کائنات کے متعلق، موت اور زندگی کے متعلق برسوں سے سوالات اٹھا رہا ہے۔ دو ہزار سال قبل ایک فلسفی کی تحقیق تھی، کہ فلسفہ انسان کی زندگی میں انقلاب لا سکتا ہے۔ پتھر کے دور سے لے کر ماڈرن دور تک انسان نے جو ترقی کے منازل طے کئے اس کے پیچھے تجسس کی فطری طاقت کارفرما تھی۔ تو واقعی، تجسس سے فلسفہ ابھرا اور فلسفے نے یہ دنیا بدل ڈالی اور یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔

انسانیت کی معراج یہی ہے کہ انسان اپنے اندر کے تجسس، جوکہ خدا نے اپنی خدائی کے ظہور کیلئے رکھی ہے اس کو مرنے نہ دے۔ جان اسٹورٹ مل نامی ایک فلسفی نے 1863 میں ایک کتاب پبلیش کی جس کا عنوان یوٹیلیٹینیزم (Utilitarianism) تھا۔ اس کتاب میں انہوں نے ایک بات کہی جس نے مجھے بہت متاثر کیا۔ انہوں نے لکھا کہ ”ایک نامطمئن انسان بہتر ہے، ایک مطمئن سور سے۔ اور نامطمئن سقراط بہتر ہے ایک مطمئن جاہل سے“۔ مل کا کہنا ہے کہ ایک ذی عقل شخص کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ وہ آسائش کیلئے، ذہنی خلفشار سے بچنے کیلئے ایک کتا یا سور بنے۔ ایک جاہل انسان کی سکون کی زندگی ایک جانور کی زندگی سے بدتر ہے۔

زندگی کی اصل چیز، جس کو ہم زندگی کا جوہر کہہ سکتے ہیں وہ تجسس ہے، سوچ ہے، غور وفکر ہے۔ ناکہ صرف جسمانی تسکین اور اطمینان۔۔ زندگی کی اچھائی صرف علم ہے اور برائی کا دوسرا نام جہالت ہے۔

دنیا کا ہر اک فلسفی، ہر مذہب آپ کو سوچ، غور وفکر اور سوال اٹھانا سکھاتا ہے۔ ہم اگر قرآن کریم کا مطالعہ کریں جو کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب ہے، تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللّٰہ نے انسان کو عقل اور غور وفکر کی بنیاد پر متعارف کروایا ہے۔ یعنی انسان کی بنیاد ہی غور وفکر ہے جو انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز بناتی ہے۔ قرآن نے ہر انسان پر ذمہداری عائد کی ہے کہ وہ سوالات اٹھائے، سوچے، سمجھے، غور وفکر کرے، اندھی تقلید سے پرہیز کرے۔ قرآن کی سورۃ یونس کی آیت نمبر 100 میں اللّٰہ کا ارشاد ہے کہ ”اللّٰہ کفر کی گندگی انہیں لوگوں پر ڈالتا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے“۔ دوسری جگہ سورۃ الانفال کی آیت نمبر 22 میں ارشاد ہے کہ ”اللّٰہ کے نزدیک بدترین جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے“۔

اللّٰہ سورت الفرقان کی آیت نمبر 44 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ”تمھارا خیال ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ نہیں! ان کی مثال تو بس چار پاؤں کے جانوروں کی سی ہے، بلکہ یہ ان سے زیادہ راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں“۔ قرآن میں ایسی بے شمار آیتیں ہیں جو کہ انسان کو جسمانی ضروریات، سکون اور اطمینان کی بنسبت غور وفکر کی طرف راغب کرتی ہے، جوکہ انسان کی زندگی کا اہم جوہر ہے۔ اور اسی جوہر کی وجہ سے آدم سجدے کا مستحق ٹھہرا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
فرشتہ مجھکو کہنے سے میری تحقیر ہوتی ہے۔
میں مسجود ملائک ہوں مجھے انسان ہی رہنے دو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے